خبریں/تبصرے

ایمیزون کے مزدوروں کی بغاوت: کوونٹری ماڈل نے عالمی محنت کش تحریک کے لیے نئی راہیں کھول دیں

لاہور(جدوجہد رپورٹ)دنیا کی محنت کش تحریک کا مستقبل ایمیزون جیسے دیوہیکل کارپوریٹ اداروں کے بغیر مضبوط اور جمہوری یونینوں کے ممکن نہیں۔ جیکوبن کے مطابق ایمیزون آج کے دور کا وہ سرمایہ دارانہ ماڈل بن چکا ہے جو21ویں صدی کی مزدوری کے ڈھانچے، اجرتی تعلقات اور محنت کے کنٹرول کو نئی شکل دے رہا ہے۔

90 برس پہلے جنرل موٹرز سرمایہ دارانہ پیداواری کارکردگی اور مزدوروں کے استحصال کی علامت تھی، آج یہ کردار ایمیزون نے سنبھال لیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے ذریعے کام کی رفتار بڑھانے، نگرانی کو ہمہ گیر بنانے اور روزگار کو غیر محفوظ بنانے کے طریقے ایمیزون کے کاروباری فلسفے کا حصہ ہیں۔ کمپنی کی عالمی اجارہ داری اس قدر وسیع ہے کہ اس کی پالیسیوں کا اثر اب صرف ٹیکنالوجی یا لاجسٹکس تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے مزدور طبقے کے معیارِ زندگی پر پڑ رہا ہے۔

جیکوبن کے مطابق ایمیزون کا سالانہ منافع 59.2 ارب ڈالر اور مارکیٹ کیپٹلائزیشن 2.3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ اتنے بڑے معاشی حجم کے باوجود مزدوروں نے حالیہ برسوں میں جرات مندانہ مزاحمت کے ذریعے یہ دکھایا ہے کہ دیو قامت کمپنی کو چیلنج کرنا ناممکن نہیں۔

کوونٹری کی کہانی: چھ مزدوروں سے چودہ سو تک

برطانیہ کے شہر کوونٹری میں واقع ایمیزون کے گودام BHX4 میں اگست 2022 میں مزدوروں نے کم اجرت کے خلاف خود رو ہڑتال شروع کی۔ ابتدا میں صرف 60مزدور جی ایم بی یونین کے رکن تھے، مگر ہڑتالوں اور احتجاجی کارروائیوں کے دوران یہ تعداد بڑھ کر 1400سے تجاوز کر گئی۔ 2 سال کے اندر مزدوروں نے 37 دن تک ہڑتال کی اور مجموعی طور پر 28.5 فیصد اجرت میں اضافہ جیتا۔

تاہم جب 2024 میں یونین کو باضابطہ تسلیم کرانے کے لیے ووٹنگ ہوئی تو ایمیزون نے طاقتور اینٹی یونین مہم چلائی۔ کمپنی نے خوف پھیلایا کہ یونین آنے سے تنخواہیں تاخیر کا شکار ہوں گی یا گودام بند ہو جائے گا۔ منیجرز نے مزدوروں سے ان کی مادری زبانوں میں الگ الگ ملاقاتیں کیں اور ووٹنگ سے پہلے ایک ہزار سے زیادہ نئے کارکن رکھ کر یونین کے ووٹ کم کر دیے۔ نتیجتاً یونین صرف 0.5 فیصد کے فرق سے ہار گئی۔

لیکن یہ ناکامی مستقل نہ تھی۔ کوونٹری کے مزدوروں نے اپنی تنظیمی بنیاد مزید مضبوط کی، اور اب بھی جی ایم بی کی مدد سے اجرت، کام کی حفاظت اور مہاجر مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔

کوونٹری ماڈل،6 اصولوں کا فارمولا

اس تجربے کو بعد میں ’کوونٹری ماڈل‘کے طور پر مرتب کیا گیا،جس میں 6 اصول شامل ہیں۔مالکان کے کنٹرول میں پیدا ہونے والی دراڑوں سے فائدہ اٹھانا، کام کے اوقات سے باہر جمہوری جگہیں بنانا،مزدور قیادت کو تربیت و تعلیم سے مضبوط کرنا،مزدوروں کی زندگی کے وسیع تر مسائل سے جڑنا،کارپوریٹ طاقت کو عوامی دباؤ سے چیلنج کرنا،کام کی جگہ پر انتظامی کنٹرول کا مقابلہ کرنا۔

جی ایم بی نے ہڑتالوں کو جمہوری فورمز میں بدل دیا جہاں مزدور آزادی سے گفتگو کر سکتے تھے۔ تنظیمی مواد 13 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ہڑتالوں کی تاریخیں مزدوروں کی مذہبی تعطیلات جیسے عید اور آرتھوڈوکس ایسٹر کے ساتھ منسلک کی گئیں۔

عالمی جدوجہد کا پھیلاؤ

کوونٹری ماڈل اب دوسرے ملکوں کے مزدوروں کے لیے بھی تحریک بن چکا ہے۔ امریکہ میں نیویارک کے JFK8 گودام کے مزدور ایمیزون لیبر یونین سے وابستہ ہیں،اور کمپنی کے ساتھ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ بھارت میں دہلی کے قریب DEL4 گودام کے مزدوروں نے شدید گرمی میں کام کے خلاف احتجاج کر کے پانی، آرام اور طبی سہولتوں میں بہتری منوائی۔ شمالی کیرولائنا کے RDU1 گودام کے کارکنوں نے بھی ہار کے بعد اپنی تنظیم کو ازسرنو منظم کیا۔

آگے کا راستہ

جیکوبن کے مطابق ایمیزون کے خلاف لڑائی جیتنے کے لیے دنیا بھر کی یونینوں کو کوونٹری جیسے ماڈلز کو وسیع پیمانے پر دہرانا ہوگا۔ اس کے لیے وسائل، سیاسی ارادہ اور مزدوروں کے اندر جمہوری قیادت کو ابھارنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان ممالک میں جہاں ایمیزون کی افرادی قوت زیادہ تر مہاجر مزدوروں پر مشتمل ہے، یونینوں کو امیگریشن کے حقوق کا دفاع بھی اپنی مہم کا حصہ بنانا ہوگا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts