گیبریل ہیٹ لینڈ
’ہم نے اسے اڑا دیا ، اور ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے‘۔’مجھے پرواہ نہیں تم اسے کیا کہتے ہو‘۔یہ الفاظ بالترتیب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس کے ہیں، جو گزشتہ ماہ وینزویلا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں امریکی افواج کی جانب سے کی گئی پانچ بمباریوں میں سے پہلی کارروائی سے متعلق تھے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 27افراد ہلاک ہوئے۔ واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ یہ کشتیاں منشیات سے بھری ہوئی تھیں جو امریکی ساحلوں تک پہنچنے والی تھیں، لیکن اس دعوے کے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2 ستمبر کے پہلے حملے میں مارے جانے والے ممکنہ طور پر ماہی گیر تھے۔
اس کارروائی کے ساتھ ساتھ امریکہ نے کیریبین میں اپنی فوجی موجودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس میں 8 بحری جنگی جہاز، ایف35 لڑاکا طیاروں کا ایک اسکواڈرن، ایک جوہری آبدوز، اور 10ہزار سے زائد فوجی شامل ہیں۔ ٹرمپ نے وینزویلا کی حکومت کو’منشیات فروش دہشت گرد کارٹیل‘قرار دیا ہے، جبکہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ایک ہفتہ قبل ہی تمام سفارتی رابطے منقطع کر دیے تھے۔
9 اکتوبر کو وینزویلا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست یہ کہتے ہوئے کی کہ ملک کو’بڑھتے ہوئے خطرات‘کا سامنا ہے اور ایک قریب الوقوع مسلح حملے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی اس نئی جارحانہ پالیسی کو کیسے سمجھا جائے؟
واشنگٹن طویل عرصے سے لاطینی امریکہ کواپنے بیک یارڈز سمجھتا رہا ہے ۔ جیسا کہ 1823ء کے مونرو ڈاکٹرائن میں واضح طور پر بیان کیا گیا تھا، جس میں یورپی طاقتوں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اس خطے کو امریکہ کے لیے چھوڑ دیں۔ ظاہر ہے، لاطینی امریکیوں کے لیے نہیں۔19ویں اور20ویں صدی کے دوران امریکہ نے بار بار لاطینی امریکہ کے معاملات میں مداخلت کی۔کچھ بدنام ترین مثالوں میں 1954 میں گوئٹے مالا کے صدر جیکوبو آربنز کے خلاف فوجی بغاوت،1973 میں چلی کے صدر سلوادور آلندے کی حکومت کا خاتمہ،1989 میں پاناما پر امریکی حملہ (جو موجودہ وینزویلا کارروائی سے حیرت انگیز مشابہت رکھتا ہے)،1991 اور 2004 میں ہیٹی کے صدر ژاں برٹرینڈ آریستید کی معزولی،اور 2009 میں ہونڈوراس میں ہونے والا فوجی تختہ الٹناشامل ہیں۔
پچھلے 25برسوں میں وینزویلا کسی بھی دوسرے لاطینی امریکی ملک کے مقابلے میں امریکی حکومت کی تبدیلی کی سب سے زیادہ کوششوں کا شکار رہا ہے۔
یہ جنون 1998 میں ہوگو شاویز کے انتخاب کے چند سال بعد شروع ہوا، جب واشنگٹن نے انہیں ہٹانے کے لیے کئی منصوبوں کی پشت پناہی کی ۔ ان میں 2002 کی فوجی بغاوت اور 2002-2003 کی تیل کی ہڑتال شامل تھی، جس نے ملک کی سب سے اہم صنعت کو مفلوج کر دیا۔
بش اور اوباما دونوں حکومتوں نے وینزویلا کی اپوزیشن کو لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کی، جس میں حالیہ نوبیل امن انعام یافتہ ماریا کورینا ماچادو بھی شامل ہیں۔ انعامی کمیٹی نے ماچادو کی تشدد کے ذریعے حکومت گرانے کے ماضی کی حمایت اور سیاسی قتل و غارت میں شمولیت کو نظرانداز کر دیا۔
شاویز کی 2013ء میں وفات کے بعد ان کے جانشین نکولاس مادورو کو بھی واشنگٹن کی اسی پالیسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اوباما حکومت نے 2014ء میں اپوزیشن کے پرتشدد مظاہروں کی حمایت کی، جن میں 43 افراد مارے گئے، جبکہ 2017ء میں بھی ایک اور پرتشدد لہر کو امریکی پشت پناہی حاصل رہی۔
2015ء میں اوباما نے وینزویلا کو’امریکی قومی سلامتی کے لیے غیر معمولی خطرہ‘قرار دیا ۔یہ ایک ایسا دعویٰ تھا، جسے خود وینزویلا کی اپوزیشن نے بھی مسترد کر دیا۔اسی جھوٹے بہانے کے تحت امریکہ نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں، جنہوں نے وینزویلا کی معیشت کو تباہ کر دیا۔
ماہر اقتصادیات فرانسسکو روڈریگیز اپنی کتاب ’دی کولیپس آف وینزویلا‘میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ حکومت کی غلط پالیسیوں نے بحران میں کردار ادا کیا، لیکن امریکی پابندیوں نے بحالی کو ناممکن بنا دیا۔
ٹرمپ کے پہلے دورحکومت میں یہ دشمنی مزید شدت اختیار کر گئی۔ انہوں نے ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کے تحت تیل کی صنعت پر پابندیاں لگائیں اور جنوری 2019 میں اپوزیشن رہنما خوان گوائیڈو کے’خود ساختہ صدر‘بننے کے دعوے کی حمایت کی۔گوائیڈو کے حامیوں نے بعد میں امریکی فوجی مداخلت کی اپیل کی، معاشی دباؤ کی حمایت کی، فوج کو بغاوت پر اکسایا، اور 2020ء میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی ناکام آپریشن گیڈیون کی مالی معاونت کی ۔ یہ وہ سمندری حملہ تھا جس میں مداخلت کرنے والے کرائے کے فوجی خود ماہی گیروں کے ہاتھوں پکڑے گئے۔
لہٰذا ٹرمپ کے حالیہ اقدامات کو وینزویلا کی بولیوارین سوشلسٹ رژیم کے خلاف امریکی جارحیت کے ایک دیرینہ سلسلے کا حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ تاہم اس بار کچھ نمایاں فرق بھی موجود ہیں۔اول، موجودہ انتظامیہ نے موثر طور پر ’جمہوریت‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے اس پردے کو یکسر ترک کر دیا ہے جو ماضی میں، حتیٰ کہ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں بھی ، وینزویلا کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
اس کے ساتھ ساتھ ’کثیرالجہتی‘ کی ظاہری اہمیت بھی پہلے سے کم نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر خوان گوائیڈو کی ’عبوری صدارت‘ کو اس وقت دنیا بھر کے درجنوں ممالک نے تسلیم کیا تھا۔ آج اگرچہ ارجنٹینا، پیراگوئے اور پیرو سب امریکہ کے ساتھ صف بند ہیں، اور ابیناڈر کی قیادت میں ڈومینیکن ریپبلک نے کیریبین میں مشترکہ کارروائیوں میں حصہ بھی لیا ہے، لیکن موجودہ امریکی حکومت کے نزدیک بین الاقوامی حمایت اب محض بعد از خیال معلوم ہوتی ہے ، یعنی اس کی کوئی مرکزی ترجیح نہیں ہے۔
امریکہ کا لاطینی امریکہ اور کیریبین خطے پر کنٹرول ہمیشہ طاقت اور رضامندی کے درمیان ایک توازن کے طور پر قائم رہا ہے۔ تاہم اب تک ٹرمپ انتظامیہ واضح طور پر پہلے عنصر یعنی طاقت کے استعمال کی جانب زیادہ مائل دکھائی دیتی ہے۔یوں اس سمت کا سفر شاید اس حالت کی طرف جا رہا ہے جسے رنجیت گہا نے’dominance without hegemony‘ کہا تھا ، یعنی ایسا اقتدار جو جبر کے ذریعے تو قائم ہو جائے، مگر اسے اخلاقی یا نظریاتی جواز حاصل نہ ہو۔
ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کو کھلی جارحیت اور طاقت کے بے نقاب استعمال کی ایک نمایاں روش نے نشان زد کیا ہے۔یہ رجحان واضح طور پر اس وقت نظر آیا جب انہوں نے تجارتی پالیسی کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ۔ جیسا کہ برازیل پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنا، صرف اس ’جرم‘پر کہ وہاں بولسونارو کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
اسی زمرے میں کئی اور مثالیں بھی آتی ہیں، جیسے محکمہ دفاع کا نام بدل کرمحکمہ جنگ رکھ دینا،نیشنل گارڈ کی بڑے پیمانے پر تعیناتی،سیاسی مخالفین کے خلاف عدالتی کارروائیوں کے ذریعے انتقامی مہم،اور چارلی کرک کے قتل کے بعد قومی اتحاد کے مظاہرے سے انکار۔جب مقتول کی بیوی ایرکا کرک نے اپنے شوہر کے قاتل کو معاف کرنے کا اعلان کیا، تو ٹرمپ کا جواب یہ تھاکہ ’’میں اپنے دشمنوں سے نفرت کرتا ہوں‘‘۔
اسی تناظر میں وینیزویلا کی کشتیوں پر بمباری کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ان ماورائے عدالت ہلاکتوں کا واحد جواز یہ دیا گیا کہ یہ کارروائیاں مبینہ ’نارکو ٹیررازم‘ کے خلاف ہیں ، یہ ایک ایسی غیر واضح اصطلاح ہے جو ’وار آن ڈرگز‘ اور ’وار آن ٹیرر‘ کو ملا کر بنائی گئی ہے۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے آج تک اس الزام کے ثبوت فراہم نہیں کیے۔جیسا کہ مورخ میگوئل ٹنکرسالاس نے لکھا ہے کہ حکومت نے خود کو جج، جیوری اور جلاد تینوں کرداروں میں بدل لیا ہے۔
غیر جنگجو شہریوں کو قتل کرنے سے جو پیغام دیا گیا، وہ بالکل واضح ہے کہ’ہم جو چاہیں گے، جب چاہیں گے، کریں گے ، اور کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔‘
یہ کارروائی بظاہر امریکہ کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی کے مطابق ہے، جو جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہے۔اس پالیسی کا محور ’ہمسائیگی کی سلامتی‘ کو دوبارہ ترجیح دینا بتایا جا رہا ہے ، بالخصوص لاطینی امریکہ، مہاجرت اور منشیات کے کارٹیلوں سے متعلق تعلقات پر زور دیا جا رہا ہے۔
تاہم یہ تصور کہ کشتیوں کی بمباری سے امریکہ میں منشیات کے بہاؤ میں کوئی نمایاں کمی واقع ہوگی، انتہائی بعید از قیاس ہے۔وجہ سادہ ہے۔ لاطینی امریکہ سے امریکہ پہنچنے والی منشیات کی اکثریت مشرقی بحرالکاہل کے راستے آتی ہے، نہ کہ کیریبین کے ذریعے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ وینزویلا ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 10 سے 13 فیصد کوکین کی ترسیل کی گزرگاہ ہے (امریکی ایجنسیوں کے مطابق)، مگر وہ فینٹانائل فراہم نہیں کرتا ، یہ وہ مصنوعی نشہ آور مادہ ہے جو امریکہ میں 70 فیصد منشیاتی اموات کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ کا یہ دعویٰ کہ نکولس مادورو ’کارٹیل دے لوس سولیس‘کے سربراہ ہیں، ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وینزویلا میں منظم جرائم کے ماہرین اس طرح کے کسی کارٹیل کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکہ وینزویلا کی کشتیوں پر بمباری منشیات روکنے کے لیے نہیں کر رہا، تو پھر کیوں؟ایک بڑا عامل مارکو روبیو کی ذاتی سیاسی خواہش ہے کہ وہ ٹرمپ کے قریبی حلقے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرے۔وزیرخارجہ روبیو کی مادورو کے خلاف جنون آمیز مہم کوان کے جنوبی فلوریڈا کے سیاسی پس منظر سے سمجھا جا سکتا ہے ، جہاں دہائیوں سے انتہائی دائیں بازو کے کمیونزم مخالف وینزویلائی اور کیوبائی جلاوطن گروہ فیصلہ کن اثر رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے قریبی مشیروں میں کئی اور اہم شخصیات بھی ہیں جو روبیو کی سخت گیر پالیسی سے اتفاق رکھتی ہیں، مثلاً سی آئی اے کے ڈائریکٹر جون ریٹکلف اور سٹیفن ملر ۔
مورخ گریگ گرینڈن کے مطابق روبیو کی سخت گیر موقف کا تضاد ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرینیل کے موقف سے ہے، جو مادورو کے ساتھ سودے بازی کے حامی تھے۔نیو یارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گرینیل نے ایک غیر معمولی معاہدہ طے کر لیا تھا، جس کے تحت امریکی کمپنیوں کو وینزویلا کے وسائل، بشمول تیل، پر نمایاں کنٹرول حاصل ہو جاتا۔تاہم ٹرمپ نے اس سودے کو مسترد کر دیا اور تمام دستیاب شواہد کے مطابق، فی الحال روبیو کی سخت گیر پالیسی ہی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
امریکہ کی وینزویلا مخالف پالیسی کے پیچھے داخلی عوامل بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔وینزویلا کے ساتھ ایک تنازع پیدا کرنا ٹرمپ انتظامیہ کو 1798 کے Alien Enemies Act کے تحت وینزویلا کے شہریوں کو ملک بدر کرنے کا قانونی جواز فراہم کر سکتا ہے، یہ ایک ایسا اقدام ہے،جس کی تیاری حکومت پہلے ہی کر رہی ہے۔
اگر امریکہ اور وینزویلا کے درمیان فوجی محاذ آرائی شروع ہو جائے، تو امریکی عدالتیں غالباًحکومت کے موقف کے لیے زیادہ ہمدردانہ رویہ اختیار کریں گی، جس کے نتیجے میں وینزویلا کے شہریوں کو قومی سلامتی کے خطرے کے نام پر ملک بدر کرنا آسان ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ ایسا تنازع ٹرمپ کے لیے ان اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں، خصوصاً ایپسٹین فائلزجو کئی مہینوں سے ان کے لیے دردسر بنی ہوئی ہیں، اور جن کے افشا ہونے کا خطرہ اب بڑھ گیا ہے۔اس خطرے کی ایک بڑی وجہ ایڈیلیٹا گریخالوا کی ایریزونا کے ضمنی انتخاب میں فتح ہے، جس سے ڈیموکریٹس کو ایوان نمائندگان میں اتنے ووٹ حاصل ہو گئے ہیں کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ پر باقی ماندہ فائلز جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔تاہم ریپبلکن اسپیکر مائیک جانسن اب تک گریخالوا کی حلف برداری کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، جس پر گریخالوا نے عدالتی چارہ جوئی کی دھمکی دی ہے۔
دوسری طرف وینیزویلا کے صدر نیکولس مادورو کا کہنا ہے کہ کیریبین میں امریکی جارحانہ کارروائیاں دراصل رژیم چینج کی نئی مہم کا حصہ ہیں۔ٹرمپ نے عوامی سطح پر اس الزام کی تردید کی ہے، لیکن بہت سے اشارے بتاتے ہیں کہ وہ واقعی اس خیال پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔رپورٹس کے مطابق وینزویلا کے اندر فوجی کارروائی کے منصوبے پہلے سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ممکن ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں وینزویلا کے زمینی اہداف پر فضائی حملے شروع کر دیے جائیں، جو ایک بڑی عسکری پیش رفت ہوگی ۔ٹرمپ نے مبینہ طور پر سی آئی اے کو خفیہ کارروائیوں کی اجازت بھی دے دی ہے۔
تاہم ٹرمپ کی غیر مستقل مزاجی اور ناکام آپریشنز سے دست برداری کی سابقہ عادت کو دیکھتے ہوئے یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اچانک پالیسی بدل ڈالیں۔
چاہے مادورو حکومت کے خاتمے کا کوئی مربوط منصوبہ موجود ہو یا نہ ہو، یہ بات واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مادورو کو ردعمل دینے پر اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ابھی تک مادورو نے اس جال میں قدم نہیں رکھا۔وینزویلا کی طرف سے ردعمل صرف عوامی ملیشیاؤں کی تیاری اور جنوبی کیریبین میں امریکی بحری جہاز کے اوپر دو F-16 طیاروں کی پرواز تک محدود رہا ہے۔ تاہم امریکی فوجی مداخلت کے خطرے نے وینزویلا کی دفاعی صلاحیت پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اگرچہ مکمل معلومات دستیاب نہیں، مگر امریکی عسکری ذرائع میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹس کے مطابق وینزویلا کے دفاعی نظام میں کئی کمزوریاں ضرور ہیں، لیکن اس سب کے باوجود وہ امریکی حملے کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی بن سکتا ہے۔
اب تک کے شواہد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی جارحیت نے مادورو کی اندرون ملک سیاسی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے۔اس کی ایک مثال وینزویلا کی کمیونسٹ پارٹی کا بیان ہے، جو ماضی میں مادورو حکومت کو آمرانہ، غیر قانونی اور مزدور دشمن قرار دیتی رہی ہے ، لیکن اب اس نے اعلان کیا ہے کہ’اگر امریکہ نے وینزویلا پر حملہ کیا، تو پارٹی اپنی پوزیشن میں ایک بنیادی تبدیلی کرے گی، اور ملکی خودمختاری کے دفاع کے نام پر حکومت کا ساتھ دے گی۔‘
فی الحال، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ وینزویلا کی کشتیوں کو تباہ کرنے کی پالیسی جاری رکھنے پر مصر ہے۔اس کارروائی کو روکنے کی کانگریس میں کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ایلہان عمر کی پیش کردہ قرارداد پر ووٹنگ کرائی گئی ، مگرانہیں تین ووٹوں کے فرق سے شکست ہو گئی۔ڈیموکریٹس کی مخالفت بھی زیادہ تر عملی یا طریقہ کار کے حوالے سے تھی، جیسا کہ مشی گن کی سینیٹر ایلیسا سلاٹکن نے کہاکہ ’اگر ٹرمپ انتظامیہ واقعی کسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ کرنا چاہتی ہے، تو اسے کانگریس میں آنا چاہیے، ہمیں اطلاع دینی چاہیے، اور ہماری منظوری حاصل کرنی چاہیے۔‘ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ’مجھے دراصل کارٹیلز کے خلاف کارروائی پر کوئی خاص اعتراض نہیں۔‘
بین الاقوامی سطح پر کولمبیا کے بائیں بازو کے صدر گستاوو پیٹرو نے ان حملوں کو آمرانہ اقدام قرار دیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 10 اکتوبر کے اجلاس میں روس اور چین نے ٹرمپ کی کارروائیوں کی شدید مذمت کی،جبکہ یورپ اور افریقہ کے بیشتر سفارت کاروں نے محتاط انداز میں خاموشی اختیار کی۔
فی الحال یہ کہنا ممکن نہیں کہ امریکہ اور وینزویلا کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑنے والی ہے یا نہیں ،لیکن کاراکاس کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ بدترین خدشات رکھے۔
(بشکریہ: ’لنکس‘، ترجمہ: حارث قدیر)
