لاہور (پ ر) 15اکتوبر2025کو لاہور پریس کلب میں 120 سے زائد دیہی کسان اور مزدور خواتین نے دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک بڑی تقریب میں شرکت کی، جس میں خواتین نے خوراکی نظام میں صنفی انصاف، خواتین کے کردار کی سرکاری سطح پر شناخت، اور زمین، پانی، بیج و دیگر وسائل تک مساوی رسائی کا مطالبہ کیا۔
یہ تقریب پاکستان کسان رابطہ کمیٹی (PKRC) اور تعمیر نو ویمن ورکرز آرگنائزیشن (TWWO) کے اشتراک سے منعقد کی گئی، جو ایشیائی سطح پر خواتین کی قیادت میں چلائی جانے والی تحریک کا حصہ ہے جس کی قیادت ایشیائی پیپلز موومنٹ آن ڈیٹ اینڈ ڈیولپمنٹ (APMDD) کر رہی ہے۔
شرکاء نے زور دیا کہ حکومت کو خواتین کو بطور خوراک پیدا کرنے والی تسلیم کرنا چاہیے اور زرعی و خوراکی نظام سے متعلق تمام پالیسیوں میں انہیں مساوی مواقع دینے چاہییں۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ خواتین کسانوں اور مزدوروں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں سے تحفظ فراہم کیا جائے، اور حکومت کارپوریٹ برآمدی زراعت کے بجائے گھریلو خوراکی خودمختاری کو ترجیح دے۔
تعمیرنو ویمن ورکرز آرگنائزیشن کی چیئرپرسن رفعت مقصود نے کہاکہ ’دیہی پاکستان میں خواتین ہمارے خوراکی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، لیکن پالیسیوں اور وسائل کی تقسیم میں انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بیج بونے سے فصل کاٹنے تک عورتیں کھیتوں کو زندگی دیتی ہیں، لیکن جب سیلاب، خشک سالی اور کارپوریٹ زمینوں پر قبضے بڑھتے ہیں، تو یہ عورتیں اپنی زمینوں اور روزگار سے محروم ہو جاتی ہیں۔ صنفی انصاف پر مبنی خوراکی نظام کا مطلب ہے کہ خواتین کو زمین، پانی اور منصفانہ قیمتوں کا حق دیا جائے۔ یہ خیرات نہیں، انصاف ہے۔‘
یہ اجتماع ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا جب پاکستان کی زراعت بار بار آنے والے سیلابوں اور خشک سالیوں سے شدید متاثر ہو رہی ہے، جس سے لاکھوں دیہی خاندانوں کے روزگار تباہ ہو گئے ہیں۔ صرف 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا، جس سے 40 لاکھ سے زائد خواتین متاثر ہوئیں جو زراعت کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔ دیہی خواتین اور بچیاں خاص طور پر متاثر ہو رہی ہیں، جو پانی اور ایندھن کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے نمائندے نے کہاکہ ’دیہی خواتین کو اس بحران کی قیمت ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جسے انہوں نے پیدا نہیں کیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی کنونشن کے تحت امیر ممالک سے گرانٹس کی صورت میں کلائمیٹ فنانس حاصل کرے تاکہ پاکستان کے خوراکی نظام کو پائیدار، مساوی اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط بنایا جا سکے۔‘
یہ تقریب ورلڈ فوڈ ڈے اور خوراک و زراعت کی عالمی تنظیم (FAO) کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر بھی منعقد کی گئی۔ مقررین نے ایف اے او پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے دہائیوں تک صنعتی زراعت کو فروغ دیا، جس سے زمین، پانی اور ماحولیاتی نظام تباہ ہوئے، چھوٹے کسان بے دخل ہوئے، اور ماحولیاتی بحران میں اضافہ ہوا۔
رفعت مقصود نے مزید کہاکہ ’جب ایف اے او اپنی 80ویں سالگرہ منا رہا ہے تو ہم دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ صنعتی زراعت ہمارے لوگوں کو خوراک فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حقیقی خوراک کے تحفظ عورتوں کی قیادت میں چھوٹے پیمانے اور ماحولیاتی لحاظ سے پائیدار زراعت سے آتا ہے، نہ کہ کارپوریٹ کمپنیوں کے زمین اور بیجوں پر قبضے سے۔‘
