لاہور(جدوجہد رپورٹ)جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں نوجوان نسل، جو ڈیجیٹل دنیا میں پلی بڑھی ہے، اپنے بدعنوان اور بے حس حکمرانوں کے خلاف غصے اور مایوسی کے عالم میں سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ جیسے جیسے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور طبقاتی خلیج بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے یہ نوجوان احتجاج خطے کے طاقتور سیاسی نظاموں کو ہلا رہے ہیں۔
گزشتہ دو مہینوں کے دوران نیپال، انڈونیشیا، مشرقی تیموراور فلپائن میں جنریشن زی کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں نے سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج اس قدر بڑھا کہ وزیراعظم کے پی شرما اولی کی حکومت کو گرنا پڑا، پارلیمان تحلیل کرنی پڑی اور سوشل میڈیا پر پابندی واپس لینی پڑی۔
انڈونیشیا میں زندگی کے بڑھتے اخراجات کے دوران ارکان پارلیمان کے شاہانہ مراعات نے عوامی غصے کو بھڑکایا، اور وہاں پرتشدد مظاہرے کئی ہفتوں تک جاری رہے۔ 10سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں۔ آخرکار صدر پرابوو سوبیانتو کو پسپا ہونا پڑا۔انہوں نے کئی مراعات ختم کیں اور اپنے معاشی وزراء سمیت کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کیں۔
مشرقی تیمورمیں بھی طلبہ اور نوجوانوں نے ارکان پارلیمان کے لیے نئی گاڑیوں اور تاحیات پنشن کے منصوبے کے خلاف پارلیمان کے باہر احتجاج کیا۔ حکومت کو جھکنا پڑا، اور قانون منسوخ کر دیا گیا۔
فلپائن میں وسط ستمبر میں ہزاروں نوجوان منیلا کے رزال پارک میں جمع ہوئے، جہاں انہوں نے سیلابی بحالی منصوبوں میں 1.8 ارب ڈالر کی مبینہ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھائی۔
بڑھتی ناہمواری اور مراعات یافتہ طبقے کے خلاف غصہ
’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ نے واضح کیا ہے کہ چین اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں ہر 7میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے۔ صنعتی شعبے سے سروس سیکٹر میں تبدیلی نے درمیانے طبقے کے استحکام کو کمزور کر دیا ہے۔
ان ممالک میں درمیانے طبقے کے مقابلے میں اب زیادہ لوگ ”غربت کے خطرے“ میں مبتلا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،جس میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے ماہر فل رابرٹسن کے مطابق ”جب نوجوان روزانہ سوشل میڈیا پر امیر طبقے کی عیاشیوں اور سرکاری کرپشن کے مظاہرے دیکھتے ہیں تو ان کا غصہ پھٹ پڑتا ہے۔ حکومتوں کی ناکامی نے ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جہاں نوجوانوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔“
نئی نسل کا احتجاج، پرانے مطالبات
اگرچہ ان مظاہروں کی قیادت نوجوانوں نے کی، لیکن ان کے معاشی انصاف، بدعنوانی کے خاتمے، اور حکمران طبقے کے احتساب پر مبنی مطالبات پوری نسلوں کی آواز بن گئے۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی محقق گیتا پتری دمایانا کے مطابق ”یہ مظاہرے حکومت کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ نظامی شفافیت اور بہتر طرزحکمرانی کے لیے تھے۔“
انڈونیشیا اور نیپال میں جب طلبہ تحریکوں نے خوف کی دیوار توڑ دی تو مزدور یونینز اور سول سوسائٹی کے گروہ بھی شامل ہو گئے۔یہ کوئی بالکل نیا رجحان نہیں۔ 2020-21 میں تھائی لینڈ میں نوجوانوں کی تحریک نے بادشاہت تک میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم جب اس نے طاقت کے ڈھانچے کو چیلنج کیا تو ریاست نے سخت جبر کا سہارا لیا۔
احتجاج سے اصلاحات تک کا سفر: مشکل مگر ناگزیر
اگرچہ حکومتوں نے وقتی رعایتیں دی ہیں، لیکن اس کے باوجود خطے میں نوجوانوں کی بغاوت کے امکانات برقرار ہیں۔انڈونیشیا اور فلپائن جیسے ممالک میں، جہاں جمہوریت سکڑ رہی ہے، حکمران طبقہ ان احتجاجوں کو ”فسادات“ یا ”غیر ملکی سازش“ کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔لیکن حقیقی امتحان اس وقت ہوگا جب احتجاجی طاقت کو ادارہ جاتی اصلاحات میں بدلا جائے گا۔
تھائی لینڈ: اگلا محاذ؟
تھائی لینڈ مارچ سے سیاسی بحران میں مبتلا ہے، وہاں رواں سال کے آخر تک نئے انتخابات متوقع ہیں۔نوجوانوں کی حمایت یافتہ موو فارورڈ پارٹی گزشتہ انتخابات میں جیت کر بھی حکومت نہیں بنا سکی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے روک دیا۔ بعد ازاں عدالت نے پارٹی کو تحلیل کر دیا۔ اب وہی قوتیں پیپلز پارٹی کے نام سے منظم ہو رہی ہیں۔اگر انہیں پھر اقتدار سے روکا گیا، تو ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ نوجوان تھائی عوام کا ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔
ایک ملک کی بغاوت دوسرے ملک کیلئے تحریک
انسانی حقوق کے ماہر فل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے دنیا کے نوجوانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔”اب کسی ملک میں کامیاب احتجاج دیکھ کر دوسرے ممالک کے نوجوان بھی حوصلہ پاتے ہیں۔ یہ احتساب اور مساوات کے لیے ایک مثبت رجحان ہے، اور امید ہے کہ یہ آمرانہ لوٹ مار اور انسانی حقوق کی پامالی کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔“
جنریشن زی کا غصہ صرف روزگار یا ٹک ٹاک پابندیوں کا ردعمل نہیں، بلکہ ایک گہری ساختیاتی بے انصافی کے خلاف اجتماعی آوازہے۔یہ وہ نسل ہے جو ڈیجیٹل دنیا میں پیدا ہوئی، لیکن حقیقی دنیا میں اسے غربت، امتیاز اور مراعات یافتہ طبقے کی اجارہ داری ملی۔ان کے احتجاج بتا رہے ہیں کہ ایشیا کا سیاسی نقشہ بدلنے والا ہے۔ اگر یہ غصہ منظم قیادت کی موجودگی سے سرفراز ہو جائے، تو شاید ایک نئی سیاسی تاریخ لکھی جا سکے۔
