ساجد نعیم
شرم الشیخ میں صدر ٹرمپ کی شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف کے جواب میں شہباز شریف کے ٹرمپ کی خدمت اقدس میں پیش کی گئی قصیدہ گوئی ساری دنیا میں موضوع بحث ہے،بلکہ یوں کہہ لیجئے جگ ہنسائی کا ذریعہ ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی زوال پذیری کچھ ایسی انتہاؤں کو چھو رہی ہے کہ جس پارٹی کے لیڈر کو امریکی صدرتھپکی لگائے اس کے چاہنے والوں کا سر فخر سے اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے، جبکہ مخالف پارٹی کا کارکن شاید حسد کی آگ میں جل کر اس حقیقت کو جان پاتا ہے کہ امریکی صدر ایک سامراجی طاقت کا نمائندہ ہوتاہے،جس کے منہ سے نکلنے والے تعریفی کلمات درحقیقت انسان کی تذلیل ہوتی ہے نہ کہ عزت افزائی۔
یوں تو امریکہ کا سامراجی کردار خاص کر دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک مسلمہ حقیقت ہے۔تاہم ماضی کی سامراجیت اور ٹرمپ کی سامراجی پالیسیوں میں ایک واضح فرق ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ایک بند گلی میں داخل ہونے کے بعد،خاص کر 2008 کے فنانشل کریش کے بعد،سیاسی افق پر فار رائیٹ (انتہائی دائیں بازو)کا جو نیا مظہر ابھرا ہے،ٹرمپ اس کا مجسم پیکر ہے۔
اس رجحان کے تحت ابھرنے والی تقریباً ساری کی ساری قیادتیں شدید قسم کی نرگسیت پسندی کا شکار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہیں اور ماضی کے سفارتکارانہ آداب کو خواہ مخواہ کا تکلف خیال کرتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ماضی کی چکنی چپڑی اصطلاحات،جیسے انسانی حقوق، جمہوریت، آئین اور قانون کی بالادستی،جیسے لبادوں کو بھی خاطر میں لانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتیں۔ وہ محض اپنی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر نہ صرف ملکوں بلکہ دنیا بھر کا انتظام و انصرام چلانا چاہتی ہیں۔ اس طرح کی کیفیت میں جس کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اتنا ہی اپنی من مرضی کا مالک ہے۔ نرگسیت پسند شخص کا دل لبھانے کے لیے خوشامد سب سے کارگر آلہ ہوتا ہے،کیونکہ اس طرح کی شخصیت اپنی من مرضی کے خلاف کوئی بات سننا تک گوارہ نہیں کرتی۔ خوشامدی الفاظ جتنے دلفریب اور دلکش ہوتے ہیں اتنے ہی کھوکھلے بھی ہوتے ہیں۔ تاہم نرگسیت پسند کے لیے یہی الفاظ سب سے زیادہ قابل قبول ہوتے ہیں،کیونکہ اس کے لیے مسئلہ ٹھوس مواد سے زیادہ محض تاثرات کا ہوتا ہے۔
شرم الشیخ میں ٹرمپ کی طرف سے ’مائی فیورٹ فیلڈ فیلڈ مارشل‘ اور’مائی گریٹ پرائم منسٹر‘ کے الفاظ کو حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور اس کے بعد رونما ہونے والے چند واقعات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت تو ہر عام و خاص پر عیاں ہے کہ 96 گھنٹے تک پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کے مہینے میں جاری رہنے والے جنگی کشیدگی کے خاتمے کا یک طرفہ اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے کیا تھا۔ یہ امر دونوں متحارب ملکوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔ یہ ایسے ہی تھا کہ دو چھوٹے بدمعاشوں کی لڑائی میں بڑا بدمعاش کود پڑے اور یک طرفہ طور پر دونوں پر اپنا فیصلہ صادر کر دے۔
یہ امر اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ نام نہاد آزادی کے 77 سال گزرنے کے باوجود دونوں ملک کسی اقتدار اعلیٰ کی حامل آزاد اور خودمختار ریاستیں نہیں بلکہ آج بھی سامراجی سیٹلائٹس ہیں،جہاں سامراجی من مرضی ہی واحد قانون اور ضابطہ ہے۔ ماضی میں بھی یہاں جنگ بندیوں میں امریکی سامراج کا ہی کردار رہا لیکن اس دوران کچھ نہ کچھ سفارتی کاری کی منافقانہ پردہ داری ضرور ہوتی تھی۔ تاہم جیسے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ٹرمپ جیسے نرگسیت پسندوں کے لیے یہ بے کار کی ایک سعی ہوتی ہے۔ یہاں فارمولا سیدھا ہے۔ آپ کے پاس طاقت ہے تو اس کو استعمال کر کے معاملہ اپنے حق میں حل کر دو۔ کسی بھی طرح کی سفارتکارانہ لیپا پوتی کی کیا ضرورت ہے؟
اس اعلان جنگ بندی کے بعد کے رویے نے چند مہینوں کے اندر اندر برصغیر جنوبی ایشیا کی سیاست کی کایا ہی پلٹ دی۔ پاکستان نے نہ صرف اس جنگ بندی کو خوش آمدید کہا،بلکہ جلد ہی اس کار ہائے نمایاں پر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز کے لیے بھی نامزد کر دیا۔ ایسا کرنا کافی آسان تھا۔ اپنی تمام تر تاریخ میں پاکستان نے شاید ہی کبھی آزادانہ خارجہ پالیسی کا دعویٰ کیا ہو،یا ایسا کرنے کی کوشش کی ہو۔
بھارت کے لیے مسئلہ کچھ مختلف تھا۔ ایک تو وہ تسلسل کے ساتھ آزاد خارجہ پالیسی کا دعویدار تھا،جبکہ ٹرمپ کا اعلان جنگ بندی صریحاً اس کی نفی تھی۔ دوسرا نریندرا مودی،جو خود بھی ٹرمپ سے کم تر نرگسیت پسند نہیں،نہ صرف خود کو بلکہ اپنے ملک کو بھی ایک بڑی علاقائی طاقت سمجھ رہے تھے۔ اس طرح کے حالات میں اور خاص کر جنگ بندی کے حوالے سے اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث مودی کو خاصی دقتوں کا سامنا تھا۔ اپنے ہاں تو وہ اس بات کا بار بار اظہار کرتے رہے کہ بھارت نے جنگ بندی اپنی شرائط پر کی ہے نہ کہ کسی کی ڈکٹیشن پر۔تاہم پھر ایک عالمی فورم کی سائیڈ لائن میٹنگ میں وہ اپنے انتہائی قریبی اور دیرینہ دوست کا اعتماد کچھ یوں کھو بیٹھے جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔
اس ملاقات کے حوالے سے شاید گارڈین نے یہ سرخی جمائی تھی کہ’مودی نے ٹرمپ کو بتایا کہ پاک بھارت جنگ بندی انھوں نے نہیں کروائی۔‘ خود ٹرمپ کی قبیل سے تعلق ہونے کے باوجود مودی اس مہلک گستاخی کا ادراک کیوں نہ کر سکے اس کی وضاحت کچھ مشکل ضرور ہے۔ یہ ہو سکتا ہے اپنی نرگسیت پسندی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اتنا توانا لیڈر سمجھ بیٹھے ہوں کہ اتنی سی گستاخی پہ صدر ٹرمپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔
اس ملاقات کے چند دن بعد ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر عائد 25 فیصد ٹیرف بڑھا کر50 فیصد کر دیا۔ اب یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بے محل ہی سہی سات بھارتی طیارے گرائے جانے کا ذکر کیا۔ غزہ کے امن پلان میں یہ 7 طیارے کہاں فٹ آتے ہیں،اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا خاصا دشوار ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ نرگسی طبیعت پر گراں گزرنے والی بات جس بھی منہ سے نکلے گی،ہر ممکنہ موقع پر تذلیل اس کا مقدر ٹھہریگی۔ جن لوگوں کو ٹرمپ کے منہ سے اپنے قائد اور آرمی چیف کی تعریف اچھی لگی،وہ ان کو یہ مشورہ ضرور دیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے بس’نہ‘ نہ کہنے کی احتیاط بہت ضروری ہے وگرنہ ایک برس بھی نہیں گزرا مودی کے لیے بھی’مائی بیسٹ فرینڈ‘جیسے دلنشین الفاظ ہی استعمال ہوتے تھے۔
ہاں ایک اور احتیاط بھی ضروری ہے۔ خود سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن ہونے سے اس کا دوست ہونا بد تر ہے۔ شاید اسی تناظر میں کسی شاعر نے بھی متنبہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
