ظفراللہ
عالمی سیاسی بندوبست اس وقت گہرے بحران کا شکار ہے۔ غزہ میں اسرائیلی نسل پرست ریاست کی بربریت کا ننگا ناچ امریکی صدر ٹرمپ کی دھونس سے کم از کم وقتی طور پر انجام پذیر ہو رہا ہے۔ غزہ کو نئی انتظامیہ کے سپرد کرنے کا عمل جاری ہے۔ جس میں ٹرمپ کی مرضی کے افراد شامل ہوں گے۔ یہ سامراجیوں کی مرضی اور منشا کا امن معاہدہ ہے جس میں فلسطینی عوام، جو اس جنگ میں برباد ہو چکے ہیں، کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ لیکن یہ عمل بھی تضادات سے لبریز ہے۔ حماس اتنی آسانی سے ہار ماننے والی نہیں۔ شاید سامراجی بھی اس کا مکمل خاتمہ نہیں چاہتے۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام ریاستیں غزہ میں نسل کشی کی اسرائیلی جنگ کی وجہ سے لڑکھڑ جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ اس عمل میں ایران اسرئیل کی ایک محدود جنگ بھی ہو چکی ہے۔ مصر، اردن، سعودی عرب اور ترکی کے ایوانوں میں گھنٹیاں بج رہی ہیں کہ کہیں یہ بحران ان ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ اسرائیل نے بہرحال امریکی پشت پناہی سے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔
اسی طرح جنوب ایشیا کی کئی ریاستیں عوامی تحریکوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش اورسری لنکا کے بعد نیپال میں نوجوانوں کی بغاوت نے اقتدار پہ براجمان پارٹیوں کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔ فوری طور پر ان تحریکوں کا سبب بننے والے محرکات بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں مگر یہ سطح کے نیچے پلنے والے وہ تضادات اور بحرانات ہیں جو پوری دنیا میں نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہیں۔ جس کے خلاف عوام ایک کے بعد دوسرے ملک میں بغاوت کے راستوں پہ گامزن ہیں۔ تاریخی طور پر یہ تمام انقلابی تحریکوں کی ابتدائی شکلوں کا عمومی خاکہ ہے۔ یہ سرمایہ داری کے اس متروک نیو لبرل آرڈر جو اپنی موت آپ مر رہا ہے کا لازمی نتیجہ ہے جس نے دنیا بھر کے عوام کو بھوک، بیروزگاری، غربت اور محرومی سے دو چار کیا ہوا ہے۔ محنت کش طبقات میں ایک گہرا اور شدید اضطراب اور بے چینی ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں دھماکہ خیز شکل میں اظہار کر رہے ہیں۔ جنوب ایشیا کی ان ریاستوں میں آنے والے طوفانوں کے اثرات خطے کے دوسرے ممالک میں بھی مختلف شکلوں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی ریاست بھی اس وقت گہرے بحران سے دوچار ہے۔ اندرونی طور پر بلوچستان، پختونخوا اور سندھ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں جہاں قومی حقوق اور معاشی مسائل کے حل کی تحریکیں چل رہی ہیں وہاں پاکستان بیرونی طور پر بھی جنگی کیفیت سے دوچار ہے۔ انڈیا کے ساتھ چار ماہ قبل ایک محدود لیکن سنجیدہ نوعیت کی جنگ ہو چکی ہے۔ جو امریکی مداخلت سے ختم کی گئی۔ امریکی مداخلت دونوں ممالک کیلئے ایک رحمت تھی۔ دونوں ممالک اپنی کمزور معاشی اور سماجی کیفیت کے اعتبارسے اس سے زیادہ وقت کی جنگ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے تھے۔ پہلے سے بحران زدہ معاشروں میں جنگ ان تضادات کو بھڑکانے کا موجب بن سکتی ہے جہاں حالات حکمرانوں کے کنٹرول سے باہر ہونے کے امکانات بن سکتے ہیں۔
لیکن جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر شدید حملے کیے گئے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ پاکستان نے کابل سمیت افغانستان کے کئی شہروں میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی ہے۔ جس کے بدلے میں افغانستان نے پورے پاکستانی بارڈر پر حملے کیے ہیں اور جنگی کیفیت بن گئی ہے۔ ایک دوسرے کی چیک پوسٹوں کو اڑانے اور ان پر قبضے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اس جنگ میں 23 سے زائد پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ افغانستان میں ہلاکتیں اس سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ یہ کافی عرصے سے چلی آ رہی مخاصمت کا حتمی نتیجہ ہے۔ پاکستانی ریاست پاکستان میں کئی برسوں سے جاری دہشت گردانہ حملوں (جن میں حالیہ عرصے میں شدت آ گئی ہے) کا ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کو قرار دیتی ہے اور اس کے سرکردہ افراد کی حوالگی کا افغانستان سے مطالبہ کرتی ہے۔ افغانستان سے ہونے والی اس دہشت گردی کو رکوانے کے لئے افغان طالبان پر کافی دباؤ ڈالا گیا ہے۔ تاہم افغان طالبان لیت و لعل کیساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے۔ یا پھر یہ کہ ٹی ٹی پی ان کے کنٹرول اور نظم و ضبط سے باہر ہے۔
یہ درست ہے کہ افغان طالبان کی حکومت ایک جدید قومی ریاست کی بجائے مختلف بنیاد پرست جنگجو دھڑوں اور گروہوں کے مجموعے پر مبنی ہے۔ ایسے میں افغانستان کے اندر مختلف عسکری تنظیمیں آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں جس میں سے ٹی ٹی پی ایک ہے اور افغان طالبان اپنے داخلی تضادات، تاریخی طرز عمل اور ان تنظیموں کیساتھ ماضی کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے انہیں مکمل کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ پہلے ہی وہ داعش خراسان کیساتھ برسرپیکار ہیں۔ پاکستانی مطالبے پر ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کر کے وہ نئے مسائل مول نہیں لے سکتے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ عمل ان کے اپنے اندر پھوٹ کو جنم دے سکتا ہے یا زیادہ گہرا کر سکتا ہے۔ طالبان کی موجودہ حکومت میں مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات پہلے ہی منظر عام پہ آ چکے ہیں۔ یہ لڑائی قندھاری گروپ کے موجودہ امیرالمومنین ہیبت اللہ اخوندزادہ جیسے سخت گیر مذہب پسندوں، ڈپٹی وزیر اعظم ملا برادر اور طاقتور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی جیسے ”پریکٹیکل“ رجحانات (جو خواتین کی تعلیم اور کام کرنے کے حق میں ہیں) کے درمیان شدت اختیار کر چکی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر پہلے ہی نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزی‘ ملا ہیبت اللہ کے خلاف بیان دے کر ملک چھوڑ چکا ہے۔ اس پس منظر میں ٹی ٹی پی کیخلاف پاکستانی مطالبے پر کاروائی کر کے افغان طالبان مزید مسائل پیدا کرنے سے گریزاں ہیں۔ ویسے بھی آخر کار یہ سب ایک ہی نظرئیے کے حامل گروہ ہیں۔ ان کے آپسی اختلافات جو بھی سہی لیکن پاکستان ان کی نظر میں ایک غیر شرعی ریاست اور معاشرہ ہے۔
علاوہ ازیں افغان طالبان اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر اس طرح انحصار نہیں کرنا چاہ رہے جیسے وہ پاکستانی پراکسی گروہ کے طور پر ماضی میں کیا کرتے تھے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اب ان کے پاس ایک ریاست کے ساتھ ساتھ امریکہ کا چھوڑا ہوا بے تحاشہ جدید اسلحہ بھی ہے۔ چین اور انڈیا جیسے خطے کے دوسرے کھلاڑیوں سے روابط بنانے کے امکانات بھی ہیں اور انہیں اس پس منظر میں اپنی جیوگرافک پوزیشن کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ یوں وہ اپنی بہتر قیمت لگوانے کی پوزیشن میں ہیں۔
پاکستان سے ان کی ناراضی اور گلے شکوے بھی ہیں۔ پاکستان سے افغان عوام کا انخلا اس کا بڑا سبب بنا ہے جس نے افغان حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان نے بھی یہ بے دخلیاں اسی تناظر میں کی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ طالبان حکومت کا پاکستانی مطالبے پر ٹی ٹی پی کیخلاف کاروائی نہ کرنا تھا۔
ادھر پاکستانی حکمرانوں اور فوج پر ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں سویلین آبادی، پولیس اور فوج کے جوانوں کی لاتعداد ہلاکتوں کا شدید دباؤ بھی ہے۔ حالیہ پاک افغان جھڑپیں اور حملے انہی واقعات کا تسلسل ہیں۔
اندرونی طور پر بھی پاکستانی ریاست ایک گہرے بحران کا شکار ہے۔ ایک ایسا بحران جو ناقابل حل ہے۔ تحریک لبیک جیسے فرینکسٹائن مونسٹرز اب ریاست کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک وقت میں مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے یہ ریاست کے اپنے ہی پیدا کردہ درندے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح طالبان کو تخلیق کیا گیا تھا۔ مگر اس عمل میں یہ گروہ داخلی طور پر با اختیار، طاقتور اور خود ریاست کے لئے درد سر بن جاتے ہیں۔ ریاست کے اندر بھی ان کے ہمدرد پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کا خاتمہ ایک مشکل عمل بن جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک جدید ریاست کی تشکیل میں مکمل ناکامی کا لازمی نتیجہ ہے کہ پراکسیوں، جتھوں اور مافیاز کے ذریعے ملک کے داخلی اور خارجی معاملات چلائے جائیں۔ بجائے ریاستی اداروں کو استوار کرنے کے۔
فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لئے تحریک لبیک پاکستان کے جلوس، جس کا رخ اسلام آباد کی طرف اور ارادہ امریکی سفارتخانے کے آگے دھرنے کا تھا، کو ریاستی طاقت سے منتشر کر دیا گیا۔ جس میں دونوں اطراف سے کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس سے قبل جنرل عاصم منیر کی جانب سے پاکستان کو ایک ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی بات صاف صاف کہی جا چکی ہے۔ دراصل فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد پچھلے عرصے کے ان سارے پراجیکٹوں کو رول بیک کرنا پڑ رہا ہے جو ریاست کے لئے مسئلہ بن چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایک وقت میں یہی پراکسیاں اسی ن لیگ کی حکومت کیخلاف استعمال کی گئی تھیں اور اب اسی ن لیگ کی حکومت میں انہیں ختم کرایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ عمل اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے۔ اس بحران زدہ معاشرے میں ایسے رجحانات کسی اور شکل میں دوبارہ ابھر آتے ہیں۔
یہ کسی ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان میں ترقی یافتہ معیشت اور صحتمند جمہوری سیاسی عمل نہ پنپ سکنے کے نتیجے میں فوج کا ناگزیر طور پر مبالغہ آرائی کی حد تک وسیع کردار بن چکا ہے۔ جو ایک بار پھر تاخیر زدہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہے۔ ریاست کو سرمایہ دارانہ سیاسی اشرافیہ اور بورژوا جمہوری حکمرانی کے ماتحت کرنے کے لئے ضروری بورژوا انقلاب کا نہ ہو سکنا اس سارے مسئلے کی بنیادی جڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست (فوج) کو بار بار تحریک انصاف اور مسلم لیگوں وغیرہ جیسی سیاسی فارمیشنیں بناتے رہنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی، تحریک لبیک وغیرہ جیسے بنیاد پرست‘فسطائی جتھے بھی اس نظام کی ضرورت ہیں۔
بہت ہی چالاکی سے ٹی ٹی پی والا سارا مسئلہ تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ افغانستان کیساتھ موجودہ جھڑپوں پہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ٹی ٹی پی پہ کم اور تحریک انصاف پہ زیادہ بات کی ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی پاکستانی طالبان کے ساتھ کافی ہمدردی اور گٹھ جوڑ ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے فوراً بعد طالبان کے قبضہ کرتے ہی کابل کا پہلا دورہ اس وقت آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل فیض حمید نے کیا تھا۔ جہاں موصوف کی چائے پیتے ہوئے مشہور تصویر موجود ہے۔ فیض حمید اور تحریک انصاف کے دور میں ہی پاکستانی طالبان کو واپس آباد کیا گیا تھا۔ لیکن یہ سب اس وقت کی فوجی قیادت کی مرضی بلکہ خواہش پہ کیا گیا تھا۔ اب فوج بطور ادارہ کیسے ان اقدامات سے پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ اپنی مقبولیت کے پیش نظر تحریک انصاف موجودہ سول و ملٹری سیٹ اپ کے لئے ایک چیلنج ہے۔ پچھلے عرصے میں تحریک انصاف نے تنظیمی و سیاسی نقصانات یقینا اٹھائے ہیں۔ پختوانخوا میں اس کی حکومت کی گورننس کے حوالے سے بھی بحث جنم لے رہی ہے۔ لیکن اس کے سحر کا مکمل توڑ نہیں ہو سکا ہے۔ اب عمران خان نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، جس کا تاثر کسی حد تک مفاہمتی اور ریاست کی نظر میں قابل قبول ہونے کا تھا، کو ہٹا کر فاٹا سے ایک ہارڈ لائینر مگر ناتجربہ کار نوجوان سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ہے۔ جو فوجی قیادت کیساتھ آنے والے دنوں میں مزید گہرے ٹکراؤ کے امکانات کو واضح کرتا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر سے بھی علی امین گنڈاپور کے حوالے سے تحفظات موجود تھے اور پارٹی میں اس کے خلاف کافی دباؤ تھا۔ نئے منتخب وزیر اعلیٰ نے منتخب ہوتے ہی ایوان میں اپنی تقریر میں صوبے میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت اور افغان پالیسی کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے۔ فوجی قیادت کے لئے اس کوڈیل کرنا ایک بڑا چیلنج نظر آتا ہے۔ آنے والے دنوں میں معاملات مزید واضح ہوں گے کہ پختونخوا اسمبلی کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔ اگر تناؤ بڑھتا ہے تو گورنر راج کا نفاذ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔
اس وقت مملکت کا سارا انتظام فوج چلا رہی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی اور معاشی معاملات کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے کر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ جدید ریاست بغیر مستحکم اور ترقی یافتہ اداروں کے نہیں چل سکتی۔ وگرنہ اب تک ہر طرف بادشاہتیں چل رہی ہوتیں۔ جدید بورژوا ریاست سماجی انقلابات کے ایک مسلسل عمل کی پیداوار ہے۔ لیکن مخصوص تاریخی وجوہات کے تحت پاکستان ایک جدید سرمایہ دارانہ ریاست نہیں بن سکا۔ نہ اب وہ عہد ہے جس میں قومی جمہوری انقلابات کے ذریعے پاکستان یا کہیں بھی ایک جدید ریاست کی شکل بن سکے۔ اس کے برعکس پاکستان اس وقت مختلف قومی آزادی اور خود مختاری کی تحریکوں کی زد میں ہے۔ بلوچستان، فاٹا، کسی حد تک سندھ اور پاکستانی زیر انتظام جمو ں و کشمیر اور گلگت بلتستان وغیرہ میں چلنے والی تحریکیں اس کی مثال ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں چلنے والے معاشی نظام کا نامیاتی بحران ہے جو آبادی کے ایک بڑے حصے کو معاشی دھارے میں لانے اور ہموار ترقی دینے سے قاصرہے۔ ایسے میں مختلف قومی اکائیاں قومی آزادی کی تحریکوں کا رخ کرتی ہیں۔ ان قوموں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور انہیں مسلسل محروم رکھنے کے ریاستی عمل سے آج پاکستان ایک فیڈریشن کے طور پر عملاً ناکام ہو چکا ہے۔ درد لادوا ہو چکا ہے۔ ایک نئی سیاسی، معاشی و جغرافیائی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔ ویسے بھی یہ اپنے جنم سے ہی ایک غیر فطری سیاسی فیڈریشن تھی۔ جہاں مختلف قوموں کو جبر اور دہشت کے ذریعے مصنوعی طور پر جوڑا گیا تھا۔
اس وقت معیشت سے لے کر سیاحت اور خارجہ پالیسی سے لے کر داخلی انتظامی امور تک‘ فوجی کنٹرول میں ہیں۔ یہ اس نظام کی ضرورت بھی ہے اور اس عمل سے بیش بہا مالیاتی مفادات بھی وابستہ ہیں۔ مختلف گروہ اور افراد اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ انتہائی مالدار اشرافیہ کی ایک قلیل پرت پیدا ہو رہی ہے یا پھل پھول رہی ہے۔ جبکہ عوام کی ایک بڑی تعداد برباد ہو رہی ہے۔ لوگ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ جرائم معمول بن چکے ہیں (جنہیں سی سی ڈی جیسے مصنوعی طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے)۔ سماجی تانا بانا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ شہباز شریف جیسا دکھاوے کا وزیر اعظم اس بات پہ خوش ہے کہ اس کو ٹرمپ بہت لفٹ کروا رہا ہے اور اپنے پہلو میں بٹھایا ہوا ہے۔ دوسری جانب حالیہ پاک بھارت جھڑپ میں بہتر پوزیشن اور پھر پاک سعودی دفاعی معاہدے سے پاکستانی حکمران خود کو عالمی کھلاڑی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب کیساتھ پاکستان کی دفاعی انڈرسٹینڈنگ کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ جس کے بدلے میں وہ ان کو تیل کی موخر ادائیگیوں اور فارن ایکسچینج ادائیگیوں کے توازن کے لئے ڈالروں کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔ لیکن قطر میں حماس کے رہنماؤں کے قتل کے لئے حالیہ اسرائیلی حملے نے سعودیوں کو خوفزدہ اور خبردار کر دیا ہے۔ یمن سعودی تنازعے اور جنگ میں بھی اس معاہدے کا پس منظر ملتا ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ ایک نمائشی قسم کا معاہدہ ہے۔ امکان یہ بھی ہے کہ اسے ٹرمپ کی پشت پناہی حاصل ہو۔ لیکن جنگیں‘ بالخصوص بڑی جنگیں صرف پیسے اور اسلحے کے زور پر نہیں لڑی جاتیں۔ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب اس معاہدے کی بدولت امریکہ یا کسی بڑی طاقت سے لڑ جائیں۔ اس عہد میں جنگیں عالمی اثر و رسوخ، بین الاقوامی سفارت کاری، طاقت اور بے پناہ مالیاتی اور عسکری طاقت کی بدولت لڑی جاتی ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے اور نسبتاً بڑی اور جدید افواج رکھنے کی وجہ سے اس معاہدے کی حیثیت سعودیوں کے لئے ڈیٹرنس اور پاکستان کے لئے سعودی مالی امداد تک محدود ہو گی۔ امریکی مصنف باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب میں بھی یہ تذکرہ کیا ہے کہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے امریکیوں کو پاکستان سے ایٹمی چھتری لینے کا اشارہ دیا ہے۔
مگر ہر کسی کو اپنی صلیب خود اٹھانی پڑتی ہے۔ پاکستان جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے وہ ایسے ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کا طویل عرصے تک کے جمود کا تناظر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق گروتھ ریٹ اگلے کئی سالوں تک محض دو سے تین فیصد تک رہنے کے امکانات ہیں۔ اس گروتھ ریٹ پہ 25 کروڑ عوام کی زندگی بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہی ہو گی۔ پاکستان کی معیشت کو لمبے عرصے تک پانچ تا سات فیصد کی گروتھ مسلسل چاہئے۔ تب کہیں جا کر حالات میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ یا کم از کم موجودہ کیفیت ہی برقرار رہ سکتی ہے۔ لیکن پاکستان ایک درآمدی معیشت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ڈالروں کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ سعودی عرب یہ شگاف بھر نہیں سکتا۔ چاہے جتنا بھی مہربان ہو جائے۔ یہاں کے پالیسی ساز جگاڑ کے ذریعے ہی کچھ معاشی استحکام لاتے ہیں۔ جس کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام معیشت کو اور معاشی عدم استحکام سیاست کو اتھل پتھل کر کے واپس پرانی پوزیشن پہ لا کھڑا کرتا ہے اور وہی سائیکل پھر سے چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس ملک کے معاشی مسائل لمبے عرصے کی ٹھوس منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ جس میں معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے اور پیداوار سے ترسیل اور کھپت تک منصوبہ بندی کے ذریعے معیشت کو چند سرمایہ داروں کی بجائے وسیع تر عوام کے مفادات کے مطابق چلایا جائے۔ عہد حاضر میں ایسا سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
