سوشوان دھر
گزشتہ ایک مہینے کے دوران ہمالیہ کے پہاڑوں میں گھری ہوئی ریاست نیپال نے تقریباً دو دہائیوں بعد اپنی سب سے شدید احتجاجی لہر دیکھی ہے۔ اگرچہ بظاہر اس بغاوت کی فوری وجہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی تھی، لیکن یہ تحریک بہت جلد بدعنوانی، بے روزگاری اور ملک میں بڑھتی ہوئی آمرانہ روش جیسے بڑے سماجی و اقتصادی مسائل کے خلاف ایک ملک گیر بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔
دس ہزاروں نوجوان کٹھمنڈو، پوکھرا اور بیرات نگر کی سڑکوں پر امڈ آئے، جن میں سے بیشتر کی عمریں 16 سے 25برس کے درمیان تھیں۔ انہوں نے رکاوٹیں ہٹائیں، سکیورٹی فورسز سے جھڑپیں کیں، اور دارالحکومت کی فضائیں مزاحمتی نعروں سے گونج اٹھیں۔
ریاست کا ردعمل فوری اور سفاکانہ تھا۔ ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں، واٹر کینن کا استعمال کیا گیا، آنسو گیس اور براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ستمبر کے وسط تک کم از کم 72 افراد ہلاک اور 2 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے تھے۔
بغاوت کی لہر
’جین زی موومنٹ‘کہلائی جانے والی یہ تحریک دراصل پورے خطے میں ابھرنے والی عوامی بغاوتوں کی ایک وسیع تر لہر کا حصہ ہے۔ 2022 میں کولمبو (سری لنکا) میں عوام نے اپنے صدر کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا، اور 2024-25 میں ڈھاکا (بنگلہ دیش) میں پھیلنے والے احتجاجوں نے شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ پورے جنوبی ایشیا میں عوام اس حکمران اشرافیہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات تک فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
نیپال کا کردار اس سلسلے میں خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ صرف 17 سال پہلے ہی اس ملک نے بادشاہت ختم کر کے ایک وفاقی جمہوریہ کا قیام کیا تھا۔ یہ ایک تلخ تضادہے کہ وہی نسل جو 2008 کے بعد پیدا ہوئی اور جمہوریہ کے جھنڈے کے نیچے پلی بڑھی، آج اسی نظام کے خلاف بغاوت کی قیادت کر رہی ہے، ایک ایسے نظام کے خلاف جو بدعنوانی، غربت اور دھوکے کی علامت بن چکا ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ سب کیوں ہوا، ہمیں اس انقلاب کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہوگا جو شروع ہوتے ہی روک دیا گیا تھا۔صدیوں تک نیپال پر ایسے بادشاہ حکومت کرتے رہے جو ایک سخت درجہ بندی پر مبنی اور غیر مساوی سماج کے نگہبان تھے۔ یہ نظام جون 2001 میں اس وقت گرنے لگا جب ایک شاہی قتل عام میں بادشاہ بیرندرہ اور شاہی خاندان کے بیشتر افراد مارے گئے، اور ان کے بھائی گیانندرا کو تخت ملا۔
نیا بادشاہ بھی جلد ہی ایک آمرانہ مزاج کا حامل ثابت ہوا۔ 2005 میں اس نے پارلیمان کو تحلیل کر دیا، ایمرجنسی نافذ کی اور ذرائع ابلاغ پر سنسر لگا دیا۔ اس کے رد عمل میں عوامی مزاحمت بھڑک اٹھی جو’عوامی تحریک دوم‘ (جن آندولن دوم)کہلائی ۔ 2006 میں لاکھوں افراد کرفیو اور گولیوں کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئے۔
مزدور، کسان، طلبہ اور خواتین ایک ساتھ مارچ کرتے ہوئے بادشاہ کو پارلیمان بحال کرنے پر مجبور کر گئے۔ دو سال بعد مئی 2008 میں بادشاہت کو باقاعدہ ختم کر دیا گیا اور نیپال کو’وفاقی جمہوریہ‘قرار دیا گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا بھر کی بائیں بازو کی تحریکیں نیولبرل ازم کی فتح کے اثرات سے دوچار تھیں، لیکن نیپالی کمیونسٹوں نے غیر معمولی سیاسی قوت مدافعت کا مظاہرہ کیا۔ ملک کے ماؤ باغی، جو ایک دہائی طویل مسلح جدوجہد کے بعد سامنے آئے تھے، پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن گئے۔ دنیا بھر کے ترقی پسندوں کے لیے نیپال ایک امید کی علامت بن گیا۔ اس بات کا ثبوت کہ انقلابی جدوجہد اب بھی عوام کو کامیابی کی راہ پر لا سکتی ہے۔
نامکمل انقلاب
جمہوریہ کے ابتدائی برسوں میں بڑی توقعات وابستہ تھیں۔ ماؤسٹوں نے زرعی اصلاحات، دلتوں اور خواتین کے مساوی حقوق، اور مظلوم قومیتوں کی شناخت کا وعدہ کیا۔ نئی جمہوریہ کو سماجی انصاف اور عوامی شمولیت کی بنیاد پر ایک مساوات پسند معاشرے کے طور پر تعمیر کیا جانا تھا۔
تاہم انقلاب تقریباً فوراً ہی رک گیا۔ 2008 میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں جب ماؤسٹوں نے تقریباً 2/5 حصہ جیتا، تو انہوں نے عوامی تحریک کو چھوڑ کر پارلیمانی چالوں پر توجہ دینا شروع کر دی۔ یہ وہ میدان تھا جس میں اُن کے مخالفین کو بھارتی ریاست کی حمایت حاصل تھی ۔ ایک ایسی ریاست جو اپنے پڑوسی کو بائیں بازو کی طرف زیادہ جھکنے سے روکنے کے لیے بے چین تھی۔
کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ مارکس اسٹ لینن اسٹ(CPN-UML) ماؤسٹوں کی سیاسی حریف اور کبھی کبھار اتحادی رہی۔ تاہم اپنے نام کے برعکس سی پی این یو ایم ایل کوئی زیادہ انقلابی قوت نہیں تھی۔ یہ 1990 کی دہائی سے ملکی سیاست کا حصہ تھی، اقتدار کے تجربے سے آشنا تھی، اور روایتی سرپرستی و مفاداتی سیاست سے جڑی ہوئی تھی۔
نئے آئین کی تیاری کا عمل کئی سالوں تک گھسٹتا رہا، جبکہ پارٹی رہنما وزارتوں اور ٹھیکوں کی بندر بانٹ میں مصروف رہے۔ وہ انقلابی توانائی جس نے بادشاہت کا تختہ الٹا تھا، رفتہ رفتہ ریاستی اداروں کے اندر جذب ہو گئی۔ جب مجوزہ نیا آئین نافذ کرنے میں ناکامی ہوئی، تو ماؤسٹوں کو 2013 میں دوسری آئین ساز اسمبلی کے انتخابات میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اور وہ سی پی این یو ایم ایل اور نیپالی کانگریس دونوں سے پیچھے رہ گئے۔
2018 میں ماؤسٹوں اور سی پی این یو ایم ایل نے ضم ہو کر ایک واحد جماعت ، نیپال کمیونسٹ پارٹی ، تشکیل دی۔ اس وقت ماؤسٹوں کے پاس پارلیمان میں 53 نشستیں تھیں، جبکہ اُن کے اتحادیوں کے پاس 121نشستیں تھیں۔ پارلیمان میں اس واضح اکثریت کے ساتھ، اس نئی جماعت کے پاس نیپال کی تاریخ میں کسی بھی بائیں بازو کی قوت سے زیادہ طاقت تھی۔
تاہم تبدیلی کی بجائے مکمل جمود پیدا ہوا۔ وزیراعظم کے پی شرما اولی نے 2020 میں اقتدار پر قبضے کی کھلی کوشش کرتے ہوئے پارلیمان تحلیل کر دی، جسے بعد میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ حال ہی میں متحد ہونے والی یہ جماعت جلد ہی دوبارہ ٹوٹ کر اپنے سابقہ حصوں میں بٹ گئی، جس سے بائیں بازو کی سیاست تقسیم اور بدنام ہو کر رہ گئی۔
2022 سے 2024 کے درمیان ماؤسٹ رہنما پرچنڈہ کی سربراہی میں ایک اتحادی حکومت اقتدار میں رہی، مگر بعد میں اسے ایک اور اولی حکومت نے بدل دیا، جس میں ماؤسٹوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اولی کی اسی حالیہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی، جس نے گزشتہ ماہ کی اس بغاوت کو بھڑکایا۔
نظریاتی خامیاں
اگرچہ نیپال کی کمیونسٹ جماعتوں نے لاکھوں عوام کو متحرک کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا، مگر ان کے نظریاتی اور پروگراماتی نقائص نے اُنہیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہونے میں مدد دی جسے وہ کبھی الٹ دینے کا عزم رکھتے تھے۔
پارلیمانی بائیں بازو کے کچھ حصے، خاص طور پر سی پی این یو ایم ایل، ابتدا ہی میں ایک آئینی بادشاہت پر سمجھوتہ کرنے کو تیار تھے۔ صرف 2006 کی عوامی تحریک کے دباؤ نے جمہوریہ کو ایجنڈے پر لانے پر انہیں مجبور کیا۔
دوسری طرف ماؤسٹوں نے ایک دہائی طویل’عوامی جنگ‘لڑی، اور دیہی علاقوں میں انہیں گہری عوامی حمایت حاصل تھی، جہاں غیر مساوی زرعی ڈھانچے نے کسانوں کو تقریباً غلامی کے حالات میں جکڑ رکھا تھا۔ تاہم اپنی تمام عسکریت اور قربانیوں کے باوجود دیہی بغاوت کبھی بھی سرمایہ داری کے خاتمے کی ایک واضح انقلابی حکمت عملی پر استوار نہیں تھی۔ جاگیردارانہ نظام کے خلاف جدوجہد چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو، لازمی طور پر ایک سوشلسٹ پروگرام کو جنم نہیں دیتی۔
سٹالن ازم اور ماؤ ازم کی روایتی فکر سے تشکیل پانے والے اس ماؤسٹ آؤٹ لک نے دیہی علاقوں میں مسلح جدوجہد کو ترجیح دی، مگر شہروں میں مزدور طبقے کی طاقت یا میدان جنگ سے باہر سوشلسٹ اداروں کی تعمیر کے بارے میں کوئی واضح وژن نہیں رکھا۔ جب بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو یہ نظریاتی خلا تیزی سے پارلیمانی سیاست اور نیولبرل ترقیاتی ماڈلز کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی صورت ظاہر ہوا۔ یوں جاگیردار مخالف مسلح تحریک سے نیولبرل طرز حکمرانی تک کا تیز رفتار انتقال کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ تحریک کی نظریاتی حدود کا منطقی انجام تھا۔
اس مسدود شدہ انقلاب کے نتائج آج سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔ جب عوامی بغاوت کو پارلیمانی سودے بازی میں بدل دیا گیا تو کمیونسٹ قیادت نے عوامی امنگوں اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک وسیع خلا پیدا کر دیا۔ مزدور طبقے کو اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی، کسانوں کو کوئی بامعنی فائدہ نہ ملا، اور نوجوانوں کے سامنے ہجرت یا بے روزگاری کے سوا کوئی مستقبل نہ رہا۔
وہی جماعتیں جو کبھی آزادی اور مساوات کے خواب دکھاتی تھیں، اب نیولبرل اصلاحات کی نگران اور غیر ملکی قرضوں کی دلال بن چکی ہیں۔ 2008 کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے جمہوریہ آزادی کی علامت نہیں بلکہ ٹوٹے ہوئے وعدوں کی یادگار بن چکی ہے۔’جین زی موومنٹ‘اسی لحاظ سے ماؤسٹوں اور سی پی این یو ایم ایل کے سمجھوتوں کے خلاف ایک تاخیر سے آنے والا محاسبہ ہے ۔ یہ صرف موجودہ حکمرانوں کی بدعنوانی کے خلاف نہیں بلکہ اس نامکمل انقلاب کے خلاف بھی بغاوت ہے جس نے بغیر کسی حقیقی تبدیلی کے ایک جمہوریہ تو قائم کر دی مگر انقلاب کو دفن کر دیا۔
جو کچھ پیش آیا، وہ انقلاب کی تکمیل نہیں بلکہ اس کی قبل از وقت موت تھی۔ وہی باغی، جو کبھی لاکھوں عوام کو منظم کرتے تھے، اب مراعات کے محافظ بیوروکریٹ بن گئے۔ بادشاہت کا تختہ تو الٹ گیا، لیکن جس انقلابی دروازے کو انہوں نے کھولا تھا، اسے خود اندر سے بند کر دیا گیا۔
اس پسپائی کے نظریاتی جواز کی بنیاد’دو مرحلوں کے انقلاب‘(Two-Stage Revolution) کے نظریے پر رکھی گئی تھی۔ ماؤسٹوں، سی پی این یو ایم ایل، اور دیگر بائیں بازو کی جماعتوں کے مطابق نیپال کا پہلا تاریخی فریضہ یہ تھا کہ جاگیردارانہ ڈھانچوں کو ختم کر کے ایک بورژواجمہوری تبدیلی مکمل کی جائے اور ایک جمہوریہ قائم کی جائے۔ اس مرحلے کے بعد ، کسی غیر معین مستقبل میں ،سوشلسٹ مرحلے کی منتقلی ممکن ہو سکے گی۔
عملی طور پر اس نظریے نے پارلیمانی نظام میں ضم ہونے کے لیے ایک سیاسی اور اخلاقی جواز فراہم کیا۔ جب بادشاہت کا تختہ الٹا جا چکا تھا، تو قیادت نے آئینی نظام کو اپنانے، نیولبرل ترقیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنے، اور اشرافیہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو ’ضروری مرحلے‘کا حصہ قرار دے دیا ، نہ کہ انقلاب سے انحراف۔ سوشلسٹ مرحلے کو ایک غیر معین اور بعید منزل پر موخر کر کے انہوں نے اپنی مفاہمت کو جائز قرار دیا اور انہی عوامی قوتوں کو غیر مسلح کر دیا جنہوں نے انقلاب کو ممکن بنایا تھا۔
ایک جمہوریہ جو کچھ نہ دے سکی
نظریاتی طور پر نیپال کے 2015 کے آئین میں حقوق کی ایک شاندار فہرست درج ہے۔ مساوات، تعلیم، صحت، رہائش، خوراک کی خودمختاری، اور تمام شہریوں کے لیے جمہوری آزادی وغیرہ ان حقوق میں شامل ہے، لیکن عملی طور پر یہ سب حقوق کھوکھلے وعدوں سے زیادہ ثابت نہیں ہوئے۔
عوامی خدمات بدعنوانی سے بھری ہوئی اور فنڈز کی کمی کا شکار ہیں۔ کورونا وبا نے نظام کے اندرونی تعفن کو بے نقاب کیا، جو بالآخر مکمل انہدام پر منتج ہوا۔ اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہو گئی، اور خاندان اپنے پیاروں کی لاشیں خود اٹھا کر شمشان گھاٹوں تک لے گئے کیونکہ ایمرجنسی وارڈز نے انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی دوران معیشت مسلسل گرتی چلی گئی۔ 2022-23 میں افراط زر 7 فیصد سے تجاوز کر گیا، جب کہ خوراک اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 20 فیصد تک پہنچ گئی۔ ایک ایسی نسل کے لیے جو جمہوری خوشحالی کے خواب پر پلی تھی، حقیقت صرف جمود کا شکار اجرتیں، بڑھتی قیمتیں، اور بیرون ملک روزگار کی مسلسل مجبوری بن کر رہ گئی۔
2008 کے بعد جمہوریہ کی معاشی بنیاد میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ زراعت، جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی، تیزی سے زوال پذیر ہوئی، اور کسانوں کی آمدنی تباہ ہو گئی۔ معاشی دباؤ نے لاکھوں افراد کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔
آج بیرون ملک کام کرنے والے نیپالی مزدوروں کی ترسیلات زر ملکی جی ڈی پی کا تقریباً چوتھائی حصہ بنتی ہیں، جو دنیا کی بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔ دیہات نوجوان مردوں سے خالی ہو چکے ہیں؛ خاندان خلیج، ملائشیا اور بھارت سے آنے والی رقوم پر زندہ ہیں، جبکہ تابوتوں کی واپسی کٹھمنڈو ہوائی اڈے پر معمول بن چکی ہے۔
ملک کے اندر نیپالیوں کے پاس ہجرت کے سوا کوئی باعزت متبادل نہیں بچا۔ بیرون ملک ان کے ساتھ عارضی اور ڈسپوز ایبل مزدوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ چکر اس بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک ایسی جمہوریہ جس نے وقار اور مواقع کا وعدہ کیا تھا، اب اپنے شہریوں کی بقا ء کو تارکین وطن کے حوالے کر چکی ہے۔
یہ درست ہے کہ ترسیلات زر پر مبنی معیشت نے مطلق غربت میں کچھ کمی ضرور کی، مگر اس نے انحصار اور عدم مساوات کو مزید جڑ پکڑا دی۔ اس نے نیپال کے طبقاتی ڈھانچے کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ ایک غیر محفوظ، غیر رسمی شہری مزدور طبقہ اور ایک وسیع پھیلا ہوا تارکین وطن طبقہ اب ملک کو سہارا دیتے ہیں، جبکہ ریاست اپنے اندر روزگار کے باعزت مواقع پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
نامکمل اہداف
ماؤسٹوں کے وعدے کبھی پورے نہ ہو سکے۔ ذات پات کا امتیاز اب بھی برقرار ہے، خواتین بدستور منظم عدم مساوات کا شکار ہیں، اور مقامی و نسلی گروہ اب بھی حاشیے پر ہیں۔ جو جمہوریہ محروم طبقوں کے لیے بنائی گئی تھی، وہ آخرکار اسی پرانی’ری سائیکل شدہ‘ اشرافیہ کے قبضے میں چلی گئی۔
یہ تحریک عوام کو حقیقی فوائد دینے میں ناکام رہی۔ اس کی ناکامی نے اختلاف رائے کے خلاف ایک بڑھتی ہوئی آمرانہ روش کو جنم دیا۔ صحافیوں کی ہراسانی، کارکنوں کی نگرانی، اور احتجاجوں کی سختی سے سرکوبی عام ہوگئی۔ 2006 میں حاصل ہونے والی جمہوری وسعت رفتہ رفتہ سکڑ گئی۔
اشرافیہ نے عوامی ناراضی سے توجہ ہٹانے کے لیے قوم پرستی کے مختلف حربے اپنائے ۔ کبھی بھارت، کبھی چین، اور کبھی’چھپے ہوئے سامراجی ہاتھوں‘پر الزام ڈال دیا۔ بائیں بازو اور دائیں بازو دونوں نے حالیہ احتجاجوں کے پس منظر میں امریکہ پر سازش کا الزام لگایا۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عالمی طاقتیں نیپال پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں، مگر یہ بیانیہ دراصل ان کی اپنی نااہلی اور بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کا ایک آسان بہانہ بن چکا ہے ۔یہ اس بھوک، بیروزگاری، اور مایوسی سے توجہ ہٹانے کا ذریعہ ہے، جو موجودہ بے چینی کو جنم دے رہی ہے۔
موجودہ جین زی تحریک برسوں کے جمود کے بعد احتجاج کی ایک نئی لہر کی نمائندگی کرتی ہے ۔ ایک ایسا سیاسی جمود جس نے اشرافیہ کو مضبوط کیا جبکہ لاکھوں لوگ غربت میں ہی دبے رہے۔ 2008 کے بعد پیدا ہونے والی یہ نسل اب اس جمہوریہ کے رائج طریقوں کو مسترد کر رہی ہے جو انہیں ورثے میں ملی ہے۔ ان کے مطالبات محض اظہار رائے یا رسمی شہری و سیاسی حقوق تک محدود نہیں، بلکہ وہ بدعنوانی، عدم مساوات، اور انقلابی وعدوں کی غداری کے خلاف کھل کر آواز اٹھا رہے ہیں۔
یہ بغاوت اگرچہ ابھی تک مکمل تبدیلی میں ڈھل نہیں پائی، مگر اس نے موجودہ سیاسی منظرنامے کو پہلے ہی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کے پی اولی کو استعفیٰ دینا پڑا اور ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔ تاہم یہ سوال بدستور کھلا ہے کہ آیا یہ توانائی ایک پائیدار انقلابی عمل میں ڈھل پائے گی یا نہیں۔
سیاسی قوتیں
یہ سیاسی انتشار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام نے نیپال کی دائیں بازو کی قوتوں کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، جو اب تک مرکزی دھارے سے باہر تھیں۔ شاہ پرست قوتیں، شاہی پرچم اٹھائے اور’ماضی کی استحکام بخش واپسی‘کے وعدے کرتے ہوئے، اب زیادہ نمایاں ہو گئی ہیں۔ موجودہ جمہوریہ سے عام مایوسی کے پس منظر میں ان کا بیانیہ کچھ کشش ضرور حاصل کر رہا ہے۔ تاہم ان کا ایجنڈا دراصل ماضی کی طرف واپسی ، یعنی ایک آمرانہ زوال کے سوا کچھ نہیں دیتا۔
موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے شاہی نظام کی بحالی کا کامیاب امکان تصور کرنا مشکل ہے، کیونکہ وہ طبقاتی توازن جو بادشاہت کے خاتمے کا باعث بنا تھا، بنیادی طور پر اب بھی برقرار ہے۔ جمہوریہ کا موجودہ نظام، اگرچہ بحرانوں سے دوچار ہے، لیکن اس کی بنیاد شہری متوسط طبقے، منظم نوجوانوں، اور تاریخی طور پر محروم طبقات کے اتحاد پر قائم ہے ۔ وہ طبقات جو نیپالی بادشاہت کو محرومی، جبر اور آمریت کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ قوتیں آج بکھری ہوئی ضرور ہیں، مگر ان کی اجتماعی یادداشت میں موجود عوامی جدوجہد ، خاص طور پر’جن آندولن دوم‘ کی تصویریں اب بھی شاہی نظام کی بحالی کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
اداروں کی سطح پر 2008 کے بعد کے ریاستی ڈھانچے کو اس طرح ازسرنو تشکیل دیا گیا کہ جمہوریہ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت مضبوط ہو۔ ایک نئے آئین کے اجراء، نمائندہ اداروں کی تنظیم نو، اور عالمی جمہوری اصولوں میں انضمام کے ذریعے یہ سب ممکن بنایا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی طاقتوں کو شاہی نظام کی واپسی میں کوئی مفاد نظر نہیں آتا، کیونکہ موجودہ جمہوریہ ہی ان کے لیے استحکام، ترقیاتی امداد، اور منڈیوں تک رسائی کے لحاظ سے زیادہ محفوظ راستہ فراہم کرتی ہے۔
فکری سطح پر اگرچہ شاہ پرستانہ علامتیں مایوسی اور بدعنوان جمہوری اشرافیہ کے خلاف احتجاج کے لمحات میں نمایاں ہو جاتی ہیں، مگر ان کا کردار ایک مربوط سیاسی منصوبے کی بجائے محض احتجاجی زبان کا سا ہے۔ جب تک اندرونی طبقات اور عالمی طاقتوں میں فیصلہ کن صف بندی نہیں ہوتی، بادشاہت کی بحالی ایک سایہ ہی رہے گی ، کوئی حقیقی متبادل نہیں۔
اصل چیلنج مگر بائیں بازو کے سامنے ہے۔ نیپال دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں خود کو کمیونسٹ کہنے والی جماعتوں نے پارلیمانی اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہوں نے اس تاریخی موقع کو عوامی تحریکوں کو چھوڑ کر بیوروکریٹک سودوں اور اقتدار کے سمجھوتوں میں ضائع کر دیا۔ اب بنیادی ضرورت یہ ہے کہ بایاں بازو سڑکوں پر موجود عوامی غصے اور بے چینی سے دوبارہ جڑأت پیدا کرے۔
ٹریڈ یونینوں، کسان تنظیموں، اور طلبہ تحریکوں کو دوبارہ فعال کرنا ہوگا۔ بالن شاہ کی آزاد حیثیت میں کٹھمنڈو کی میئرشپ جیسے تجربات اس بات کا اظہار ہیں کہ عوام متبادل سیاسی امکانات کے بھوکے ہیں۔ بائیں بازو کے سامنے دو راستے ہیں ، یا تو وہ اس عوامی مطالبے کا جواب ایک انقلابی جمہوریت اور سماجی تبدیلی کے پروگرام کے ساتھ دے، یا پھر آمرانہ اور رجعتی قوتوں کو اس خلا کو پر کرنے کا موقع دے۔
بائیں بازو کی تشکیل نو
نیپال کا بایاں بازو اگرچہ منظم ڈھانچے، سماجی جڑوں، اور جمہوریہ کی تشکیل میں مرکزی کردار رکھتا ہے، لیکن اب وہ اپنی بڑی حد تک عوامی ساکھ کھو چکا ہے۔ دہائیوں پر محیط گروہی تقسیم، موقع پرستی، اور اندرونی مفادات نے اس کی ساکھ کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اپنی معنویت بحال کرنے کے لیے بائیں بازو کو نہ صرف پارٹی اور عوام کے تعلق کو الٹنا ہوگا بلکہ خود کو اس اسٹالن اسٹ ماؤسٹ نظریاتی جمود سے آزاد کرنا ہوگا جس نے اس کی سیاسی تخیل کو منجمد کر رکھا ہے۔
ایک مرکزی رکاوٹ وہی دو مرحلوں کا نظریہ ہے، جسے بائیں بازو کی قیادت مسلسل استعمال کرتی آئی ہے ، کبھی رجعتی قوتوں کے ساتھ اتحاد کا جواز دینے کے لیے، تو کبھی انقلابی مطالبات کو’حکمت عملی‘اور’عملی ضرورت‘کے نام پر پس پشت ڈالنے کے لیے۔ یہی طرز فکر جمہوریت کو گہرا کرنے اور سوشلسٹ تبدیلی کو آگے بڑھانے کی ہر ممکن صلاحیت کو دبا چکا ہے۔ اگر بایاں بازو واقعی ایک ایسا پروگرام پیش کرنا چاہتا ہے جو مزدوروں، کسانوں، اور نوجوانوں کے تجربات اور جدوجہد سے ہم آہنگ ہو، تواس نظریاتی سانچے سے نجات حاصل کرنا ناگزیر ہے ۔
20ویں صدی کی سوویت اور چینی روایات سے اخذ کیے گئے بیوروکریٹک اور یک رخے تنظیمی طریقے جمہوری مرکزیت کے تصور کو مسخ کر چکے ہیں۔ اس کی جگہ بیوروکریٹک مرکزیت نے لے لی ہے، جس کے نتیجے میں اختلاف رائے کو دبایا جاتا ہے، قیادت غیر جواب دہ بن جاتی ہے، اور سیاسی جماعتیں آزادی کے اوزار بننے کی بجائے سرپرستی اور مفاد پرستی کے نیٹ ورک میں بدل جاتی ہیں۔
اعتماد بحال کرنے کے لیے بائیں بازو کو اپنی صفوں میں اندرونی جمہوریت کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا ، یعنی کھلی بحث، قیادت کی باقاعدہ تبدیلی، اور فیصلوں میں شفافیت کو عمل طور پر ثابت کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ جماعتوں کو ایسے احتسابی نظام تشکیل دینے ہوں گے جو اقتدار پر قابض گروہوں یا پیشہ ور سیاست دانوں کی بجائے عوامی ارکان اور نچلی سطح کے کارکنوں کے سامنے جواب دہ ہوں۔
عام عوام کو درپیش معاشی بحران اس تبدیلی کی فوری ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ مہنگائی، بڑے پیمانے پر ہجرت، نوجوانوں کی بے روزگاری، اور زراعت کی تباہی نے’عوامی جنگ‘اور’نئی جمہوریت‘جیسے نعرے بے معنی بنا دیے ہیں۔ جب تک بایاں بازو اپنی سیاست کو ٹھوس عوامی پروگراموں میں نہیں ڈھالتا ، جیسے دیہی و شہری روزگار کی منصوبہ بندی، صحت و تعلیم میں سرمایہ کاری، اور موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت کے اقدامات ، تب تک وہ شاہ پرستانہ ماضی پرستی اور دائیں بازو کی عوامیت پسندی کے لیے جگہ چھوڑتا رہے گا۔
اس وقت صرف نیپال کی جمہوریہ کا مستقبل ہی نہیں، بلکہ خود بائیں بازو کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہے۔ اگر وہ خود کو ازسرنو منظم نہیں کرتا تو اس کا انجام صرف حاشیے پر دھکیلی گئی سیاست ہوگا ۔ ایک ایسی سیاست جو کھوکھلے انقلابی نعروں اور موقع پرستانہ اتحادوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ سوشلسٹ نظریے کو ازسرنو تخلیق کیا جائے ۔ ایک ایسے جاندار، جمہوری منصوبے کے طور پر جو عوام کی آواز، شفاف اداروں، اور سرمایہ داری (چاہے وہ ملکی ہو یا عالمی) کے خلاف جدوجہد پر مبنی ہو۔
بادشاہت کے خاتمے کو 17 سال گزرنے کے باوجود نیپال کا انقلاب اب بھی نامکمل ہے۔ جمہوریہ نے مساوات اور انصاف کا وعدہ کیا تھا، مگر اس کے بدلے میں غیر یقینی، بدعنوانی اور مایوسی دی۔ پھر بھی موجودہ عوامی بغاوت اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام نے نہ سڑکیں چھوڑیں، نہ تاریخ بنانے کی اپنی صلاحیت۔
نیپال کا بحران صرف ناکام قیادتوں کا نہیں، بلکہ ایک ایسے انقلابی عمل کا سانحہ ہے جو اپنی پیدائش ہی میں دم توڑ گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بایاں بازو اس انقلابی وعدے کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے ، یا پھر نیپال کا مستقبل شاہ پرستوں، قوم پرستوں اور سامراجی قوتوں کے جعلی استحکام کے سپرد کر دیا جائے گا؟
کٹھمنڈو کے چوکوں میں جمع ہجوم ہمیں ایک سادہ مگر گہری حقیقت یاد دلاتا ہے کہ 2006 میں شروع ہونے والی جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ جمہوریہ کبھی انجام نہیں تھی، بلکہ یہ محض آغاز تھا۔
(بشکریہ: ’جیکوبن‘، ترجمہ: حارث قدیر)
