عطا انصاری
اوسلو میں’’سزائے موت‘‘نامی ایک ناٹک نے خاصی دھوم مچارکھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جیون کہانی پر مبنی اس تھیٹر پلے میں فقط ایک ہی کردار ہے، یعنی بھٹو بذاتِ خود جوکہ ایک داستان گو کے انداز میں اپنی ہی داستان سُناتا ہے۔
’’سزائے موت‘‘ جہاں بھٹو کے کئی انسانی پہلوؤں کو اُجاگر کرتا ہے ،وہیں یہ تاریخی شواہد کے برعکس بھٹو کو اپنے چند سیاسی فیصلوں پر پشیمان ہوتا بھی دکھاتا ہے۔
ہمیں اس پورے پراجیکٹ میں کہانی نویس و ہدایتکار ٹونی عثمان کی بھٹو سے بے پناہ عقیدت و محبت نظر آتی ہے اور اُنکی تخلیقی صلاحیتوں کا گہرا ثبوت بھی ملتا ہے۔ نہایت ہی باریک بینی و مہارت سے بنایاگیا یہ ناٹک حقیقت پر مبنی پیش کی جانے والی کہانیوں کے لیے شرطِ صداقت کے سوال پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
مثلاً کیا بھٹوکی زبان سے وہ کچھ کہلوایا جاسکتا ہے کہ جس کے تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں؟
تاریخی شخصیات کی کہانی بیان کرنے والے تخلیق کار کو کس ضابطے اور حدود کا پابندرہنا چاہئے؟
تھیٹر ہال کا دروازہ کھلتے ہی پبلک کی نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑتی ہے جوکہ مدھم سی روشنی میں ایک باند سے بُنی اونچی سی پیڑھی پر بیٹھاہے۔ اُس شخص کا چہرہ تو واضع نظر نہیں آرہا مگر یہ ضرور دیکھا جاسکتا ہے کہ اُس شخص کے سر پر بال کم اور سفید ہیں۔ چہرے پر ایک اُداسی ہے اور شاید وہ اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کوئی آئے تو وہ اپنی داستان سنانا شروع کرے۔
اس شخص کے ارد گرد لوہے کی سلاخوں سے دائرہ بنا ہواہے۔ اس علامتی جنگلے کے عین باہر دائرے کی شکل میں ہی پبلک کے لیے کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ گویا یہ اسٹیج ایک دائرے کی شکل میں ہے اور پبلک چاروں طرف بیٹھ کر یہ منظر دیکھ رہی ہے۔ تجسس سے بھرے لوگ نہایت ہی ادب سے دائرہ بناتی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور اس شخص کو تکنے لگتے ہیں۔
ڈرامے کے پوسٹر اور پیشگی تشہیر سے ہم جانتے ہیں کہ سامنے نظر آنے والا شخص کوئی اور نہیں ذوالفقار علی بھٹو اپنے قید خانے میں بیٹھاہے۔ بیشتر لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ1977 میں جرنیل ضیاالحق نے جب بھٹو کا تختہ پلٹا تو بھٹو نے سر جھکانے سے انکار کردیا اور مارشل لاء کی بھر پور مذمت سے قطعی باز نہ آیا۔ بھٹو پر ایک سیاسی حریف کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور18 ماہ قید میں رکھنے کے بعد اُسے پھانسی دے کر جان سے ماردیا گیا۔ بھٹوکو بے شک ایک عدالت نے ہی سزا سنائی تھی مگر روزِ روشن کی طرح یہ بات عیاں کہ یہ سب کچھ فوج کے سربراہ اور مارشل لاء نافذ کرنے والے جرنیلوں کی سرپرستی میں ہورہا تھا۔
ہال میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ قید خانے کا منظر ہے اور سب منتظر ہیں کہ بھٹو کا پہلا جملہ کیا ہوگا۔ روشنی تیز ہونا شروع ہوتی ہے اور بھٹو دائرہ نما قید خانے کے بیچ میں آکر 70 کی دہائی میں معروفِ زمانہ پاپ گروپ بی جیز کے ایک ڈسکو گانے پر تھرکنا شروع کردیتا ہے۔
اُداسی اور قید خانے کے احساس کا توڑکر نے کے لیے یہ انداز چونکا دینے والا ضرور تھا مگر سود مند بھی۔ میوزک بند ہونے پر بھٹو پبلک سے مخاطب ہوکر اپنی کہانی سنانا شروع کرتا ہے تو لوگوں کی تمام تر سماعتیں بھٹو کی طرف مبذول ہوجاتی ہیں۔
سب سے پہلے بھٹو قید اور سزائے موت کی وجہ اور اسکا پس منظر بیان کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اب اُسکے پاس وقت کم ہے لہٰذا وہ اپنی کہانی لوگوں تک پہنچانے کے لیے بے تاب نظر آتاہے۔ وہ پبلک سے بالکل ایسے ہی مخاطب ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنی عوام سے بات کررہا ہے۔
بھٹو جیسی قدآور شخصیت کی داستان فقط ڈیڑھ گھنٹے میں صرف ایک ہی اداکار کی مدد سے بیان کرنا کسی کمال سے کم نہیں۔ گوکہ یہ تسلسل سے بیان کی گئی ایک داستان ہے مگر اسے سمجھنے کے لیے تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔
داستان کا پہلا حصہ تقسیم ہند سے قبل بھٹوکے بچپن اور نوجوانی کے دورسے شروع ہوکر بمبئی فلم انڈسٹری کی اداکارہ مدھوبالا کے عشق میں مبتلا ہونے کا حال بیان کرتا ہوا، انگریز راج کے خلاف تحریک آزادی کی نظریاتی طور پر حمایت کے ذکر پر ختم ہوتا ہے۔
دوسرے حصے میں تعلیم کے لیے امریکہ اور یورپ روانگی سمیت ویت نام جنگ میں امریکہ کی مخالفت،طلبہ سیاست میں حصہ لینے اور اپنے ملک پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے کی خواہش ،اور بھٹو کی جی ایم سیّد سے مایوس کن ملاقاتوں کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ یہاں یہ واضع ہوجاتا ہے کہ بھٹو کسی بھی صوبائی یا لسانی تعصب سے پاک ہے اور نہ ہی وہ جی ایم سیّد یا دوسرے سندھی لیڈروں کی طرح روایتی احترام کا قائل ہے۔
تیسرے حصے میں عملی سیاست اور اُن واقعات کا ذکر ہے کہ جن سے کم و بیش سب ہی پاکستانی واقف ہیں اور جنھیں ہم اپنے اپنے نظریاتی چشمے سے دیکھتے ہیں: پاکستان کے دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان کے کہنے پر بھٹو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جاتے ہیں۔ یہاں انڈیا اور پاکستان کی 1971 کی جنگ کا معاملہ زیر بحث تھا۔ اس بارے میں بھٹو یہ جملہ کہتے ہیں : ’’میرے ملک کو میری ضرورت تھی اسی لیے میں جرنیل یحییٰ خان کے کہنے پر اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے گیا تھا، نہ کہ کسی فوجی آمر کی‘‘۔اس سے قبل وہ جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ بھی رہے، اور پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کرنے والے صدر سکندر مرزا کی حکومت میں بھی تھے۔ سکندر مرزا کی کابینہ میں شامل ہونے کے سوال پر انہوں نےیہ جواز پیش کیا:’’کیا میں باہر کھڑے دیکھتا رہتا یا پھر کابینہ میں شامل ہوکر اندر سے کسی تبدیلی کے لیے کام کرتا؟‘‘سکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا کر ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا، مگر کابینہ نہیں بدلی۔جب بھٹو نے دیکھا کہ ملک تو بہتری کے بجائے غلط سمت میں جارہا ہے ،تو وہ ایوب کی مخالفت کے نتیجے میں قید اور سیاسی تشدد کا نشانہ بنے۔ اُسی دور میں پیپلز پارٹی کی بُنیاد بھی ڈالی۔ یہاں سے بھٹو ایک سوشلسٹ اور جمہوریت پسند لیڈر اور عوام کے ہمدرد کے طور پر سامنے آگئے۔
وہ اور ان کی جماعت 1970 کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور خانہ جنگی کے دوران انڈیا کی مداخلت پر بھٹو نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ مجیب الرحمن کی جماعت، عوامی لیگ ،جو کہ ا نتخابات جیت گئی تھی، اُسے حکومت نہ دینے کی ساری ذمہ داری بھٹو جنرل یحییٰ پر عائد کرتے ہوئے یہ اعزاز لیتے ہیں کہ انہوں نے انڈیا کے چنگل سے ہزاروں جنگی قیدی واپس لاکر پاکستان کی شکست کو جیت میں بدل ڈالا اور قوم میں ایک نیا مضبوط پاکستان بنانے کا جذبہ پیدا کیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعدبھٹو نے جنرل یحییٰ کو نظر بند اور مجیب الرحمان کو رہا کردیا، مگر اُنھیں یہ بات بالکل پسند نہ آئی کہ مجیب ڈھاکہ جانے سے پہلے انڈیا میں کیوں رکے۔
نئے پاکستان میں بھٹو حکومت نے تمام بڑی اور اہم ترین صنعتوں کو جبراً قومی ملکیت بنادیا۔ سرمایہ دار اُنکے خلاف ہوگئے مگر وہ عوام کی بھلائی کے سامنے کوئی سودے بازی کرنے پر تیار نہیں تھے۔ 1973 میں بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک نے زور پکڑ لیا تو بھٹو نے فوجی آپریشن کا حکم دے دیا۔ بھٹو اپنے اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے فوج کو عوام کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کا بدترین آپریشن تھا جس میں تین سے پانچ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ اُسی سال بھٹو کی قیادت میں پہلا جمہوری آئین بنا۔ بھٹو نیا پاکستان بنانے میں مصروف تھے مگر کوئی نہ کوئی نئی آفت اُن کے سامنے آن کھڑی ہوتی۔ اُن ہی کے دور میں احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بھٹو اس معاملے کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی غلطی پر ندامت کا اظہار کرتے ہیں ،جوکہ انہوں نے حقیقی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ آخر میں وہ ضیا مارشل لاء کا پس منظر یعنی اپنی ہی حکومت کے خلاف مظاہروں اور ہڑتالوں کا ذکربھی کرتے ہیں۔
پھانسی سے پہلے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے ااپنی آخری ملاقات کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں اُن دونوں کو گلے بھی نہ لگا سکا۔ قید خانے کی سلاخیں اُنکے درمیان حائل رہیں۔
ٹونی عثمان ناٹک کے مناظر کو پراثر بنانے کے لیے موسیقی، گائیکی، رقص اور ملٹی میڈیا کا بہ خوبی استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے ناظرین کو بھٹو کی زندگی کے مختلف ادوار، مقامات اور ماحول میں لے جاتے ہیں۔ پروجیکٹر کی مدد سے دکھائی جانی والی تاریخی تصاویر، معلوماتی عبارات اور پرانے ویڈیو کلپ بھی بھٹو کی داستان کو حقیقت کا احساس بخشتے ہیں، اوربھٹو ایک من گھڑت کہانی نہیں بلکہ وہ ہمیں اپنے دور کا ہمارے ہی درمیان رہنے والا فرد محسوس ہوتا ہے۔
کیا یہ کہانی سو فیصد سچ پر ہی مبنی ہے؟ ناٹک کے پوسٹر کے مطابق بھٹو کی یہ کہانی سچ اور لوگوں کی سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ یعنی ٹونی عثمان سچ کا وعدہ ہی نہیں کرتے بلکہ ڈرامہ دیکھنے والے کوکھلی دعوت دے رہیں کہ سچ کیا ہے خود ہی تلاش کرو البتہ یہ میری کہانی ہے یہ میرا بھٹو ہے۔
یہ ڈرامہ نارویجن زبان میں ہے اور بھٹو کا کردار بھی ایک باصلاحیت نارویجن اداکار ہی نبھا رہے ہیں۔ اُنھوں نے جگہ جگہ یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی کردار نبھانے کے لیے اداکار کا رنگ و نسل کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ٹھیک اُسی طرح کہ جیسے کرسٹوفر لی نے فلم’’ جناح‘‘ میں محمد علی جناح کا کردارادا کرکے اپنی اداکاری سے یہ ثابت کردیا تھا کہ ایک فن اور فنکار رنگ و نسل کی حدود سے آزاد ہوسکتا ہے۔ جیسے فلم میں پیش کیا جانے والا’’ جناح‘‘ پروفیسر ایس احمد اکبر اور ہدایتکار جمیل دھلوی کی تخلیق ہے بالکل ویسے ہی’’سزائے موت‘‘کا بھٹو بھی ٹونی عثمان کا تخلیق کردہ ایک کردار ہے۔
بھٹو کا کردار ادا کرنے والے Torgny Gerhard Aanderaa ڈیڑھ گھنٹے تک پبلک کی توجہ کا محوربنے رہتے ہیں۔ وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ خاص طور سے تب کرتے نظر آتے ہیں جب وہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی آخری ملاقات کا منظر پیش کرتے ہوئے ایوب اور بھٹو کے درمیان ہوئے زلزلہ خیز مکالمے کو زندہ کردیتے ہیں۔ اِسی طرح وہ عروج کو تب بھی چھوتے ہیں کہ جب امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر بھٹو سے ملاقات کے دوران پاکستانی ایٹمی پروگرام فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بھٹو کے انکار پرکسنجر بھٹو کو عبرت کا نشان بنادینے کی دھمکی دیتے ہیں مگر بھٹو جھکنے کے بجائے کسنجر کو بڑے ادب سے خالی ہاتھ روانہ کردیتے ہیں۔ یہاں بھی Aanderaa دو پہاڑوں کے ٹکراؤ کی بخوبی منظر کشی کرتے ہیں۔
’’سزائے موت‘‘کے نوجوان سیٹ ڈیزائنر Milton Mondal بہت تیزی سے ناروے میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔ وہ تھیٹر میں بھاری بھرکم سیٹ بنانے کے بجائے سادے اور علامتی ڈیزائن پر یقین رکھتے ہیں۔’’سزائے موت‘‘میں بھٹو بیٹھے تو قید میں ہیں مگر داستان گزری زندگی کی سنُارہے ہیں۔ ان دونوں ہی صورتوں کواُجاگر کرنے کے لیے جنگلا اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ یہ آسانی سے ہٹ بھی جائے اور واپس لگ بھی جائے۔
جب پھانسی کا وقت قریب آتا ہے تو یہی جنگلا چاروں طرف سے بند کردیا جاتا ہے اور سپاہی کی آواز بھٹو کو مطلع کرتی ہے کہ اب پھانسی گھاٹ کی جانب جانے کا وقت آگیا ہے۔ بھٹو بلا جھجک اجرک اوڑھ کر دھمال شروع کردیتا ہے اور روشنی مدھم ہوتے ہوتے مکمل اندھیرا چھاجاتاہے۔
بھٹو کو پھانسی دینے کا عمل اور عدالتی کاروائی کسی بھی اُصول کے تحت جائز ثابت نہیں کی جاسکتی۔ خوش آئند بات یہ کہ وقت کے ساتھ ایسی تمام تر کوششیں اور ضیا کا تیار کردہ بیانیہ اب دم توڑ چکا ہے۔ اب ہمیں بھٹو کو ضیا کے چنگل سے نکال کر کے اس کے سیاسی فیصلوں پر بات کرنے کی منزل تک پہنچنے کا سفر شروع کرنا ہوگا۔ بھٹو کے فیصلوں پر تنقید جمہوریت سے نفرت یا کسی فوجی آمر کی حمایت نہیں بلکہ تاریخ کا جائزہ لینے کی ایک ایسی روایت ہے کہ جس میں ہر سیاستدان انسان ہی رہتا اور اپنی خامیوں اور خوبیوں سمیت تجزیوں کا سامناکرتا ہے۔ ٹونی عثمان کا تخلیق کا کردہ ڈرامہ اس بابت ایک بہت اچھی کوشش ہے۔
رہا یہ سوال کہ کیا بھٹو حقیقت میں کبھی بلوچستان میں فوج کشی پر نادم ہوئے یاانہیں احمدیوں کو کافر قرار دینے کے عمل پر کبھی افسوس ہوا؟ کیا اُنہیں انڈیا اور بنگلہ دیش میں محسور بہاریوں کو پاکستان لانے کیلئے اور محنت کرنی چاہیے تھی؟ اور کیا بھٹوکو 1971کا الیکشن جیتنے والے بنگالی رہنما مجیب الرحمن کے حق حکومت کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے مجیب الرحمن کو ملک کا وزیر اعظم تسلیم کرنے کا اعلان کرنا چاہیے تھا؟
یہ سب اور ایسے بہت سارے سوال زیر بحث لانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام سوالوں اور واقعات کو ہم آج کے دور کا چشمہ پہن کر اور اس وقت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ٹونی عثمان کا قلم دونوں ہی چشمے استعمال کرتا ہے۔ انھیں پورا حق ہے کہ وہ بھٹو کے کردار کو جیسے چاہیں تراشیں اور پیش کریں کیونکہ وہ ایک تاریخ دان، صحافی یا سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ ایک تخلیق کار داستان گو ہیں۔ داستانیں ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں محظوظ کرنے کے ساتھ سوچنے پر آمادہ کرتی ہیں، سچ کی تلاش، حالات و واقعات کو سمجھنے کی جستجو کو جنم دیتی ہیں۔ اظہار رائے اور تبادلہ خیال کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ تھیٹر کی دنیا میں فکشن اور نان فکشن کے امتزاج سے کہانیاں پیش کرنے کی روایت صدیوں پُرانی ہے۔ اس روایت سے کبھی سچ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اس سے ادب کی نفی ہوئی۔
داستان گوئی کا یہ سلسلہ جاری رہے اور کیا ہی اچھا ہو ایک دن محمد علی جناح بھی کسی اسٹیج پر اُترآئیں اور اپنی داستان خود ہی بیان کریں کہ میں بھی اپنے وقت کا بچہ ہوں، میں بھی خامیوں اور خوبیوں کا امتزاج، ایک انسان ہی تو ہوں۔





