ساجد نعیم
17اکتوبر2025 کو مظفر آباد میں مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے لیے مختص حلقوں سے منتخب ہونے والے تین ممبران اسمبلی نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی اپنی وزارتوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اپنی وزارتوں سے علیحدگی کا تمام تر بوجھ فرد واحد انوار الحق پر ڈالنے کی کوشش کی۔ درحقیقت وزارتوں سے علیحدگی کا یہ عمل گزشتہ ڈھائی سالہ عوامی حقوق تحریک کے بے انتہا دباؤ کا نتیجہ ہے۔تاہم حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ چلن رہا ہے کہ وہ عوامی طاقت کی نفی کرتے ہیں اور حقائق کو کوئی ایسا رخ دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے عوام کو یہ تاثر ملے کہ حکمران اشرافیہ آپ کی طاقت کو کسی شمار میں نہیں لاتی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ چند وزرا کی حکومت سے علیحدگی دراصل جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ پاکستان کی وفاقی سطح پر تشکیل دی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے طے شدہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔ 29 ستمبر سے شروع ہونے والے عوامی حقوق تحریک کے احتجاج نے اپنے ہی تمام سابقہ ریکارڈز کو مات دیتے ہوئے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 29 ستمبر سے 4 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس احتجاج میں 4 سے 5 لاکھ افراد موبلائز ہوئے۔ مظفر آباد کی طرف مارچ کرنے والے شرکا جن کا آخری پڑاؤ کوہالہ تک محدود رہا ڈیڑھ سے دو لاکھ تک تھے۔
ایک اندازے کے مطابق اس خطے کی 45 لاکھ آبادی میں معاشی جلا وطنوں کو چھوڑ کر یہاں پر موجود آبادی 25 لاکھ سے زیادہ نہیں۔ اس آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ خواتین پر مشتمل ہے ،جو کہ باوجوہ مارچ میں حصہ لینے کی اہل نہ تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر شرکائے مارچ کو داد و تحسین دے کر یا پھر گھروں سے کھانا پکا کر شرکا کے شکم سیر کر کے اپنا تحریکی فریضہ سر انجام دیتی رہیں۔بہر کیف اگر خواتین کی اس تعداد کونفی کر دیا جائے اور بزرگوں اور بچوں کو منہا کر دیا جائے ،تومارچ میں شمولیت کی اہل آبادی بمشکل 8 لاکھ تک رہ جاتی ہے۔ان میں سے بھی سرکاری ملازمین کو منہا کر دیا جائے تو تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس میں یہ عنصر بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں شہری آبادی نہ ہونے کی برابر ہے۔ حتیٰ کہ دیہی آبادی بھی انتہائی منتشر اور بکھری ہوئی ہے۔ اس طرح کی کیفیات میں 4 سے 5 لاکھ افراد کی موبلائزیشن ایک انقلابی کیفیت سے کسی طور بھی کم نہ تھی۔
صرف یہی نہیں جوائنٹ عوامی ایکشن کے احتجاج کے پلان اے، بی ،سی،ڈی کے مقابلے میں حکمران اشرافیہ اور مقتدرہ کا بھی پلان اے، بی اور سی موجود تھا۔ پلان اے تحت مروجہ سیاسی پارٹیوں، ان کے گماشتوں اور انتظامیہ کو استعمال کر کے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کی کال کو ناکام بنانا تھا۔ اس پلان کی ناکامی کے بعد دو وفاقی وزرا کے ساتھ جوائنٹ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا ناٹک رچا کر پلان بی پر عملدرآمد کرنا تھا۔ اس پلان کے تحت روایتی سیاسی کارکنوں کی ایک کھیپ تیار کر کے ایکشن کمیٹی پر حملہ آور ہونا تھا، لیکن عوامی طاقت کا زور اس قدر زیادہ تھا کہ یہ پلان قابل عمل نہ رہا۔ پلان سی کی مطابق گزشتہ سال 9 سے 13 مئی کے دوارن لاگو کی گئی ریاستی تشدد کی پالیسی کو مزید سخت کرنا تھا۔ اب کی بار مظاہرین اور شرکائے مارچ پر راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹ فائر کا عنصر بھی شامل تھا۔ تشدد کے اس عنصر کے اضافے کا مقصد یہ تھا کہ جس بھی ریلی میں ایک دو لاشیں گریں گی ریلی منتشر ہو جائے گی، لیکن عوامی طاقت کے سامنے ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہر جگہ شرکائے مارچ نے نہ صرف سیدھی گولیوں کے جواب میں استقامت دکھائی بلکہ ریاستی جبر کی فورسز کو شکست فاش دے کر اپنے مارچ کے رستے ہموار کیے۔
مظفرآباد اوراسلام آباد کے حکمران ایک بار پھر عوامی طاقت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئے اور 3 اور 4 اکتوبر کے طویل ترین مذاکرات کے بعد جو معاہدے طے ہوئے ان میں سے ایک کے تحت کابینہ کا حجم زیادہ سے زیادہ 20 وزیروں مشیروں تک محدود کرنا طے پایا۔ اب جبکہ ان وزیروں کا جانا نا گزیر ہو چکا ہے ، تو وہ نئے انداز میں رائے عامہ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تحریر کے بقیہ حصے میں مستعفی ہونے والے وزرا ماجد خان اور اکبر ابراہیم کے پیش کردہ گمرا کن موقف کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ سرگرم تحریکی کارکن اپنا ریکارڈ درست کر لیں۔
سب سے پہلے ان ممبران اسمبلی کے ترجمان ماجد خان کے بارے میں چند حقائق نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔ موصوف کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے دادا عبدالحمید خان اس خطہ کے نہ صرف پہلے بلکہ واحد مہاجر وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ موصوف کا سنہ پیدائش 1907 درج ہے جبکہ گوگل پر جائے پیدائش درج نہیں۔ عبدالحمید خان کے دوسرے بھائی خان عبدالقیوم خان موجودہ کے پی کے اور اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کے پہلے وزیراعلی ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور وہ 23 اگست 1947 کو اس منصب پر برا جمان ہو چکے تھے۔ گوگل پر ان کے پروفائل پر ان کا سنہ پیدائش 1901 اور جائے پیدائش چترال درج ہے۔ یہ بھی ایک مستند حقیقت ہے کہ موصوف کے والد برٹش انڈیا میں شمال مغربی سرحدی صوبہ میں تحصیل دار تھے اور وہ خود یا ان کا کوئی جد امجد 19ویں صدی میں ضلع بارہ مولا سے ہجرت کرکے موجودہ کے پی کے میں رہائش پذیر ہوئے۔جس سٹیٹ سبجیکٹ کے تحت وہ باشندہ ریاست ہونے کے دعویدار ہیں، اس کے مطابق 1885سے قبل جموں کشمیر میں رہائش رکھنے والے افراد سٹیٹ سبجیکٹ درجہ اول، 1913سے قبل رہائش رکھنے والے درجہ دوم ، جبکہ اس کے بعد ایک مخصوص طریقہ سے درجہ سوم کے شہری بن سکتے ہیں۔ 1927میں نافذ ہونے والے سٹیٹ سبجیکٹ قانون، جو آج تک پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں رائج ہے، کے مطابق ماجد خان اور ان کا خاندان سٹیٹ سبجیکٹ ہی نہیں ہے۔
ان 12 نشستوں کے دفاع پر مامور نمائندہ ہی ان نشستوں کے فراڈ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ پہلے تو ان نشستوں کو کوئی آئینی تحفظ ہی حاصل نہ تھا۔ 2018 میں فاروق حیدر خان نے 13ویں ترمیم کے ذریعے ان کو آئینی تحفظ فراہم کرتے وقت جن مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کو حق ووٹ اور حق نمائندگی دیا گیا ان میں 1947، 1965 کے مہاجرین اور متاثرین منگلا ڈیم مقیم پاکستان شامل ہیں۔ خود مہاجرین کا ترجمان ان مہاجرین میں سے ہے ہی نہیں ،جن کا درد اسے کھائے جا رہا ہے ۔اس پر بھی کمال یہ ہے عبدالحمید خان اس کے بعد ان کے بیٹے خان عبدالوحید خان، ان کی بہو شیریں وحید خان اور اب تیسری نسل خان عبد الماجد خان کی شکل میں ان نشستوں کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
ماجد خان نے ماضی کے مختلف ایکٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ان نشستوں کے وجود کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش بھی کی۔ سوال یہ ہے کہ ’آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر‘ کی حیثیت ایک لوکل اتھارٹی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اس کا دائرہ کار 4000 مربع میل تک واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے اور اس کی ذمہ داری اسی دائرہ کار کے اندر آباد لوگوں کی فلاح و بہبود کرنا قرار دیا گیا ہے۔ ایسے میں ان مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کا یہاں کی حکومت سے کیا لینا دینا بنتا ہے ،جن کی آبادکاری کی کلی ذمہ داری معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان نے اپنے سر لے رکھی تھی۔ کسی جرم یا ظلم و زیادتی کے طویل عرصہ تک جاری رہنے سے وہ عدل و انصاف میں نہیں بدل جاتا ،بلکہ اس کا کردار ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔
1962 میں بنیادی جمہوریت کے نام پر اس خطہ میں پاکستان طرز کی جو پریکٹس کی گئی ،اس کا انتخابی کالج 2400 بی ڈی ممبران پر مشتمل تھا۔ ان میں سے سے 1200 کا تعلق اس خطہ سے تھا ،جبکہ 600 جموں اور 600 ویلی کے مہاجرین میں سے تھے۔ 1970 کے ایکٹ کے تحت بالغ رائے دہی کے بنیاد پر ہونے والے پہلے صدارتی انتخاب میں اس حق رائے دہی کا گھناؤنا سامراجی کردار اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ جسٹس(ر)عبدالمجید اپنی خود نوشت میں بیان کرتے ہیں کہ اس الیکشن میں کے ایچ خورشید کو اپنے مد مقابل سردار عبدالقیوم خان اور سردار ابراہیم خان پر واضح برتری حاصل تھی۔سردار قیوم خان نے کسی جنرل کے ذریعے یحییٰ خان تک رسائی حاصل کر لی۔ مشرقی پاکستان کی مصروفیات کے پیش نظر صرف دو منٹ کی ملاقات میں قیوم خان نے اپنے آپ کو الحاق پاکستان کا حامی اور کے ایچ خورشید کو خودمختاریہ پوٹرے کر کے ساری بازی پلٹ دی ،اس حقیقت کے باوجود کہ حقیقی مہاجرین کے اندر کے ایچ خورشید کی ساکھ قیوم خان کی نسبت کہیں زیادہ بہتر تھی۔ اس حق رائے دہی یا ان نشستوں کا یہ وہ سامراجی کردار ہے جس کے باعث اس خطے کے ترقی پسند سیاسی کارکنان طویل عرصے سے اس کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان نواز حکمران جماعتیں بھی اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان 12نشستوں کے خاتمے کے مطالبے کر چکی ہیں۔ عوامی حلقوں میں بھی اس اندھی لوٹ مار اور ان 12نشستوں کے حکومتیں بنانے اور توڑنے میں فیصلہ کن سامراجی کردار کے خلاف ایک شدید ردعمل ہے۔ یہی وہ امور بھی ہیں، جن کی وجہ سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی اس مطالبہ کو اپنایا اور ان کی مخالفت کررہی ہے ،جبکہ مہاجرین جموں کشمیرمقیم پاکستان کے نام نہاد نمائندے اور یہاں کی اشرافیہ اب اسی سامراجی ایما پران کا دفاع کر رہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں مہاجرین کی تعداد کو بھی خاصا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ دونوں وزرا نے خود کو 35 ،36 لاکھ مہاجرین کا نمائندہ بنا کر پیش کیاجو بہت زیادہ مبالغہ آمیز ہے۔ ہاں اگر نواز شریف،شہباز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق خان ،عبدالقیوم خان اور خان عبدالحمید خان جیسے مہاجرین کا شمار کیا جائے تو شاید یہ تعداد درست قرار پائے۔ 2021 کے انتخابات کے حوالے سے دستیاب ڈیٹا کے مطابق کل مہاجرین ووٹروں کی تعداد 432000 ہے۔ ان میں سے 30 ہزار کا تعلق وادی جبکہ باقی ماندہ کا جموں سے ہے۔ جب ماجد خان جیسے مہاجر تین نسلوں سے بدستور الیکشن لڑ رہے ہیں ،جبکہ ہر امیدوار کے کاغذات کو ہر انتخابی عمل کے دوران جانچ پڑتال کے عمل سے بھی گزرنا ہوتا ہے ،تو ایسے میں مہاجرین ووٹروں کا اندارج کتنی شفافیت سے ہوتا ہو گا ،یہ اپنی جگہ کا ایک سوال ہے۔ تمام ہیرا پھیری کے باوجود جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے 30000 ووٹروں پر 6 نمائندے ہیں ،یعنی ہر 5 ہزار ووٹر پر ایک نمائندہ ہے۔ مجموعی طور پر اوسطاً ہر 39000 مہاجر ووٹوں پر ایک نمائندہ ہے ،جب کہ اس خطہ کے اوسطاً 85000 ووٹوں پر ایک نمائندہ ہے۔ گزشتہ الیکشن میں کل ووٹروں کی تعداد 3250000 ہزار تھی۔ اس طرح مہاجر ووٹ تقریباً ساڑھے 12 فیصد بنتا ہے ،جبکہ ان کی نمائندگی کا تناسب تقریباً 27 فیصد بنتا ہے۔
وزرا نے اپنی پریس کانفرنس میں ایکشن کمیٹی کے مطالبے کو نفرت انگیز بیانیہ بھی قرار دیا۔ اب اگر اپنا غصب شدہ حق مانگنا یا حاصل کرنے کی جد و جہد کرنا نفرت ہے تو ایسی نفرت کے بغیر دنیا کا کون سا حق لیا جا سکتا ہے؟ عوامی حقوق تحریک کا حسن ہی غاصبوں سے نفرت اور مظلوم سے محبت ہے۔ اس کے باوجود کسی ایک مہاجر ممبر اسمبلی یا تمام ممبران کے ساتھ ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں۔ ہاں چونکہ ان لوگوں کی بلاجواز عیاشیوں پر حرف آ رہا ہے، اس لیے ان کی اس خطہ کی عوام سے نفرت کا جواز بھی ہے اور ضرورت بھی۔ نفرت کا بیانیہ یہ خود گھڑ رہے ہیں اور الزام ایکشن کمیٹی پر دھر رہے ہیں۔
حکومت سے الگ ہونے والے ہر فرد اور گروہ کا تازہ ترین خیال یہ ہے کہ اس تمام تر تحریک کا سبب فقط ایک فرد وزیراعظم انوار الحق ہیں۔ مہاجر وزرا نے بھی کچھ اسی طرح کے خیال کا اظہار کیا ہے۔ 8000 خالی آسامیوں کا ذکر کیا گیا۔ وزیراعظم پر ریڈ ٹیپنگ کا الزام عائد کیا گیا اور وغیرہ وغیرہ۔ اور تو اور تحریک کے پنپنے میں وزیراعظم کی ملی بھگت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مفاد عامہ کے تمام شعبے اپنے زوال کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ خاص کر تعلیم اور صحت کے شعبوں کی زبوں حالی اپنی مثال آپ ہے۔ پرائمری سطح کا سرکاری تعلیمی نظام تقریباً مٹ چکا ہے۔ جہاں کہیں کوئی پرائمری سکول تھا اس کی عمارت اب کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہی ہے۔ فرنیچر اور باتھ کی سہولیات سرے سے نا پید ہیں۔ ثانوی اور انٹرمیڈیٹ تعلیم کا نصف سے زائد حصہ غیر اعلانیہ طور پر پرائیوٹ سیکٹر کو منتقل ہو چکا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس قدر مہنگی ہو چکی ہے کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ اتنی مہنگی تعلیم کے حصول کے بعد بھی نوجوانوں کا مقدر یا تو معاشی جلا وطنی ہے یا پھر ذلت بھرا انتظار۔ سرکاری علاج سے بہرہ مند ہونے والے مریضوں کی شرح 30 فیصد ہے۔ یہ سہولت بھی زیادہ تر ڈاکٹر کے چیک اپ تک محدود ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں، اور اکثر وہ مریضوں کو ذاتی حیثیت میں ہی خریدنا پڑتی ہیں۔ 70 فیصد مریض پہلے ہی پرائیویٹ علاج معالجے پر منتقل ہو چکے ہیں ،جہاں پر کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی عدم موجودگی کے باعث ڈاکٹری اور میڈیسن سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔
کیا یہ سب کچھ محض ایک وزیراعظم کی دو ،ڈھائی سالہ کارکردگی کا نتیجہ ہے؟
گزشتہ 10، 15 سالوں سے نئی آسامیوں کی تخلیق پر تقریباًپابندی ہے۔ صرف انتہائی با اثر افراد کی سیاسی یا ذاتی ضروریات کے پیش نظر اکا دکا اسامی تخلیق کی جاتی رہی ہے۔ پی ایس سی کے فنکشنل نہ ہونے، تھرڈ پارٹی ریکروٹمنٹ کا عمل موثر اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے اور جوڈیشل ہائپر ایکٹوازم کی وجہ سے پہلے سے موجود آسامیوں پر ریکروٹمنٹ کا سلسلہ تقریباً 10 سال سے عملاً تعطل کا شکار ہے۔ یہ سب کچھ کسی فرد واحد کی پسند و نا پسند اور اہلیت یا نا اہلیت کا مسئلہ نہیں۔ یہ نیو لبرل اکانومی کے ان نسخوں کا نتیجہ ہے ،جن کو گزشتہ 30، 35 سالوں سے بتدریج لیکن مستعدی کے ساتھ لاگو کیا جا رہا ہے۔ ان پالیسیوں کے تحت صحت اور تعلیم کو پرائیویٹ شعبے کو منتقل کیا جانا مقصود ہے۔ ری سٹرکچرنگ کے نام پر مستقل ملازمتوں کا خاتمہ کرنا اور ان کی جگہ عارضی یا کنٹریکٹ ملازمت کو رائج کرنا ہے۔ پنشن اور ملازمین کو حاصل دیگر تمام سہولیات کا خاتمہ کرنا ہے۔
انہی پالیسیوں کے اطلاق کے دور میں جو نئی نسل جوان ہوئی ہے ،وہ جنریشن زی کے نام سے منسوب ہے۔ یہی وہ نسل ہے جو آج کل دنیا بھر میں اپنے اپنے حکمران طبقات سے نہ صرف ناراض ہے ،بلکہ اپنے غم و غصّے کا اظہار بھی کر رہی۔ حکمرانوں نے ان سے امید، خواب، مستقبل سب کچھ چھین لیا ہے۔ ان کے پاس ذلتوں، بے یقینی، عدم تحفظ کے علاوہ کھونے کو کچھ نہیں۔ دنیا کا سب سے بہادر اور خطرناک آدمی وہی ہوتا ہے جس کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو۔ جب اس طرح لوگ اجتماعی جدوجہد کے عمل میں داخل ہو جائیں تو پھر حکمرانوں کو تگنی کا ناچ ناچنا ہی پڑتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں نوجوان مروجہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف میدان میں کود رہے ہیں۔ یہ آج کے عہد کا ایک فیصلہ کن مظہر ہے نہ کہ کسی ایک یا دوسرے حکمران کی اہلیت یا نااہلی کا، نہ ہی عوام دوست تحریکیں کسی ایک یا دوسرے ملک کی سازش کا نتیجہ ہوتی ہیں ،جیسا کہ مہاجر وزرا ہمیں یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں تک نئے مطالبات شامل کرنے کا مسئلہ ہے ،یہ ہمارے جہاندیدہ سیاست دانوں کے لیے اچنبھے کی کوئی بات ہو گی۔ تحریکیں اپنے مو مینٹم ، طاقت ، وقت اور واقعات کی نزاکت کے پیش نظر اپنے مطالبات میں کمی بیشی کرتی رہتی ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ حالیہ عوامی حقوق تحریک اس خطہ کی سیاست اور معاشرت میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ یہ دیوہیکل واقعات کا ایک مجموعہ ہے۔ ایک ایسا مجموعہ جس کے لیے ناگزیر طور پر تاریخ دان ’قبل از تحریک‘ اور’ بعد از تحریک‘ جیسی اصطلاحات استعمال کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس تحریک نے ابھی کئی ایسے معرکے سر کرنے ہیں جن سے روایتی سیاست دان انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔
