لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)اتوار کے روز عراق کے وزیر اعظم عادل عبدل مہدی نے اپنا استعفیٰ عراقی پارلیمان کے سامنے پیش کر دیا۔
اس سے قبل، جمعے کے روز ہی انہوں نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ اعلان جمعرات اور جمعے کے دن ہونیوالی 60 کے لگ بھگ ہلاکتوں کے بعد سامنے آیا۔
عراق میں یکم اکتوبر سے عوامی بغاوت جاری ہے۔ پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین بدعنوانی، مہنگائی، بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور بے روزگاری کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ادھر، حکومت نے بھی سختی سے ان مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ اب تک 400 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کی اکثریت سیکیورٹی اداروں کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
وزیر اعظم کا استعفیٰ آیت اللہ سیستانی کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا تھا کہ ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے۔ موجودہ حکومت کو ایران کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پچھلے ہفتے مظاہرین نے ایرانی قونصل خانے کو بھی آگ لگا دی تھی۔
استعفیٰ کے باوجود عراقی مظاہرین نے احتجاج جاری رکھاہوا ہے۔ الجزیرہ اور ٹیلی سور جیسے چینلز نے مظاہرین کے بیان نشر کئے ہیں جس میں مظاہرین یہ کہتے نظر آئے کہ وہ ان سب کا استعفیٰ چاہتے ہیں۔