خبریں/تبصرے

تجارتی ریکارڈ میں 30 ارب ڈالر کا فرق، آئی ایم ایف نے وضاحت مانگ لی

لاہور(جدوجہد رپورٹ)گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان کی وفاقی حکومت نے 321 ارب ڈالر کی درآمدات کا اندراج کیا، جو اس مدت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بینکنگ چینلز کے ذریعے کلیئر کی گئی درآمدی ادائیگیوں سے 30 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ یہ فرق فوری طور پر تصفیہ طلب ایک بڑے مالیاتی تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان سنگل ونڈو کے ذریعے 321 ارب ڈالر کی درآمدات درج ہوئیں، جبکہ اسٹیٹ بینک نے جولائی 2020 سے جون 2025 کے درمیان صرف 291 ارب ڈالر کی درآمدی ادائیگیاں بینکوں کے ذریعے کلیئر کیں۔

’ٹربیون‘ کے مطابق پی ایس ڈبلیوکے یہ اعداد و شمار اس سے قبل کبھی رپورٹ نہیں ہوئے تھے، کیونکہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (بی پی ایس) ماہانہ تجارتی بلیٹن پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ کے ڈیٹا کی بنیاد پر جاری کرتا رہا ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق سٹیٹ بینک صرف اشیا کی لاگت کو ریکارڈ کرتا ہے جبکہ فریٹ اور انشورنس کے اخراجات علیحدہ شمار کیے جاتے ہیں۔ تاہم اتنے بڑے فرق سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریٹ لاگت شامل کرنے کے باوجود بھی درآمدی اعداد و شمار میں غیر معمولی فرق برقرار ہے۔

رپورٹس کے مطابق، مالی سال 2023-24 اور 2024-25 کے دوران پی آر اے ایل کے ریکارڈ شدہ درآمدی اعداد و شمارپی ایس ڈبلیو کے مقابلے میں 11 ارب ڈالر کم تھے۔

گزشتہ ہفتے بھی ’ٹربیون‘نے اس تضاد کی خبر دی تھی جس کے بعد اسٹیٹ بینک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بینک کی تجارتی معلومات بنیادی طور پر بینکوں سے موصول ہونے والی ادائیگیوں پر مبنی ہوتی ہیں، اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں۔ البتہ معمولی ترامیم ممکن ہیں۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران ہونے والے ہر بینکنگ اور درآمدی لین دین کی تفصیلی جانچ ناگزیر ہے تاکہ اس تضاد کی وجوہات معلوم کی جا سکیں۔

ریکارڈ کے مطابق اسی مدت میں پی آر اے ایل نے پی ایس ڈبلیو کے مقابلے میں 16.5 ارب ڈالر کم درآمدات رپورٹ کیں۔

گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا کہ وہ درآمدی و تجارتی ڈیٹا میں اربوں ڈالر کے فرق کو عوامی سطح پر ظاہر کرے۔ آئی ایم ایف نے تجویز دی کہ حکومت ایک واضح پالیسی اپنائے تاکہ اعداد و شمار کے استعمال کنندگان کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا نہ ہو۔

پاکستان نے تسلیم کیا کہ جنیوا میں قائم انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (آئی ٹی سی) کو بھیجے گئے پی بی ایس کے تجارتی اعداد و شمار نامکمل تھے۔ تاہم حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ غلطی دانستہ نہیں بلکہ پی آر اے ایل سے پی ایس ڈبلیو نظام میں منتقلی کے دوران تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہوئی۔

پی آر اے ایل فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے جبکہ پی ایس ڈبلیو ایک آزاد قانونی ادارہ ہے۔ اگرچہ اس کے بیشتر افسران کسٹمز ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایف بی آر کے نمائندے نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ فرق معمولی لگ رہا تھا، مگر گزشتہ چند سالوں میں غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا۔

ذرائع کے مطابق ممکن ہے کچھ درآمد کنندگان نے بینکنگ نظام سے باہر ادائیگیاں کی ہوں یا ایکسپورٹ فنانس اسکیمز کا ناجائز استعمال کیا ہو۔ بعض خام مال مقامی منڈی میں فروخت ہونے والے مال کی تیاری میں استعمال ہوا۔

یہ تضاد اس وقت سامنے آیا جب پاکستانی درآمد کنندگان اور چینی برآمد کنندگان کے درمیان تجارتی اعداد و شمار کے فرق کو جانچنے کی مشق شروع کی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس مقصد کے لیے ایک تحقیقی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

ایف بی آر، پی بی ایس، پی آر اے ایل اور پی ایس ڈبلیو پر مشتمل مشترکہ ٹیم نے پانچ سالہ تجارتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ پی بی ایس کا سسٹم 2017 کے بعد اپڈیٹ نہیں کیا گیا تھا، جس کے باعث درآمدات کی رپورٹنگ میں مسلسل کمی آتی گئی۔
مالی سال 2024-25 میں پی ایس ڈبلیو نے 64.1 ارب ڈالر کی درآمدات ریکارڈ کیں، جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق یہ صرف 59.1 ارب ڈالر تھیں، یعنی 5 ارب ڈالر کا فرق۔

اسی طرح 2023-24 میں پی ایس ڈبلیو کے اعداد و شمار 60 ارب ڈالر جبکہ سٹیٹ بینک کے 53.2 ارب ڈالر رہے،جو 6.7 ارب ڈالر کا فرق بنتا ہے۔

سب سے بڑا فرق مالی سال 2021-22 میں دیکھا گیا، جب پی ایس ڈبلیو نے 82.3 ارب ڈالر کی درآمدات ریکارڈ کیں، پی آر اے ایل نے 80.2 ارب ڈالر جبکہ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار 71.5 ارب ڈالر تھے، یعنی 10.8 ارب ڈالر کا فرق تھا۔

ذرائع کے مطابق سٹیٹ بینک اورپی ایس ڈبلیو کے درمیان یہ بڑے پیمانے کے تضادات صرف فریٹ اور انشورنس اخراجات سے وضاحت نہیں کیے جا سکتے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے تجارتی ڈیٹا کی شفافیت پر بڑے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts