خبریں/تبصرے

پشاور یونیورسٹی میں مالی بحران اور کم داخلوں کے باعث 9 پروگرام بند

لاہور(جدوجہد رپورٹ)پشاور یونیورسٹی نے موجودہ سمسٹر (فال 2025) سے بیچلر آف اسٹڈیز (بی ایس) پروگراموں میں کم داخلوں کے باعث نو پروگرام بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔خیبرپختونخوا کی 34میں سے 20یونیورسٹیاں، بشمول پشاور یونیورسٹی، گرانٹس اور داخلوں میں کمی کے باعث دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق بند کیے جانے والے بی ایس پروگراموں میں ڈویلپمنٹ اسٹڈیز، جیوگرافی، جیالوجی، تاریخ، سوشل اینتھروپالوجی، شماریات، لاجسٹکس اینڈ سپلائی چین اینالٹکس، ہیومن ڈویلپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز اور ہوم اکنامکس شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بی ایس ہیومن ڈولپمنٹ اینڈ فیملی اسٹڈیز میں صرف ایک طالب علم نے داخلے کے لیے درخواست دی، بی ایس ڈویلپمنٹ اسٹڈیز، بی ایس لاجسٹکس اینڈ سپلائی چین اینالٹکس اور بی ایس ہوم اکنامکس میں دو ،دو طلبہ نے، بی ایس جیوگرافی اور بی ایس ہسٹری میں تین ،تین، بی ایس سوشل اینتھروپالوجی میں پانچ، بی ایس شماریات میں 7، اور بی ایس جیالوجی میں 14 طلبہ نے درخواستیں جمع کرائیں۔

اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’یونیورسٹی کے منظور شدہ قواعد کے مطابق اگر کسی پروگرام میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد 15 سے کم ہو تو اس پروگرام کو منسوخ تصور کیا جائے گا۔ داخلہ پورٹل میں موجود ریکارڈ کے مطابق فال 2025 کے سیشن میں مذکورہ پروگراموں میں طلبہ کی تعداد مقررہ حد سے کم پائی گئی ہے۔‘‘

نوٹیفکیشن کے مطابق’’مذکورہ ضوابط کی روشنی میں یہ ڈگری پروگرام جاری نہیں رکھے جائیں گے۔ لہٰذا متعلقہ طلبہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈائریکٹر ایڈمیشنز کے دفتر سے رجوع کریں تاکہ ان کے تعلیمی مستقبل کے تحفظ کے لیے انہیں متبادل تعلیمی پروگرام پیش کیا جا سکے۔‘‘

’ڈان‘ کے مطابق پشاور یونیورسٹی میں تقریباً 69 شعبے ہیں، اور ہر شعبہ چار سالہ بی ایس پروگرام میں تقریباً 60 طلبہ کو داخلہ دیتا ہے۔ تاہم کئی بڑے شعبوں ، مثلاً ریاضی، کیمیا، سوشل ورک، اردو، پشتو، صحافت و ابلاغ عامہ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور اربن ایریا پلاننگ ، میں بھی طلبہ کی تعداد کم رہی ہے۔

وہ شعبے جہاں مناسب تعداد میں طلبہ نے داخلہ لیا، ان میں فارمیسی، انگریزی، نفسیات، کمپیوٹر سائنس، قانون، ماحولیاتی علوم، طبیعات، بین الاقوامی تعلقات، سیاسیات، پیس اینڈ کنفلکٹ سٹڈیز، کریمنالوجی اور مینجمنٹ سائنسز شامل ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ترجمان نے ’ڈان‘ کوبتایا کہ طلبہ کے مخصوص مضامین میں کم دلچسپی کے کئی اسباب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کو مضامین کے انتخاب میں مناسب رہنمائی اور مشاورت حاصل نہیں ہوتی۔

انکا کہنا تھا کہ’’طلبہ ان مضامین میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جن کا مستقبل میں عملی دائرہ وسیع ہے، جیسے کہ حال ہی میں متعارف کرائے گئے الائیڈ ہیلتھ سائنسز اور کمپیوٹر سائنس۔ ایسی فیلڈز پاکستان اور بیرون ملک دونوں جگہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ زبانوں جیسے مضامین طلبہ کے لیے غیر پرکشش ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا روزگار کے لحاظ سے دائرہ محدود ہے۔ طلبہ اب ٹرینڈنگ مضامین کا انتخاب کرتے ہیں‘‘۔

اکیڈمیشن یوسف علی نے بتایا کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی ادارں میں عمومی طور پر بلکہ خاص طور پر پشاور یونیورسٹی میں بی ایس پروگرام میں داخلوں میں کمی کی کئی وجوہات ہیں ۔ ان کے مطابق یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے انتظامی محکموں نے ایسا کوئی موثر ڈیٹا سینٹر قائم نہیں کیا جہاں پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کے لیے درست اور مستند معلومات دستیاب ہوں۔

تاہم محکمہ اعلیٰ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں یونیورسٹیوں اور ان سے منسلک کالجوں میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں مجموعی داخلے ایک لاکھ60ہزار تھے جو 2025 میں کم ہو کرایک لاکھ 55ہزار رہ گئے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم میں مجموعی طور پر داخلوں میں کمی کا رجحان جاری ہے۔

یوسف علی نے کہا کہ داخلوں میں کمی کی بنیادی وجہ بی ایس پروگرام کا بغیر منصوبہ بندی کے، ایک ہی وقت میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں آغاز تھا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب یونیورسٹیاں اور کالج دونوں ایک جیسے کورسز پیش کر رہے ہیں، لیکن یونیورسٹیوں کی فیسیں کالجوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر پشاور یونیورسٹی میں فی سمسٹر اوسط فیس 75ہزار روپے ہے، یعنی فی سال ڈیڑھ روپے، جبکہ کالجوں میں یہی کورسز فی سمسٹر 7ہزار اور فی سال 14ہزار روپے میں پیش کیے جا رہے ہیں‘‘۔

پشاور یونیورسٹی مالی بحران کے باعث باقاعدگی سے فیسیں بڑھاتی رہتی ہے، جس سے اکثریت کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

یوسف علی نے مزید کہا کہ صوبے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد نے بھی یونیورسٹیوں میں داخلوں کی کمی میں کردار ادا کیا ہے۔فی الحال صوبے میں 34 سرکاری اور 10 نجی یونیورسٹیاں ہیں۔ کالجوں کی تعداد تقریباً 1000 ہے، جن میں بشمول کامرس اور مینجمنٹ کالجزسرکاری و نجی دونوں شامل ہیں۔

ان کے مطابق وہ شعبے جن میں داخلے کم ہوئے ہیں، وہ بدلتے ہوئے سماجی اور معاشی حالات میں اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ ان کے مضامین میں نہ روزگار کے مواقع ہیں اور نہ ہی مارکیٹ میں ان کی مانگ باقی رہی۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور متعلقہ شعبوں کی قیادت جدید دور کی ضروریات کے مطابق اپنے نصاب کو ڈھالنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔

یوسف علی نے کہاکہ ’’حکومت کو بھی بی ایس پروگرام کے مستقبل پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ یہ پروگرام کالج اور یونیورسٹی دونوں سطحوں پر متعدد سنگین مسائل سے دوچار ہے۔‘‘

Roznama Jeddojehad
+ posts