ساحل باچا
یکم اکتوبر کو خیبر پختونخوا کی صوبائی کابینہ کی جانب سے کالجز کی آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے ایک متنازع فیصلہ کیا گیا۔ آؤٹ سورسنگ دراصل پرائیویٹائزیشن (نجکاری) کی ایک شکل ہے، جس میں کسی مخصوص ادارے کو ایک نجی ٹھیکیدار کے حوالے کیا جاتا ہے۔ یہ ٹھیکیدار ایک فرد بھی ہوسکتا ہے یا ایک مکمل نجی ادارہ بھی۔ اس نظام کے تحت تعلیمی ادارے کے بنیادی اور انتظامی امور ،جیسے داخلوں کا نظام، فیسوں کی وصولی، سیکیورٹی، صفائی، امتحان کی تیاری اور پیپرز کی چیکنگ ،اس نجی فریق کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، جو پھر اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ اس طرح، اگرچہ ادارے کا ظاہری کنٹرول حکومت کے پاس رہتا ہے، مگر اصل فیصلہ سازی نجی ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں ان کالجز کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جن میں 300 سے کم طلبہ زیرِ تعلیم تھے، جن کی مجموعی تعداد 55 تھی۔ اس فہرست میں وزیرستان اور باجوڑ جیسے پسماندہ اور حساس علاقے بھی شامل تھے، جہاں کی گرلز کالجز میں بمشکل 200 کے قریب بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا پہلے ہی ایک مشکل اور سماجی دباؤ سے بھرا عمل ہے، وہاں یہ فیصلے اُن کی تعلیمی امیدوں پر کاری ضرب ہیں۔ ان کالجز میں پڑھنے والی اکثریت کا تعلق نچلے اور متوسط طبقے سے ہے، جو بمشکل 8 سے 10 ہزار روپے فیس ادا کر پاتے ہیں۔ اگر نجی ٹھیکیداروں کو تعلیمی اداروں کا کنٹرول دے دیا جائے تو سب سے زیادہ اثر انہی غریب طلبہ پر پڑے گا، جن کے لیے تعلیم پہلے ہی ایک معاشی چیلنج ہے۔
اس فیصلے کے بعد صوبے بھر کے طلبہ میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔ اگلے ہی دن یہ غصہ احتجاجی مظاہروں میں بدل گیا۔ یہ مظاہرے صوبے کے 333 کالجز میں ہوئے، جن میں چترال سے لے کر وزیرستان، اور مردان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ اور ایبٹ آباد تک کے ادارے شامل تھے۔ ان مظاہروں میں خواتین طلبہ کی شمولیت ایک تاریخی اور امید افزا پہلو تھی، جو ظاہر کرتی ہے کہ اب نوجوان خواتین بھی اپنے حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھا رہی ہیں۔
طلبہ کو کئی جگہوں پر ڈرایا، دھمکایا اور دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ اس کے برعکس احتجاج کی شدت اور وسعت میں اضافہ ہوتا گیا۔ طویل عرصے سے طلبہ سیاست میں جو خاموشی اور جمود تھا، ان مظاہروں نے اسے توڑ دیا اور طلبہ سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ احتجاج صرف کالجز کے تحفظ کی جنگ نہیں تھی بلکہ ایک منافع خور نظام کے خلاف بیداری کی علامت بھی تھی۔
یہ احتجاجی سلسلہ مسلسل ایک ہفتے تک جاری رہا، اور آخرکار خیبر پختونخوا کی حکومت کو طلبہ کے دباؤ کے نتیجے میں اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ طلبہ نے اپنی یکجہتی، اور مزاحمتی طاقت کے بل پر وقتی طور پر ایک تاریخی کامیابی حاصل کی۔
مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کی نجکاری کا یہ رجحان محض ایک وقتی پالیسی نہیں، بلکہ ایک گہری نیو لبرل حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہ وہ عالمی نظام ہے جو ریاستی اداروں کو کمزور کرکے انہیں منڈی کی منطق کے تابع کرنا چاہتا ہے۔ تعلیم کو حق کے بجائے کاروبار بنانے کی یہ سوچ دراصل سماجی ناانصافی کو مزید گہرا کرتی ہے۔
طلبہ یونین پر پابندی کو تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔ حکمران طبقہ یہ سمجھتا تھا کہ طلبہ مزاحمت کی تاریخ اب دفن ہو چکی ہے، مگر تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ اس طلبہ تحریک نے یہ ثابت کیا کہ جب نوجوان اپنے حق کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو کوئی بھی طاقت انہیں خاموش نہیں کرا سکتی۔
یہ تحریک صرف حکومت کے ایک فیصلے کے خلاف نہیں، بلکہ ایک وسیع تر سماجی و معاشی نظام کے خلاف بغاوت کی ابتدا ہے ،ایک ایسا نظام جو طبقاتی تفریق کو مضبوط اور عوامی حقوق کو کمزور کرتا ہے۔ اس تحریک نے یہ پیغام دیا ہے کہ جب طلبہ شعور کے ساتھ اٹھتے ہیں تو وہ نہ صرف حکومتی پالیسیوں کو بدل سکتے ہیں بلکہ تاریخ کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں۔
