خبریں/تبصرے

جنریشن زی کی عالمی بغاوت: پیرو، مراکش اور مڈغاسکر میں نوجوان حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر

لاہور(جدوجہد رپورٹ)دنیا بھر میں بیروزگاری، بدعنوانی اور زندگی کے گرتے معیار کے خلاف ابھرنے والی احتجاجی لہروں میں ایک بات نمایاں ہے، ان کی قیادت نوجوان کر رہے ہیں۔ فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز ان تحریکوں کا اصل ہتھیار بن گئے ہیں۔

نیپال اور انڈونیشیا میں نوجوانوں کے احتجاج پرتشدد رخ اختیار کر گئے، جہاں درجنوں افراد مارے گئے۔ اب یہی لہر دیگر ممالک،خصوصاً پیرو، مراکش اور مڈغاسکر میں بھی پھیل گئی ہے۔

پیرو: پنشن اصلاحات کے خلاف بغاوت اور صدر کی برطرفی

ستمبر کے آخر میں دارالحکومت لیما میں نوجوانوں نے حکومت کی نئی پنشن پالیسی کے خلاف احتجاج شروع کیا، جس میں انہیں نجی فنڈز میں لازمی سرمایہ کاری کا پابند بنایا گیا تھا۔ احتجاج میں شدت اس وقت آئی جب صدر دینا بولوارٹے نے عوامی مخالفت کے باوجود اپنی تنخواہ دگنی کر لی، جبکہ ان کی مقبولیت صرف 2 فیصد رہ گئی تھی۔29 ستمبر کو ”جنریشن زی“ نامی گروہ کی قیادت میں مظاہروں کے دوران پولیس اور مظاہرین میں تصادم ہوا، جس میں 18 افراد زخمی ہوئے۔چند ہی دن بعد پارلیمنٹ نے صدر بولوارٹے کو عہدے سے ہٹا دیا، اور نئے انتخابات اپریل 2026 میں کرانے کا اعلان کیا گیا۔

مراکش: ’ہمیں فٹ بال نہیں،ہسپتال چاہئیں‘

مراکش میں جین زی212 نامی نوجوانوں کے ایک خفیہ نیٹ ورک نے احتجاجوں کو منظم کیا۔ یہ تحریک اگست میں شروع ہوئی جب اگادیر کے ایک سرکاری ہسپتال میں زچگی کے دوران 8خواتین ہلاک ہو گئیں۔نوجوانوں نے صحت، تعلیم اور روزگار کے بحران کے خلاف نعرے بلند کیے، جبکہ حکومت کے 5 ارب ڈالر کے فٹ بال اسٹیڈیم منصوبے کو ”فضول ترجیح“ قرار دیا۔نوجوانوں نے ’ہمیں ہسپتال چاہئیں، فٹ بال اسٹیڈیم نہیں!‘جیسے نعرے لگائے۔پولیس کی کارروائی میں سینکڑوں گرفتاریاں اور تین ہلاکتیں ہوئیں۔وزیراعظم عزیز اخنوش نے احتجاجی گروہ کو مذاکرات کی دعوت دی، مگر مظاہرے بدستور جاری ہیں۔

مڈغاسکر: بجلی بحران اور حکومت کا خاتمہ

اکتوبر کے آغاز میں جین زی ماڈانامی آن لائن تحریک کی قیادت میں مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں 22 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔یہ احتجاج دو اپوزیشن سیاستدانوں کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا جنہوں نے پانی، بجلی اور روزگار کے بحران کے خلاف ریلی کی اپیل کی تھی۔مظاہرین نے صدر انڈری راجولینا سے استعفے کا مطالبہ کیا۔صدر نے ابتدا میں حکومت تحلیل کر کے ”قومی مکالمے“ کی اپیل کی، مگر احتجاج جاری رہا۔ بعد ازاں انہوں نے ایک فوجی جنرل کو وزیراعظم بنا کر کرفیو نافذ کیا، مگر فوج کے کچھ دھڑوں نے احتجاجیوں کا ساتھ دے دیا۔نتیجتاً راجولینا ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts