دنیا

امریکی فوج: کرہ ارض کی ناقابل تصور تباہی کی مشین

ایب ایشر

امریکی فوج ایک ایسی دیوہیکل طاقت ہے جو تقریباً پورے سیارے پر پھیلی ہوئی ہے ، اور ماحولیات کو پہنچنے والے اس کے نقصان کی حد و گہرائی کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ فوج دنیا کے کسی بھی ایک ادارے سے زیادہ کاربن آلودگی خارج کرتی ہے، اور بعض اندازوں کے مطابق بہت سے ممالک کے مجموعی اخراج سے بھی زیادہ اخراج کا موجب بنتی ہے۔ جیسے جیسے دنیا ماحولیاتی تباہی کے دہانے کی طرف بڑھ رہی ہے، اس تباہی میں امریکی فوج کا حصہ غیر متناسب حد تک زیادہ ہے۔

صحافی اور کارکن ایبی مارٹن کی تیار کردہ ’زمین کا سب سے بڑا دشمن‘(Earth’s Greatest Enemy)نامی نئی دستاویزی فلمی سیریز اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ناظرین یہ حقیقت کبھی نہ بھولیں۔

ایبی مارٹنThe Empire Filesکی میزبان ہیں۔ وہ طویل عرصے سے امریکی سامراج اور عسکریت پسندی کی ناقد رہی ہیں۔ تاہم 2020 کے آس پاس ان کی توجہ کا مرکز اس وقت بدلا ، جب وہ اور ان کے شریک ہدایتکار مائیک پرائسنر والدین بنے۔ اپنے نومولود بیٹے کے مستقبل اور آنے والے ماحولیاتی بحران کے بارے میں فکر نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ:’’جب ہمارا بیٹا ہماری عمر کا ہوگا تو دنیا کیسی ہوگی؟‘‘اسی سوچ نے انہیں اس نتیجے پر پہنچایا کہ جس جنگی مشین کے خلاف وہ برسوں سے لڑ رہے تھے، وہی زمین کے مستقبل کو بھی تباہ کر رہی ہے۔

نتیجہ ایک ایسی فلم کی صورت میں سامنے آیا جو امریکی فوج کی ماحول سے بے حسی اور کرہ ارض کی تباہی میں اس کے کردار کو بے نقاب کرتی ہے ۔ نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ چھوٹے شہروں، قصبوں اور ماحولیاتی نظاموں میں بھی اس کے اثرات براہ راست محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

مارٹن اور پرائسنر نے میری لینڈ سے ہوائی،اور جارجیا سے غزہ تک سفر کیا۔ ہر جگہ انہیں فوجی طاقت اور زمین و انسانوں کے ساتھ اس کے ظلم کے شواہد ملے۔ آلودہ پانی پینے سے فوجی خاندان بیمار ہیں، عراقی شہری زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں، اور اٹلانٹا (جارجیا) کے کارکن مانوئیل ایسٹیبن پائز تران (Tortuguita) جیسے لوگ نظام کے خلاف مزاحمت کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کر رہے ہیں۔

فلم کے آخر میں مارٹن کہتی ہیں کہ اس منصوبے کے دوران’’ہم بار بار اس کی وسعت سے مغلوب ہوئے، جتنا ہم دیکھتے گئے، مسئلہ اتنا ہی بڑا ہوتا گیا۔‘‘تاہم Earth’s Greatest Enemyاپنی سب سے ہولناک شکل میں اس وقت سامنے آتی ہے جب یہ فوجی قیادت کے نظریاتی رویے کو آشکار کرتی ہے۔ ان لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ زمین کو فتح کرنے کا میدان سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک زندہ ماحولیاتی نظام۔

ایک منظر میں مارٹن امریکی ایئر اینڈ اسپیس فورسز ایسوسی ایشن کے ایک پینل میں شریک ہوتی ہیں جس کا عنوان ’’گارڈنگ دی نادرن ٹئیر: ڈومین اویئرنس اینڈ ایئر سپیرئیریٹی ان دی آرکٹک‘‘ ہے۔ وہاں ایک فوجی افسر کھلے عام کہتا ہے کہ الاسکا میں برفانی تودوں کے پگھلنے سے اب یہ خطہ’’کمپنیوں کے لیے تجربات کا میدان بن گیا ہے‘‘۔ برف کے پگھلنے کو خطرے کی بجائے موقع سمجھا جا رہا ہے، تاکہ قدرتی وسائل کے مسلسل استحصال کو جاری رکھا جا سکے۔

یہ منظر اس بات کی علامت ہے کہ امریکی عسکریت پسندی کے پیچھے دراصل سرمایہ دارانہ مفاد کارفرما ہے۔ فلم بتاتی ہے کہ امریکی فوج کی بنیاد ہی سرمائے کے تحفظ پر رکھی گئی تھی ۔ اندرون ملک پہلے فوجی اڈے فر اور مائننگ انڈسٹری کے تحفظ کے لیے بنائے گئے، اور بیرون ملک اڈے کوئلے تک رسائی کے لیے۔

مارٹن کے مطابق امریکی فوج کا بنیادی مقصد ایک ایسی عالمی معیشت کا تحفظ ہے جو قدرتی وسائل کے غیر مساوی استعمال پر مبنی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی فوج کے لیے بظاہر تشویش کا باعث ہو سکتی ہے، مگر اگر واقعی اس مسئلے کو حل کرنا ہو تو اس نظام کو بدلنا پڑے گا ، وہی نظام جس کی حفاظت کے لیے فوج وجود میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جیسے طاقتور ممالک کے رہنما ماحولیاتی بحران کے حل سے زیادہ ایک گرم ہوتی ناقابل رہائش دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مارٹن نے 2021 میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی کانفرنس (COP26) میں شرکت کی، جہاں انہوں نے دیکھا کہ 400سے زیادہ فوسل فیول لابی کے نمائندے موجود تھے۔ انہوں نے اس کانفرنس کو’کارپوریٹ ٹریڈ شو‘قرار دیا۔

اسی دوران امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی نے ایک پریس کانفرنس میں مارٹن کو سوال پوچھنے کی اجازت دی۔ مارٹن نے سوال کیا کہ اگر امریکی فوج ماحولیاتی تبدیلی میں سب سے بڑا حصہ ڈال رہی ہے تو پھر اس کے بجٹ میں اضافہ کیسے جائز ہے؟ پیلوسی نے جواب دیا کہ’’قومی سلامتی کے مشیروں کے مطابق ماحولیاتی بحران بذات خود ایک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے‘‘، یعنی وہ بحران جسے فوج خود بڑھا رہی ہے، اسی کو فوجی اخراجات بڑھانے کا جواز بنایا جا رہا ہے۔

فلم سیاسی ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی پہلو بھی رکھتی ہے۔ عراق جنگ کے سائے نے اس پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ مائیک پرائسنر نے خود عراق میں خدمات انجام دیں اور واپس آ کر امریکی جنگی پالیسی کے ناقد بن گئے، جبکہ ایبی مارٹن کی سیاسی بیداری بھی اسی جنگ کے خلاف احتجاج سے شروع ہوئی۔

فلم کا آغاز لاس اینجلس میں ایک سابق امریکی فوجی سے ہوتا ہے جو اب ایک خیمے میں رہتا ہے اور اپنی انگلیا سن ہونے تک پیانو بجانے میں وقت گزارتا ہے۔ بعد میں فلم عراق کے شہروں میں جنگ کے تباہ کن اثرات کو دکھاتی ہے ، یہ اثرات نہ صرف عراقی شہریوں پر بلکہ امریکی فوجیوں اور ان کی نسلوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔

فوج کی ماحولیاتی بے حسی کے انفرادی اثرات پر یہ فلم بار بار روشنی ڈالتی ہے۔ ایک دل دہلا دینے والا باب کیمپ لی جون کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ یہ شمالی کیرولائنا میں امریکی میرین کور کا اڈہ ہے، جہاں 1950 کی دہائی سے دہائیوں تک فوجی اہلکار اور ان کے خاندان زہریلا پانی پیتے اور اسی میں نہاتے رہے۔

بعض اوقات فلم اتنے وسیع موضوع کو سمیٹنے میں مشکل محسوس کرتی ہے ، کبھی COP26، کبھی سمندری آلودگی، تو کبھی اوکیناوا میں فوجی اڈوں کی تعمیر، لیکن یہی تو اصل چیلنج ہے۔ امریکی فوج کے ماحولیاتی ریکارڈ پر نظر ڈالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ایبی مارٹن خود تسلیم کرتی ہیں کہ’’جتنا گہرائی میں گئے، اتنا ہی یہ بوجھل اور ہولناک دکھائی دیا۔‘‘

Earth’s Greatest Enemyدراصل ایک انتباہ ہے ۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ زمین کی سب سے طاقتور فوج زمین ہی کی سب سے بڑی دشمن بن چکی ہے، اور جب تک اس تباہی کو روکنے کے لیے اجتماعی مزاحمت نہ کی جائے، شاید بہت دیر ہو جائے۔

(بشکریہ: ’جیکوبن‘، ترجمہ: حارث قدیر)

Abe Asher
+ posts