الیکس کالینیکوس
امریکی سامراج نے طویل عرصے سے لاطینی امریکہ کو نظر انداز کیا تھا، لیکن ٹرمپ فوجی مداخلت کی نئی خواہشات کے ذریعے اس خطے میں امریکی مفادات کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سطح پر خود کو’امن کے پیامبر‘کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔تاہم لاطینی امریکہ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس دکھائی دیتی ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں امریکہ کے سب سے بڑے طیارہ بردار جہاز ’یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ‘ کو وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو کے خلاف بڑھتی ہوئی فوجی تیاریوں میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے۔
امریکہ کے پاس پہلے ہی اس خطے میں 10 ہزار فوجی، 8جنگی جہاز، ایک جوہری آبدوز اور ایف35 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ دیوہیکل بی52 بمبار طیارے وینزویلا کے ساحل کے قریب پرواز کر چکے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسی پالیسی اپنا رہی ہے جس کا مقصد امریکہ کی عالمی وابستگیوں کو کم کرکے ’وطن‘کی حفاظت پر توجہ دینا اور مغربی نصف کرے پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ یہ رجحان ٹرمپ کی ان کوششوں میں بھی جھلکتا ہے جن میں وہ گرین لینڈ خریدنے اور پانامہ و کینیڈا پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کر چکے ہیں۔
20ویں صدی کے اوائل میں امریکہ نے وسطی اور جنوبی امریکہ میں برطانیہ کی جگہ بطور غالب سامراجی طاقت لے لی تھی۔ 1945 کے بعد سی آئی اے نے لاطینی امریکہ میں سرگرم کردار ادا کیا، جہاں اس نے بائیں بازو کی حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوتوں کی حمایت کی ، مثلاً 1954 میں گوئٹے مالا، 1964 میں برازیل، اور 1973 میں چلی کی فوجی بغاوتیں۔امریکہ نے گوئٹے مالا، ایل سلواڈور اور کولمبیا میں خونریز انسدادبغاوت کی جنگوں کو بھی مالی و عسکری مدد فراہم کی۔
تاہم فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹر برائے لاطینی امریکہ مائیکل اسٹاٹ لکھتے ہیں کہ ’’کلنٹن کے بعد تقریباً ہر امریکی صدر نے لاطینی امریکہ کو نظر انداز کیا ہے، جس کے سنگین معاشی اور عسکری نتائج سامنے آئے ہیں۔چین نے اس خلا کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔’امریکہ فرسٹ‘ایجنڈا اس خطے پر دوبارہ توجہ کا تقاضا کرتا ہے، جو امریکہ کے دو بڑے داخلی مسائل ، یعنی بڑے پیمانے پر ہجرت اور منشیات کی غیر قانونی تجارت کی بنیادی وجہ ہے۔ تقریباً 80 لاکھ مہاجرین کے منبع کے طور پر وینزویلا ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔‘‘
صدر ہیوگو شاویز کے دور میں وینزویلا 2000 کی دہائی میں عالمی بائیں بازو کے لیے امید کی کرن بن گیا تھا۔ شاویز نے امریکی سامراج کو للکارا اور عوامی حمایت سے بغاوت کی کوشش ناکام بنائی۔تاہم 2013 میں شاویز کی وفات سے پہلے ہی ان کے جانشین مادورو کے گرد ایک بدعنوان بیوروکریٹک نظام تشکیل پانے لگا تھا۔
وینزویلا طویل عرصے سے امریکی ری پبلکن دائیں بازو کے نشانے پر رہا ہے۔ اب واشنگٹن نے مادورو کو اس جھوٹے الزام پر نشانہ بنایا ہے کہ وینزویلا امریکہ کو منشیات فراہم کر رہا ہے۔پینٹاگون اب تک مبینہ منشیات فروش کشتیوں پر کم از کم 10حملے کر چکا ہے ،جن میں 43 افراد مارے گئے ہیں۔
جب گزشتہ ہفتے ٹرمپ سے ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ایک لرزہ خیز جواب دیا کہ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں جنگ کے اعلان کی ضرورت ہے۔ ہم بس لوگوں کو مارنے جا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ ہم انہیں مار دیں گے۔ وہ، مطلب، مر جائیں گے۔‘‘
وہ اس سلسلے میں سابق صدر باراک اوباما کی مثال دے سکتے ہیں، جنہوں نے 2009 سے 2017 کے دوران 542 ڈرون حملے کیے ۔ ان حملوں میں اندازاً 3ہزار797 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 324 عام شہری شامل تھے۔ اوباما نے 2011 میں اپنے مشیروں سے فخر سے کہا تھاکہ ’’لگتا ہے میں لوگوں کو مارنے میں واقعی بہت اچھا ہوں۔‘‘
ٹرمپ کو ابھی اوباما تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہے، لیکن وہ صرف وینزویلائی افراد کو قتل کرنے کی بجائے ان کی حکومت کو بھی گرانا چاہتے ہیں۔اگرچہ انہوں نے جو فوجی طاقت اکٹھی کی ہے وہ قابل ذکر ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ کسی بڑے لاطینی امریکی ملک پر مکمل حملے کے لیے ناکافی ہے ، جس کے لیے50ہزارسے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔
تاہم نیو یارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ نے سی آئی اے کو’’وینزویلا میں مہلک کارروائیاں کرنے‘‘کی اجازت دینے والا ایک صدارتی حکم جاری کیا ہے۔
سی آئی اے کے پاس’’غلیظ حربوں‘‘کا بڑا ذخیرہ ہے ، اور اسرائیل دشمن رہنماؤں کے قتل کے بارے میں اسے کئی حربے سکھا سکتا ہے۔دائیں بازو کی وینزویلائی رہنما ماریہ کورینا ماچاڈو کو دیا جانے والا نوبیل امن انعام دراصل یورپی حکمران طبقات کی ممکنہ فوجی بغاوت کی حمایت کا اشارہ ہے۔
سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے ارجنٹینا کی ورکرز پارٹی کی جانب سے تیار کردہ وینزویلا پر ایک بین الاقوامی اعلامیے پر دستخط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ’’ہم سامراجی مداخلت اور حکومت کی تبدیلی کے لیے فوجی جارحیت کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن ہم مادورو اور اس کے بدعنوان، جابرانہ گروہ کو محنت کش عوام کے خلاف کسی بھی طرح کی سیاسی حمایت نہیں دیتے۔‘‘
لاطینی امریکہ میں 1960 اور 1970 کی دہائیوں کے فوجی آمریت کے ہولناک ادوار کی طرف واپسی ناقابل تصور ہے۔تاہم اس سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس براعظم کے محنت کش، غریب اور مظلوم عوام اپنے مقامی حکمران طبقوں اور واشنگٹن کے سفاک غنڈوں ، دونوں کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کریں۔
(بشکریہ:’سوشلسٹ ورکرز‘، ترجمہ: حارث قدیر)
