خبریں/تبصرے

پروفیسر اعجاز ملک کے فن پاروں کی فرنچ سنٹر لاہور میں نمائش

لاہور (فاروق سلہریا)پاکستان کے معروف آرٹسٹ اور مجسمہ ساز پروفیسر اعجاز ملک کے فن پاروں کی پانچ روزہ نمائش 25 اکتوبر کو اختتام پذیر ہوئی۔

پروفیسر اعجاز ملک بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ماضی میں وہ نیشنل کالج آف آرٹس سے بھی وابستہ رہے۔انہوں نے آرکیٹیکچر اور آرٹ کی اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی۔وہ لگ بھگ 20سال پیرس میں مختلف حیثیتوں میں بطور آرٹسٹ اور آرکیٹیکچر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

ان کی پینٹنگز اور سکلپچرز کی نمائش 21 اکتوبر کو لاہور کے Alliance Francaise De Lahore (المعروف فرنچ سنٹر) میں شروع ہوئی۔ افتتاحی تقریب میں آرٹ اور آرکیٹیکچر کے شعبے سے تعلق رکھنے والی لاہور کی معروف شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نیر علی دادا نے پروفیسر اعجاز کی آرٹ کے لیے خدمات اور ان کے کام کو سراہتے ہوئے کہا:’’میری نظر میں شاہد سجاد کے بعد مجسمہ سازی میں اگر کوئی بڑا نام سامنے آیا ہے تو وہ پروفیسر اعجاز ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’پروفیسراعجازمعمول کے سکلپچر نہیں بناتے بلکہ اپنے فن کے ذریعے ایک کہانی بیان کرتے ہیں۔ ان کا مجسمہ روایتی نہیں ماڈرن آرٹ کا نمونہ ہوتا ہے‘‘۔

اس موقع پرروزنامہ ’جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اعجاز نے کہا’’آرٹ ایک لحاظ سے معاشرے کا عکس ہوتا ہے۔جو معاشرے میں ہو رہا ہوتا ہے، آرٹ اسے میگنیفائی کر کے پیش کرتاہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل سے اٹی زندگی میں انسان کھویا سا رہتا ہے، زندگی بے معنی سی لگتی ہے جبکہ آرٹ اس صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بڑا آرٹ عام طور پر دو مخالف قوتوں کو دکھاتا ہے’’یہ مخالف قوتیں نفی اور اثبات، حسد اور دوستی ،مرد اور عورت ہو سکتے ہیں۔ پینٹنگ میں خاص طور ایک سیریز ہے ویمن اینڈ بُل( خواتین اور بیل)۔ ان دو طاقتوں کو پینٹنگ میں ایکسپریس کر کے عورت کی ایک ایسے معاشرے میں حالت زار اجاگر کی جاتی ہے جو مرد نے بنائی ہے‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پینٹنگ زندگی بارے ہوتی ہے’’یہ ڈیکوریٹو(دکھاوا) نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی معنی ہوتا ہے۔ محض خوبصورت تصویر بنا دینا ایک طرح سے آرٹ کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے پہلی ضرورت خوبصورتی ہے مگر محض خوبصورتی ناکا فی ہے۔ پینٹنگ میں کوئی پیغام ہوناچاہیے‘‘۔

اپنی مجسمہ سازی بارے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن شخصیات کے مجسمے انہوں نے بنائے ان کی سوچ ،شاعری یا کسی کتاب نے ان کو متاثر کیا۔

پروفیسر اعجاز غالب، فیض،صادقین، منٹو،مبارک علی(تاریخ دان)، خواجہ غلام فرید، پٹھانے خان، جون ایلیا ،پروفیسر خالد سعید (اکیڈیمک)اور فرانسیسی فلسفی گستون بشلارڈ ( Gaston Bachelard ) کا مجسمہ بنا چکے ہیں۔

پروفیسر اعجاز ملک اپنے منفرد انداز میں بنائے گئے مجسموں بارے کہتے ہیں کہ وہ محض چہرہ نہیں بناتے بلکہ متعلقہ شخصیت کے مخفی (invisible)پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا’’یہ ایسی ہی بات کہ جب آپ کسی شخص بارے اس کی عدم موجودگی میں سوچتے ہیں تو آپ اس کے چہرے بارے نہیں،اس کی شخصیت کے کسی پہلو کو سوچتے ہیں‘‘۔

ذیل میں اس نمائش کی افتتاحی تقریب کی تصویری جھلکیاں اور ویڈیو کلپس پیش کئے جا رہے ہیں:

Roznama Jeddojehad
+ posts