لاہور(جدوجہد رپورٹ)فائٹ ان ایکویلٹی الائنس(ایف آئی اے) پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو لبرل نظام معیشت اپنانے کے بعد یہ سمجھا گیا تھا کہ آزاد منڈی کے اثرات نیچے تک پہنچیں گے، جس کا مطلب یہ تھا کہ نچلے طبقات کے لوگ بھی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے اقتصادی فوائد حاصل کر سکیں گے۔ تاہم کرونا کے آغاز کے ساتھ یہ سرمایہ دارانہ تصور، جو نیو لبرل ایجنڈے سے جڑا ہوا تھا، بری طرح بے نقاب ہو گیا۔ یہ واضح ہوا کہ مٹھی بھر لوگ عالمی دولت کا ایک بڑا حصہ رکھتے ہیں۔ نتیجتاً، دنیا بھر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امیر لوگ امیرتر ہوتے گئے اور غریب مزید غربت میں دھنستے چلے گئے۔
بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آمدنی، نسل، قومیت اور مذہب کی بنیاد پر عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا ہوناحکمران اشرافیہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی واضح ناکامی ہے۔ ریاست کی خودمختاری کے تحت لیے گئے قرضے زیادہ تر اشرافیہ کی عیاشیوں کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن جب ان قرضوں کی واپسی کا وقت آتا ہے تو غریب عوام کو براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھٹتی قوت خرید کے ذریعے متاثر کیا جاتا ہے۔
صحت اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی کمی غریب آبادی کی مایوسی کو مزید بڑھا رہی ہے کیونکہ انہیں اپنی صحت کی ضروریات/ایمرجنسیز پوری کرنے اور جدید دنیا میں ترقی کے لیے درکار ڈیجیٹل مہارتیں حاصل کرنے کے لیے آزاد مارکیٹ میں مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اور یہ دونوں چیزیں وہ واضح طور پر اپنی مدد آپ کے تحت برداشت نہیں کر سکتے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو پاکستان میں عدم مساوات کے اسباب میں شامل ہے، وہ زرعی شعبے سے متعلق ہے۔ پاکستانی فوج اپنے تازہ ترین منصوبے،کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ، کے تحت پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں بڑی مقدار میں زمین پر قبضہ کر رہی ہے، جس کے خلاف چھوٹے کسانوں نے بھی احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباً 75 فیصد گھرانوں کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 0.05 فیصد گھرانے پنجاب اور سندھ میں 2 ہیکٹر سے زیادہ زمین کے مالک ہیں، جو زمین کی ملکیت کے انتہائی غیر متوازن انداز کی نشاندہی کرتا ہے۔اسی طرح پاکستان میں آج تک زرعی اصلاحات نہ ہونا بھی عدم مساوات کی بڑی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ افراد یا گھرانوں کے پاس ہزاروں ایکٹر زمین ہے جبکہ اکثریت کے پاس زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ پاکستان اسٹینڈرڈ لونگ میژرمنٹ کے سروے (PSLM) کے مطابق 2008 میں کرائے پر رہنے والے افراد کی تعداد 14.8 فیصد تھی جو 2022 تک بڑھ کر 22 فیصد ہو گئی۔ اسی طرح زرعی رقبے میں بے زمین ہاریوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں امیروں کے 1% افراد کا آمدنی کا حصہ 30.2فیصد ہے، جو کہ 40 فیصد مڈل کلاس آبادی کی مشترکہ آمدنی سے تھوڑا زیادہ ہے، جبکہ نچلے 50فیصد کا حصہ صرف 11.6فیصد ہے۔
آئی ایم ایف کی مضبوط گرفت نے ریاستی اداروں کو ملک کی مظلوم اکثریتی آبادی کیلئے کچھ بھی بہتر کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے فیکٹری مزدوروں کے لیے 37,000 روپے کی کم از کم اجرت کا اعلان کیا تھا، لیکن یہ فیصلہ کبھی نافذ نہیں کیا گیا۔ مزدوروں کو بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ جب وہ اجتماعی طور پر اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ملک کی محنت کش اور تنخواہ دار طبقے پر بالواسطہ ٹیکسوں، جیسے کہ جی ایس ٹی کا غیر منصفانہ طور پر بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ حکومت نے پچھلے بجٹ میں وعدہ کیا تھا کہ بنیادی اشیاء، جیسے کھانے پینے کی اشیاء پر جی ایس ٹی نہیں لگایا جائے گا، لیکن حالیہ بجٹ میں 388 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف اشرافیہ کو اپنے کاروبار میں مزید سرمایہ کاری اور توسیع کے لیے سبسڈیز دی جاتی ہیں اور انہیں کچھ ٹیکسوں میں چھوٹ بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی تحقیق کے مطابق، اشرافیہ کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ اور رعایتوں سے قومی خزانے کو سالانہ تقریباً 1.5 کھرب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس میں مختلف شعبوں میں ٹیکس چھوٹ، کم ٹیکس کی شرحیں اور دیگر رعایتیں شامل ہیں۔
آئی ایم ایف کے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز کے معاہدوں کا خمیازہ ملک کے مضافاتی علاقوں، کچی آبادیوں اور زیادہ تر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے بے اختیار عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جنہیں ریاست نے خود مختار ضمانت فراہم کی ہے۔ چونکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، اس لیے غریب عوام کی فلاح و بہبود، ترقی اور خوشحالی کے لیے بجٹ کی مختص رقم پر ہمیشہ منفی اثر پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، قرضوں کی ادائیگی پر حکومت کی کل آمدنی کا تقریباً 40-50 فیصد خرچ ہو رہا ہے۔
عدم مساوات کا پیمانہ محض اوسط آمدنی کو بنیاد بنا کر نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس کے دیگر بہت سے معاشرتی پہلو بھی ہیں جنہیں منصفانہ، پرامن اور خوشحال دنیا کے حصول کے لیے مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ عدم مساوات کو جنس، مذہب، ذات، نسل اور جسمانی رنگتکی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں صنفیتفریق کو ختم کرنے کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے، جہاں خواتین کیمحنت کش قوت میں شمولیت صرف 20-25 فیصد ہے جو کہ معاشیسرگرمیوں میں خواتین کی کم شمولیت کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر فیکٹریوں میں خواتین کی مردوں کے برابر تنخواہ نہ ہونا ایک خاص معاشی استحصال ہے۔ اس کے علاوہ، مذہبی اقلیتوں کو بُری طرح دبایاجاتا ہے اور نچلی ذات کے لوگ کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو چند مخصوص اور چھوٹی نوکریاں دینا ریاستی سطح پر عدم مساوات کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح مذہب اور مسلک کی بنیاد پر تفریق ایک عام سی بات ہے جس کا براہِ راست معاشیات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
مزید برآں، جب ہم اپنے سروں پر منڈلاتی ہوئی ماحولیاتی تباہی کے خطرے کو دیکھتے ہیں (جو کہیں گلیشیر پگھلنے، اچانک سیلاب، شدید موسم اور خشک سالی کی صورت میں اپنے سنگین اثرات دکھا رہی ہے)، تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ پسماندہ لوگ یکجا ہو کر طاقتور 1 فیصد کے خلاف یکجہتی کی جدوجہد کریں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، حالانکہ پاکستان کا کاربن اخراج کا حصہ صرف 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ 2022 کے سیلاب میں 33 ملین افراد بری طرح متاثر ہوئے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد کو ابھی تک معاوضہ نہیں ملا۔ لہذا موسمیاتی بحران بھی عدم مساوات بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس چیلنج سے نمٹے بغیر عدم مساوات کے خلاف جنگ ناممکن ہے۔
پس یہ ضروری ہو گیا ہے کہ طاقتور 1 فیصد اشرافیہ کو ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے متعدد معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا سبب بن رہے ہیں اور جس سے عام لوگوں کی اکثریت متاثر ہو رہی ہے۔ ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ اکثریت کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہی جبکہ ریاست کی سرپرستی میں ایک چھوٹی سی اشرافیہ امیر تر امیر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اپنائے گئے غیر موثر اقدامات ہیں۔ نجکاری، ضابطوں کی کمی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جیسی پالیسیوں نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، اس لیے انہیں چیلنج کرتے ہوئے متبادل انقلابی مطالبات، جیسے کہ قرضوں کی منسوخی، موسمیاتی معاوضے، زمین کی اصلاحات اور خوراک کی خود مختاری کو فوری اپنانے کی ضرورت ہے۔
آئی ایم ایف کے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز کے معاہدوں کا خمیازہ ملک کے مضافاتی علاقوں، کچی آبادیوں اور زیادہ تر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے بے اختیار عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جنہیں ریاست نے خود مختار ضمانت فراہم کی ہے۔ چونکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، اس لیے غریب عوام کی فلاح و بہبود، ترقی اور خوشحالی کے لیے بجٹ کی مختص رقم پر ہمیشہ منفی اثر پڑتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، قرضوں کی ادائیگی پر حکومت کی کل آمدنی کا تقریباً 40-50 فیصد خرچ ہو رہا ہے۔
عدم مساوات کا پیمانہ محض اوسط آمدنی کو بنیاد بنا کر نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس کے دیگر بہت سے معاشرتی پہلو بھی ہیں جنہیں منصفانہ، پرامن اور خوشحال دنیا کے حصول کے لیے مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ عدم مساوات کو جنس، مذہب، ذات، نسل اور جسمانی رنگتکی بنیاد پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں صنفیتفریق کو ختم کرنے کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے، جہاں خواتین کیمحنت کش قوت میں شمولیت صرف 20-25 فیصد ہے جو کہ معاشیسرگرمیوں میں خواتین کی کم شمولیت کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر فیکٹریوں میں خواتین کی مردوں کے برابر تنخواہ نہ ہونا ایک خاص معاشی استحصال ہے۔ اس کے علاوہ، مذہبی اقلیتوں کو بُری طرح دبایاجاتا ہے اور نچلی ذات کے لوگ کام کی جگہوں پر امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کو چند مخصوص اور چھوٹی نوکریاں دینا ریاستی سطح پر عدم مساوات کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اسی طرح مذہب اور مسلک کی بنیاد پر تفریق ایک عام سی بات ہے جس کا براہِ راست معاشیات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
مزید برآں، جب ہم اپنے سروں پر منڈلاتی ہوئی ماحولیاتی تباہی کے خطرے کو دیکھتے ہیں (جو کہیں گلیشیر پگھلنے، اچانک سیلاب، شدید موسم اور خشک سالی کی صورت میں اپنے سنگین اثرات دکھا رہی ہے)، تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ پسماندہ لوگ یکجا ہو کر طاقتور 1 فیصد کے خلاف یکجہتی کی جدوجہد کریں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے دنیا کے دس سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، حالانکہ پاکستان کا کاربن اخراج کا حصہ صرف 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ 2022 کے سیلاب میں 33 ملین افراد بری طرح متاثر ہوئے اور ان میں سے 80 فیصد سے زائد کو ابھی تک معاوضہ نہیں ملا۔ لہذا موسمیاتی بحران بھی عدم مساوات بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس چیلنج سے نمٹے بغیر عدم مساوات کے خلاف جنگ ناممکن ہے۔
پس یہ ضروری ہو گیا ہے کہ طاقتور 1 فیصد اشرافیہ کو ان کی پالیسیوں اور اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے متعدد معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا سبب بن رہے ہیں اور جس سے عام لوگوں کی اکثریت متاثر ہو رہی ہے۔ ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ اکثریت کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہی جبکہ ریاست کی سرپرستی میں ایک چھوٹی سی اشرافیہ امیر تر امیر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اپنائے گئے غیر موثر اقدامات ہیں۔ نجکاری، ضابطوں کی کمی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جیسی پالیسیوں نے اس بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، اس لیے انہیں چیلنج کرتے ہوئے متبادل انقلابی مطالبات، جیسے کہ قرضوں کی منسوخی، موسمیاتی معاوضے، زمین کی اصلاحات اور خوراک کی خود مختاری کو فوری اپنانے کی ضرورت ہے۔