پاکستان

آبادی میں اضافہ: اسلام آباد کے سرسبز مناظر کنکریٹ کی یلغار سے ماند پڑنے لگے

عدنان عامر

تقریباً20سال تک ’مونال‘ نامی ایک ریستوران پاکستان کے دارالحکومت میں خوشحال طبقے کے افراد کے لیے ایک مقبول مقام رہا ہے۔ اسلام آباد کے مرکزی حصے سے اونچائی پر واقع، ایک سرسبز و شاداب پہاڑی پارک کی ٹھنڈی فضاء میں قائم یہ وسیع ریستوران اپنے دلکش نظاروں کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہ تیزی سے پھیلتے ہوئے شہر کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتا تھا۔

ایک وقت میں 1500افراد کے کھانے کی میزبانی کرنے والا مونال اب ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ گزشتہ سال ماحولیاتی کارکنوں کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے بند کرنیا ور اس کے وسیع ڈھانچے کو ماحولیاتی بنیادوں پر منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تھا تاکہ اس کی جگہ ہمالیہ کی پہاڑیوں کے دامن میں اسلام آباد کے کنارے پر واقع ایک محفوظ علاقے میں حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کیا جا سکے۔ یہ علاقہ نیویارک کے سینٹرل پارک سے 50گنا بڑا ہے۔

مونال کے قیام کے بعد سے جاری تیز رفتار شہری ترقی اور آبادی میں اضافے نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کی ترقی کا منصوبہ 1960کی دہائی کے اوائل میں یونانی ماہرِ تعمیرات کونسٹانٹینوس اپوسٹولوڈوکسیادیس نے تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کا مرکزی تصور یہ تھا کہ سرسبز و شاداب مناظر سے بھرپور اس علاقے کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جائے اور یہ سب ایسے شہر کے لیے تھا جس کی آبادی اس وقت 5لاکھ سے بھی کم تھی۔

تاہم مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق میٹرو اسلام آباد میں رہنے والے لوگوں کی تعداد2023میں 23لاکھ تھی، جو 5دہائیاں پہلے کی 2لاکھ آبادی سے 11گنا زیادہ ہے۔ حکومتی اندازوں کے مطابق2050تک اسلام آباد 44لاکھ افراد کا گھر ہو سکتا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مصنفین کے مطابق ”ترقی پذیر دنیا کے بیشتر شہروں کی طرح اسلام آباد کو ناکافی عوامی سہولیات، سستی رہائش، تجارتی اور دفتری جگہ کی کمی، بوسیدہ عوامی انفراسٹرکچر، غیر قانونی اور بے ترتیب ترقی اور بڑھتی ہوئی کچی آبادیوں کا سامنا ہے۔اس کے معمار سی اے ڈوکسیادیس کی جانب سے جو ’مستقبل کا شہر‘ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور جسے اس کے رہائشیوں نے اسے ’اسلام آباد دی بیوٹی فل‘ کا نام دیا تھا، وہ اب شہری زوال کے ایک اور معاملے میں بدل رہا ہے۔“

ماحولیاتی کارکنوں نے شہر کے سرسبز حصوں کو پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) کو ٹھہرایا ہے، جو اسلام آباد کے انتظام اور ترقی کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ تاہم سی ڈی اے کے ترجمان نے تبصرے کے درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

جب ماحولیاتی کارکن22اپریل کو یومِ ارض منانے کی تیاری کر رہے ہیں، اسلام آباد میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ورلڈ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق گزشتہ دسمبر اسلام آباد کی تاریخ کا سب سے زیادہ آلودہ مہینہ تھا۔ اس انڈیکس کی بنیاد PM2.5ذرات کی مقدار پر ہوتی ہے، جو پھیپھڑوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد کا انڈیکس250تک پہنچ گیا ہے، جو کہ ’انتہائی غیر صحت بخش‘ درجہ بندی میں آتا ہے، اور اس سطح پر باہر جسمانی سرگرمی سے گریز کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

اسلام آباد میں مقیم ایک ماحولیاتی وکیل محمد حسن دجانہ نے بتایا کہ ”کچھ سال پہلے جب آپ اسلام آباد جاتے تھے تو آپ کو سرسبز پہاڑوں اور صاف نیلا آسمان نظر آتا تھا۔ اب گاڑیوں اور صنعتوں کے اخراج کی وجہ سے مسلسل سرمئی کہرا چھایا رہتا ہے۔“

اسلام آباد 1967میں ایک ’ماسٹر پلان‘ کے تحت کراچی کی جگہ پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا تھا۔ یہ پلان اس وقت کے بااثر ماہر تعمیرات ڈوکسیادیس کے تیار کردہ گرڈ سسٹم پر مبنی شہر کے لیے تھا۔ 906مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری(آئی سی ٹی)سنگاپور سے بڑا ہے۔

یہ ملک کا واحد منصوبہ بند شہر ہے اور اسے کبھی ایک مثالی شہری ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ تاہم نسبتاً مستحکم سکیورٹی کے ساتھ شہر کی کشش نے بہت سے پاکستانیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کنکریٹ کی مسلسل تجاوزات کی وجہ سے سرسبز احاطہ سکڑتا جا رہا ہے۔

اگرچہ اسلام آباد میں کبھی بھی لاہور کی طرح بڑی قدیم علامات اور ثقافتی مقامات، یا کراچی جیسے کاروباری مراکز نہیں تھے، لیکن یہ شہر ہریالی اور فطرت سے قربت پیش کرتا تھا۔ اسلام آباد کے شمالی کنارے پر واقع مرکزی گرین زون ’مارگلہ ہلز نیشنل پارک‘ مختلف قسم کے پودوں اور جانوروں کا مسکن ہے، جس میں چیتے، جنگلی سؤر، بندر اور پرندوں کی متعدد اقسام موجود ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم ایک ماحولیاتی کارکن نیلو فر آفریدی قاضی نے بتایا کہ ”مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی بدولت اسلام آباد پاکستان کا واحد حقیقی طور پر رہنے کے قابل شہری علاقہ ہے۔“

مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں پہاڑی کی چوٹی پر 2006میں مونال ریستوران کاروبار کے لیے کھولاگیا تھا۔ یہ ابتدائی طور پر 100نشستوں اور میزوں پر مشتمل پارک کی ترتیب میں پھیلا ہوا تھا۔ تاہم جلد ہی مونال شہر کے مقبول ترین ریستورانوں میں سے ایک بن گیا، بہت بڑے ڈھانچے میں پھیل گیا اور سینکڑوں لوگوں کو ملازمت فراہم کرنے لگا۔

یہ انسانی تجاوزات گزشتہ سال اس وقت ختم ہو گئی تھیں، جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مونال جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اب پارک میں کام نہیں کر سکے گا اور اس کے مقام کو اس کی قدرتی حالت میں بحال کیا جائے۔

ایک پیدل چلنے کے قابل تصور کیا جانے والا پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد شہر اسلام آباد اب تیزی سے کاروں پر مرکوز شہر بنتا جا رہا ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سڑکوں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک نے کنکریٹ کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ٹریفک کی آلودگی میں بھی اضافہ کیا ہے۔

ماحولیاتی کارکن نیلوفر آفریدی نے بتایا کہ ”میں باقاعدگی سے پیدل سفر کرتی اور چلتی ہوں، لیکن 2023سے اسلام آباد میں ہوا کے خراب معیار نے ہمیں اکثر شام کے وقت گھر کے اندر رہنے پر مجبور کیا ہے۔ ذاتی طور پر میری الرجی بڑھ گئی ہے۔“
ایئرپورٹ سے شہر کی جانب آنے والی مرکزی شاہراہ پر اب سرسبز درختوں یا کھلی جگہوں کی بجائے زیر تعمیر عمارتوں کا منظر ہے۔ بڑے بڑے بل بورڈز رئیل اسٹیٹ کے منصوبوں کی تشہیر کرتے ہیں اور سڑک کے دونوں اطراف نئی ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم آب و ہوا کی تبدیلی کے ماہر آفتاب عالم خان نے وضاحت کی کہ درخت اور پودے قدرتی ہوا کے فلٹر کا کام کرتے ہیں۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ذرات جیسی آلودگیوں کو جذب کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”اسلام آباد کے سبز احاطہ میں کمی نے اس فلٹریشن کو کم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ اسلام آباد میں بہتر معیار زندگی ہے۔ گیلپ پاکستان کے مطابق دارالحکومت میں شرح خواندگی 84فیصد ہے اور 97فیصد گھرانوں کو بجلی میسر ہے۔ یہ ملک میں بلند ترین سطح ہے۔

شہر میں زیادہ تحفظ کے احساس نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ تین مختلف دہائیوں میں اسلام آباد میں رہنے والی سابق صحافی سحر بلوچ بتاتی ہیں کہ ”پاکستان کے دیگر شہروں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے نائن الیون کے بعد زیادہ لوگ اسلام آباد منتقل ہوئے۔“

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی Richard Garstang Conservation GISلیبارٹری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا مجموعی تعمیر شدہ رقبہ 1990میں 6ہزار655ایکڑ سے بڑھ کر 2020میں 45ہزار638ایکڑ ہو گیا ہے۔ اس عرصے کے دوران تعمیر شدہ رقبے میں سالانہ 1300ایکڑ کا اضافہ ہوا۔

پاکستان کی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالرز کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 1989 سے 2019 کے دوران اسلام آباد کا جنگلاتی علاقہ نصف رہ گیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی میں ماحولیاتی پائیداری اور سرکلر اکانومی کی سربراہ زینب نعیم کا کہنا ہے کہ ”اصل ماسٹر پلان کے مطابق اسلام آباد کے گرین زونز میں تعمیرات پر سختی سے پابندی ہے۔ تاہم ان اصولوں کو صریحاً نظر انداز کیا جا رہا ہے۔“

رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ زلزلہ زدہ علاقے میں واقعہ اسلام آباد 2030تک ایک گرین سٹی سے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو جائے گا۔

سحر بلوچ کا کہنا ہے کہ ”غیر چیک شدہ تعمیرات شہر کے موسم اور رہنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اسلام آباد ایک فالٹ لائن پر واقع ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی ایک گھنا شہر نہیں بننا تھا۔“

سرسبز علاقے میں کمی اور کنکریٹ کے ڈھانچے کے پھیلاؤنے شہر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کنکریٹ کا ڈھانچہ دن کے وقت گرمی کو جذب کرتا ہیا ور رات کے وقت اسے فضا میں پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کے سال 2015 سے 2024 کے درجہ حرارت کے اعداد و شمار ایک ہلکی ہلکی لیکن مسلسل بڑھتی گرمی کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔

اپریل کے وسط تک ہی اسلام آباد کا درجہ حرارت30ڈگری سینٹی گریڈ ہے، لیکن شہر کے رہائشیوں کا خیال ہے کہ جون کے وسط تک درجہ حرارت ایک بار پھر 40تک پہنچ جائے گا۔

سحر بلوچ کا کہنا ہے کہ ”میں گرمی کی وجہ سے بالائی منزل پر گرمیوں میں سو نہیں سکتی، مجھے رات کو تہہ خانے میں جانا پڑتا ہے۔“

تاہم ہر کوئی اسلام آباد میں شہری ترقی کے خلاف نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسے بڑھتی ہوئی آبادی کے بلدتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اسلام آباد کے مضافات میں زیر تعمیر ہاؤسنگ پراجیکٹ کیپٹل اسمارٹ سٹی کے بزنس ڈویلپمنٹ مینیجر محمد علی احسن نے بتایا کہ”دارالحکومت کے طور پر اسلام آباد ملک بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس آمد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے شہر کو اپنے انفراسٹرکچر، ہاؤسنگ اور عوامی خدمات کو بڑھانا چاہیے۔“

کچھ بلڈرز اب پائیداری پر توجہ دینے کی ضرورت پر بات کرنے لگے ہیں۔

ایک مقامی بلڈر عبداللہ خان نے بتایاکہ ”اسلام آباد میں توجہ اب زیادہ تعمیر کرنے سے بہتر بنانے کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جہاں پائیداری اسلام آباد میں شہری ترقی کی بنیاد میں شامل ہے۔“

انکا کہنا ہے کہ ”اسلام آباد میں زیادہ تر جدید ترین رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس میں سولر پینلز، توانائی کی بچت کے ڈیزائن اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نظام شامل ہیں کیونکہ وہاں پائیدار ترقی کی اہمیت کا احساس ہے۔“ اسلام آباد کے شہریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بجلی کی بار بار بندش اور بجلی کے زائد بلوں کے رد عمل میں اپنی چھتوں پر شمسی توانائی کی سہولیات لگانے کا انتخاب کر رہی ہے۔

عبداللہ خان نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد کے سرسبز احاطہ میں مزید کمی کو بچانے کے لیے حکومت کو عمودی رہائش پر توجہ دینی چاہیے، حالانکہ زلزلے کے علاقوں سے شہر کی قربت ایک چیلنج ضرورپیش کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”حکومت کو پالیسی فیصلوں کے ذریعے جگہ کے تحفظ کے لیے کثیر المنزلہ اپارٹمنٹ عمارتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔“

رئیل اسٹیٹ مینیجر احسن نے مزید کہا کہ آبادی میں تیزی سے اضافے کو رہنے کے قابل بنانے کے لیے ڈویلپرز کو کچھ سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ”کچھ معاملات میں حکام کو رہائش یا سڑک کی توسیع کے لیے زرعی یا جنگلاتی زمین کو دوبارہ استعمال کرنا پڑا ہے۔ نئی ترقی کے لیے جگہ بنانے کے لیے موجودہ محلوں کو بھی ری زوننگ کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس نے کمیونٹی کی حرکیات کو متاثر کیا ہے۔“

اس سب کے باوجود ماحولیاتی کارکنان اسلام آباد میں بچے ہوئے سرسبز احاطے کو بچانے اور اس کی حفاظت کے لیے پرامید ہیں۔

نیلوفرآفریدی نے کہا کہ اسلام آباد کے ماحولیات سے باخبر رہنے والے شہری اپنے شہر کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ”اسلام آباد کی سول سوسائٹی نے ہمیشہ اپنے سرسبز کردار کا دفاع کیا ہے، اور ہم اب نہیں رکیں گے۔“

جہاں تک مونال کا تعلق ہے، اسے اسلام آباد کے شہر کے مرکز سے 25 کلومیٹر جنوب میں ایک نیا ٹھکانہ مل گیا ہے۔ یہ ایک نئے نئے تجارتی اور تفریحی منصوبے کی چھت پر واقع ہے، جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کا سب سے بڑا شاپنگ مال ہے۔

(بشکریہ: ’نکی‘، ترجمہ: حارث قدیر)

Adnan Amir
+ posts

صحافی اور محقق عدنان عامر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ بلوچستان کے معروف آن لائن انگریزی جریدے ’بلوچستان وائسز‘ کے مدیر ہیں۔ سیاست، تنازعات اور معیشت ان کے خاص موضوعات ہیں۔