لاہور(جدوجہد رپورٹ)پاکستان رواں سال لا نینا (La Niña) موسمی مظہر کے باعث گزشتہ کئی دہائیوں کی سخت ترین سردیوں کا سامنا کر سکتا ہے، جس کے اثرات خاص طور پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں شدید محسوس ہوں گے۔
یہ انکشاف اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور کے دفتر (UN-OCHA) کی جانب سے جاری تازہ سچویشن رپورٹ میں کیا گیا ہے، جو انٹرسیکٹر کوآرڈینیشن گروپ اور اس کے شراکت دار اداروں نے پاکستان میں حالیہ مون سون سیلاب کی صورتحال کے تناظر میں تیار کی ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لا نینا کے زیر اثر بحرالکاہل میں سطح سمندر کے درجہ حرارت میں غیر معمولی کمی واقع ہوتی ہے، جس کے باعث دنیا بھر میں شدید موسمی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں ایل نینو سدرن آسیلیشن (ای این ایس او) اور انڈین اوشن ڈائپول (آئی او ڈی) کے منفی رجحانات کے باعث پاکستان میں بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی آئے گی۔
شمالی پنجاب، خیبر پختونخوا، جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں بارش معمول سے کم ہونے کا امکان ہے، جبکہ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بارشیں معمول کے مطابق رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق لا نینا کے اثرات کے نتیجے میں خطرہ ہے کہ وقفے وقفے سے آنے والے طوفانوں کے باعث خریف فصلوں کی کٹائی میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھروں کی افزائش کی وجہ سے ڈینگی کے پھیلاؤ کا خطرہ ہوگا۔ گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے امکانات میں اضافے کا خطرہ ہے۔ ندی نالو ں کے بہاؤ میں کمی کا خطرہ بھی ہے، جس کے باعث آبپاشی متاثر ہوگی۔ میدانی علاقوں میں سموگ اور فضائی آلودگی میں اضافے اور مویشیوں کی صحت اور چارے کی دستیابی پر منفی اثرات پڑنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھریلو سطح پر مقابلے کی صلاحیت پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے، اور سردیوں کی شدت اس صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتی ہے۔سیلاب کے بعد حکومت اور امدادی اداروں کی ریسپانس کپیسٹی بھی کم ہو گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ابتدائی بحران کے دوران مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط ردعمل کے باوجود، تین ماہ گزرنے کے بعد امدادی سرگرمیوں کی رفتار کم ہوئی ہے۔ ابتدائی ذخائر اور فنڈز ختم ہو چکے ہیں، اور اب انسانی ہمدردی کے ادارے اضافی فنڈنگ کے متلاشی ہیں تاکہ بحالی کے مرحلے میں بنیادی سہولیات کی فراہمی برقرار رکھی جا سکے۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیلاب نے روزگار اور معیشت کو طویل المدتی نقصان پہنچایا ہے۔ فصلیں تباہ ہوئیں، مویشی بہہ گئے، چارہ ختم ہوگیا، اور زرعی آلات و مشینری برباد ہو گئی،جس کے باعث متاثرہ آبادی کے لیے آمدن کے ذرائع بحال کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
خوراک و زراعت کے ادارے کے ایک جیو اسپیشل تجزیے کے مطابق سیلابی پانی نے صرف پنجاب میں تقریباً 12 لاکھ ہیکٹر زرعی اراضی کو متاثر کیا، جہاں چاول، کپاس، اور گنے کی فصلیں شدید نقصان سے دوچار ہوئیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں ربیع فصلوں کی کاشت کا وقت ضائع ہو گیا، جس سے خوراک کے تحفظ اور دیہی معیشت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ٹھہرا ہوا پانی اب بھی موجود ہے، جو ہیضہ، اسہال، ٹائیفائیڈ، ملیریا، اور ڈینگی جیسے امراض کے پھیلاؤ کا باعث بن رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، 2 لاکھ29 ہزار سے زائد مکانات تباہ یا شدید متاثر ہوئے ہیں، اور کئی خاندان اب بھی کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، جہاں وہ سرد موسم اور بیماریوں سے غیر محفوظ ہیں۔
اس کے علاوہ، اسکول اور اسپتال بھی شدید متاثر ہیں۔ بہت سے مقامات پر یہ عمارتیں مٹی میں ڈھکی ہوئی ہیں، ضروری سامان غائب ہے، اور تعلیمی و طبی خدمات کی بحالی ممکن نہیں ہو سکی۔
نتیجتاً خوراک، چارہ اور بنیادی ضروریات کی قلت بڑھتی جا رہی ہے، جس سے عوام کی غذائی سلامتی مزید خطرے میں ہے اور انسانی امداد پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
