دنیا

غزہ کی دو سالہ تباہی کا ایک تلخ جائزہ

جلبیراشقر

اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے سانحے کو یاد رکھنے کی بھرپور کوششوں اور ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘کے فوراً بعد مغرب کی جانب سے موصول ہونے والی زبردست ہمدردی کے باوجود، اس کارروائی کے دو سال بعد آج دنیا کے اجتماعی ضمیر پر جو چیز غالب ہے، وہ خود صہیونی ریاست کی جانب سے غزہ اور مجموعی طور پر فلسطین کے عوام پر ڈھائی گئی کہیں زیادہ خوفناک تباہی ہے۔

اب یہ بات دنیا بھر کے ماہرین اور ان ممالک کے عام شہریوں میں بھی وسیع پیمانے پر تسلیم کی جا چکی ہے، جو روایتی طور پر اسرائیل کے حامی رہے ہیں، کہ گزشتہ دو سالوں میں اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق تقریباً 40 فیصد امریکی یہودی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’اسرائیل نے نسل کشی کی ہے‘(جبکہ مزید 10 فیصد اس بارے میں غیر یقینی ہیں)۔ آج مغربی ممالک میں صرف ایک اقلیت اس حقیقت سے انکار کرتی ہے، بالخصوص وہ حکومتیں اور تنظیمیں جو اسرائیل نواز ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر نسل کشی کے اپنے منکر ہوتے ہیں، جیسا کہ آرمینیائی نسل کشی یا ہولوکاسٹ کے معاملے میں دیکھا گیا۔

تاہم صہیونی فوج کی اس نسل کشی پر مبنی جنگ نے اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ عالمی سطح پر شدید مذمت اور غزہ کے عوام کے لیے بڑھتی ہوئی ہمدردی پیدا کی ہے، مگر یہ احساس اس المیے کے پیمانے کے مقابلے میں کوئی تسلی نہیں دے سکتا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ جو’پرامن تصفیہ‘اب افق پر دکھائی دیتا ہے، وہ ممکنہ طور پر 1993 کے اوسلو معاہدے کے ذریعے پہلے سے طے کیے گئے تباہ کن فریم ورک سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔

دو سال پہلے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ غزہ کے لیے کس قدر تباہی آنے والی ہے۔ حزب اللہ کی 2006 کی کارروائی، جس میں تنظیم نے لبنان کی جنوبی سرحد عبور کر کے تین اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور دو کو اغوا کیا،کے نتیجے میں اسرائیل نے پارٹی کے شہری گڑھوں پر تباہ کن حملے کیے۔ ان علاقوں میں بیروت کا جنوبی علاقہ ’الضاحیہ‘بھی شامل تھا۔ بعد میں حسن نصراللہ نے اعتراف کیا کہ اگر انہیں نتائج کا اندازہ ہوتا تو وہ ایسی کارروائی کا حکم نہ دیتے۔

اب جب کہ 7 اکتوبر 2023 کو غزہ کی سرحد کے پار حماس کی قیادت میں ہونے والی کارروائی کہیں بڑے پیمانے پر تھی،جس کے نتیجے میں اسرائیلی جانب 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 سے زائد کو یرغمال بنایا گیا، تو یہ واضح تھا کہ اس کے بعد ایک کہیں زیادہ خوفناک المیہ رونما ہوگا۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت اسرائیل میں جو حکومت برسراقتدار تھی، اور آج بھی ہے، وہ اسرائیل کی تاریخ کی سب سے انتہا پسند حکومت ہے۔ اس لیے ’طوفان الاقصیٰ‘کی منصوبہ بندی کرنے والے وہی بہانہ نہیں کر سکتے تھے جو حزب اللہ کے رہنما نے کیا تھا کہ ’اگر میں جانتا ہوتا تو ایسا نہ کرتا۔‘چند ماہ قبل جب حماس کی سیاسی قیادت کے ایک رکن نے کسی حد تک ندامت کے لہجے میں بات کی، تو تنظیم کے عسکری ونگ نے فوراً اس بیان کی تردید کر دی۔

حماس کے عسکری ونگ کے رہنما، اور سیاسی ونگ کے وہ افراد جو ان کے نقطہ نظر سے متفق ہیں، مسلسل یہ موقف رکھتے آئے ہیں کہ ان کی حکمت عملی جائز تھی، باوجود اس کے کہ اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔ 8ماہ قبل تک وہ اب بھی 7 اکتوبر کی کارروائی کو ’فتح‘قرار دے رہے تھے۔

اب ذرا اس دعوے کا جائزہ لیں کہ آیا اسے ’فتح‘کہا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جو منصوبہ پیش کیا ہے، وہ ان کے داماد جیرڈ کشنر اور بدنامِ زمانہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے تیار کیا ہے (اس منصوبے پر ابتدائی تبصرہ گزشتہ ہفتے کے مضمون میں کیا گیا تھا)۔

گزشتہ جمعہ کو جاری کردہ اپنے بیان میں حماس نے دعویٰ کیا کہ اس نے امریکی منصوبے کے حوالے سے ایک ’ذمہ دارانہ موقف‘اختیار کیا ہے اور وہ ’مکمل ذمہ داری‘کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی (یعنی رام اللہ حکومت) کے ساتھ ایک ’جامع قومی فریم ورک‘میں شامل ہونے کو تیار ہے۔ گویا یہ تسلیم کرنا چاہتی ہو کہ اس کے پچھلے موقف اتنے ’ذمہ دارانہ‘نہیں تھے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تنظیم ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان کوششوں کی قدر کرتی ہے جن کا مقصد غزہ پر جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کے داخلے، اور ہمارے عوام کی غزہ سے جبری بے دخلی و قبضے کی مخالفت‘ہے۔ حالانکہ یہی ٹرمپ، جو فخر سے خود کو تاریخ کا سب سے زیادہ پرواسرائیل امریکی صدر قرار دے چکے ہیں، اور جنہوں نے یروشلم اور شامی گولان کی اسرائیل سے الحاق کی منظوری دی تھی، وہی شخص ہیں جنہوں نے نیتن یاہو حکومت کو کھلے عام یہ کہنے کی اجازت دی کہ وہ غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنا چاہتی ہے (بظاہر ’رضاکارانہ‘ہجرت کے نام پر) اور غزہ کی پٹی کو ایک امریکی ملکیت والے ’ریویرا‘میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

نئے منصوبے کے مطابق ٹرمپ خود ایک نیم نوآبادیاتی نوعیت کے ’بورڈ آف پیس‘ کی صدارت کریں گے، جس کے ارکان میں ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔ یہ بورڈ غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک ’ٹیکنوکریٹک، غیرسیاسی فلسطینی کمیٹی‘کی نگرانی کرے گا، جس کا مقصد نام نہاد ’ٹرمپ اکنامک ڈویلپمنٹ پلان‘ کو نافذ کرنا ہے۔ بلاشبہ ٹرمپ کے ذہن میں یہ منصوبہ غزہ کو ایک امریکی کنٹرول والے ’ریویرا‘میں بدلنے کا ہے۔

جہاں تک ’غزہ پر قبضے کے خاتمے‘کی بات ہے، منصوبے میں اگرچہ کہا گیا ہے کہ ’اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا‘، مگر اس میں اسرائیلی افواج کے انخلا کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس، انخلا کو ایسے شرائط سے مشروط کیا گیا ہے جو تقریباً ناممکن ہیں۔ مزید یہ کہ منصوبہ اسرائیل کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ’سکیورٹی پیریمیٹر‘، بشمول مصر کی سرحد (فلاطیفہ کاریڈور)، پرجب تک چاہے قابض رہ سکتا ہے۔

یہ کہنا مقصد نہیں کہ حماس کو آخری دم تک لڑتے رہنا چاہیے تھا، بلکہ نکتہ یہ ہے کہ اگر حماس نے ابتدا ہی سے ایک زیادہ ’ذمہ دارانہ‘رویہ اختیار کیا ہوتا تو وہ بہتر نتائج حاصل کر سکتی تھی اور غزہ کو مزید تباہی سے بچا سکتی تھی۔ یہ موقع حالیہ مہینوں تک بھی موجود تھا،جب یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ رواں سال کے اوائل میں ہونے والی جنگ بندی محض ایک عارضی وقفہ تھی، جس کا مقصد صہیونی فوج کو ازسرنو منظم ہونے اور نئی یلغار کی تیاری کا موقع دینا تھا۔

اسی دوران اسرائیل نے دانستہ طور پراور امریکی انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت سے غزہ کے عوام کو بھوکا رکھنے کا منصوبہ بنایا، اور اب حماس انہی ’کوششوں‘ کی’قدر‘ کر رہی ہے۔

حماس اس وقت خود کو ایک ایسے کونے میں پھنسا ہوا پاتی ہے جہاں ایک طرف صہیونی فوج کی دوبارہ شروع کی گئی نسل کشی ہے اور دوسری جانب عرب و مسلم ممالک کا بڑھتا دباؤ ہے،جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں حماس کے سامنے ایک سنگین دو راہا تھا۔یا تو وہ امریکی منصوبے کو رد کرتی اور اعلان کرتی کہ وہ جنگ جاری رکھے گی، جس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ غزہ کی جاری تباہی کی مزید ذمہ داری اٹھائے اور عرب و مسلم سرپرستوں کی مالی امداد سے محروم ہو جائے، یا پھر وہ ہتھیار ڈال دیتی، جو کہ اس وقت اس کا ظاہراً اختیار کردہ راستہ ہے۔

اب حماس نے اپنے ہاتھ کی آخری چال بھی چھوڑنے کی پیشکش کر دی ہے، یعنی وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل سے 250 فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور گزشتہ دو سال میں صہیونی فوج کی جانب سے پکڑے گئے 1700 غزہ کے شہریوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے پانچ سال قبل نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ابتدائی منصوبے کو یہ جانتے ہوئے قبول کیا تھا کہ فلسطینی اسے مسترد کریں گے۔ وہ اب بھی نئے منصوبے کو اپنائے ہوئے ہے۔ ان کا اصل مقصد یرغمالیوں کی رہائی ہے، تاکہ اس کے بعد وہ غزہ پر اپنی گرفت برقرار رکھنے میں زیادہ آزاد ہو۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ امریکی منصوبے کی شرائط اتنی غیر مساوی اور توہین آمیز ہیں کہ زیادہ تر فلسطینی، بشمول رام اللہ کی اتھارٹی خود، بھی غالباً اسے قبول نہیں کریں گے۔

(بشکریہ: ’دی لنکس‘، ترجمہ: حارث قدیر)

Gilbert Achcar
Website | + posts

جلبیر اشقر اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن کے پروفیسر ہیں۔ وہ مذہب کے سیاسی کردار اور بنیاد پرستی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔