حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کا سلسلہ جاری ہے۔ پانچ سال کے لیے منتخب ہونے والی اسمبلی کے ممبران چار سالوں میں چوتھے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے تیار کیے جا چکے ہیں۔ اپریل2023میں رات کے پچھلے پہر53کے ایوان سے 48ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہونے والے انوارالحق اب تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے درکار27ممبران پورے کرنے سے بھی قاصر ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان کا جانا اب ٹھہر چکا ہے۔
یہ اسمبلی جولائی 2021ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی سادہ اکثریت کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ وزارت عظمیٰ کے لیے جس نام کا پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے انتخاب کیا، انہیں خود ہی یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی کبھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ تاہم ان کا اقتدار لمبا نہیں چل سکا۔ اپریل 2022ء میں جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد آئی تو ، انہی کی پارٹی کی ذیلی شاخ کے صدر اور معروف کاروباری شخص تنویر الیاس نے اپنی ہی جماعت کے وزیراعظم کو ہٹا کر خود وزیراعظم بننا مناسب سمجھا۔ یہ وزارت عظمیٰ بھی اپریل2023ء تک ہی چل سکی اور ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تنویر الیاس کو نااہل قرار دے دیا گیا۔
اپریل2023ء میں طویل دورانیے تک اسمبلی ان سیشن رکھے جانے کے باوجود نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے جوڑ توڑ میں کوئی کامیابی اس لیے بھی نہیں ہو رہی تھی کہ تحریک انصاف کے خلاف پاکستان میں کریک ڈاؤن جاری تھا ، اور مظفرآباد اسمبلی میں تحریک انصاف کو اقتدار دینا طاقت کے اصل مراکز کی انا کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا۔ اس کا حل یوں ڈھونڈا گیا کہ اس وقت کے سپیکر اسمبلی انوارالحق سے استعفیٰ دلوائے بغیر قائدایوان کے لیے کاغذات جمع کروا دیے گئے۔ یوں تنویر الیاس کی نااہلی کی وجہ سے 52اراکین کے ایوان میں سے دستیاب 48اراکین اسمبلی نے انوارالحق کو ووٹ دے دیے۔ بقول سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان، یہ ووٹ ایک فون کال کی وجہ سے دیے گئے۔
دلچسپ امر یہ تھا کہ چوہدری انوارالحق وزیراعظم پہلے بنے اور یہ فیصلہ بعد میں سنایا گیا کہ وہ کس جماعت کے وزیراعظم ہونگے۔ ابتدائی طور پر ان کی کامیابی پر تحریک انصاف نے بھی انہیں مبارکباد دی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے بھی انہیں مبارکباد دی۔ تاہم کچھ دیر بعد جب معلوم ہوا کہ چوہدری انوارالحق تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے امیدوار تھے اور اب وہ ’پی ڈی ایم‘ اتحاد کے وزیراعظم ہونگے، تب تحریک انصاف نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
نئی حکومت میں مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے 12حلقوں سے اسمبلی میں پہنچنے والے اراکین، اورپیپلزپارٹی اور ن لیگ کے اراکین اسمبلی کو اہم وزارتیں سونپی گئیں۔ تحریک انصاف نے وزیراعظم کوووٹ دینے کے بعد اپوزیشن بنچوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور اپنا اپوزیشن لیڈر بھی چن لیا۔ یہ سلسلہ ڈیڑھ سال تک ہی چل سکا اور ایک بار پھر قائد ایوان کی تبدیلی کے لیے تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ تاہم چوہدری انوارالحق کو موجودہ اسمبلی میں سب سے زیادہ مدت تک وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونا نصیب ہوا ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادتوں اور مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ چوہدری انوارالحق نے ایسے مسائل پیدا کیے ہیں، جن کی وجہ سے ایکشن کمیٹیاں بنی ہیں اورعوام حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم تبدیل کر کے مسائل حل کیے جائیں گے اور نئے الیکشن کی راہ ہموار کی جائے گی۔ ایک دلچسپ جواز یہ بھی پیش کیا جا رہاہے کہ اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوئی ہے، جس کو پھر ’عوامی حقوق تحریک‘ نے پر کیا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی اپنا وزیراعظم لائے گی اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ن اس وزیراعظم کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دے گی۔ تاہم وہ حکومت کا حصہ نہیں ہوگی، بلکہ ماضی قریب کی ہی روایت کے مطابق وزیراعظم کو ووٹ دینے کے بعد اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرے گی، تاکہ اس خلا کو پر کیا جا سکے، جس کی وجہ سے عوامی حقوق تحریک کا جنم ہوا۔ اسی ترتیب کے تحت حکومت اور اپوزیشن مل کر اپنی مرضی کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کریں گے اور پاکستان میں طے شدہ مشترکہ اقتدار کے فارمولے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اس نوآبادیاتی اقتدار میں بھی شراکت داری سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کا پہلی بار زور وشور سے اعلان کیا جا رہا ہے، وزیراعظم پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ تاہم نمبر پورے ہونے کے دعوے کے باوجود ابھی تک تحریک عدم اعتماد جمع نہ کروانے کی وجہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا نام حتمی نہ ہوپانا قرار دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے اب وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے کے لیے شرائط بھی عائد کر دی ہیں۔ ان شرائط میں پھر ترقیاتی فنڈز کی بندر بانٹ کی ترتیب کو اسی طرح قائم رکھنا پہلی شرط کے طور پر بتائی جا رہی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں اس طرح کا سیاسی بحران پیدا ہوا ہو۔ یہ سلسلہ 1947ء میں یہ حکومت بننے کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ ابتدا میں مقامی بغاوت کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پاکستان کی وزارت بے محکمہ کے زیر سایہ ایک متوازی نظام حکومت بھی ترتیب دے دیا گیاتھا۔ چوہدری غلام عباس کی سربراہی میں وظیفوں کے عوض قائم اس نظام اور بے جا اختیارات کے باوجود 1950ء میں اس پہلی عبوری حکومت کو ختم کر دیاگیا تھا۔ اس حکومت کے خاتمے کے خلاف پونچھ میں بغاوت بھی ہوئی اور اس بغاوت کو کچلنے کے لیے فوج کشی بھی کی گئی۔ مقامی باغیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے فوجیوں سے چھینے گئے ہتھیار واپس لینے کے عوض الیکشن کمیشن کے قیام اور عوامی کی بالغ رائے کے ذریعے نظام حکومت تشکیل دینے کا وعدہ تو کیا گیا، لیکن اس پر عملدرآمد آج بھی نہیں ہو سکا۔
1950ء اور1955میں ہونے والی بغاوتوں کے باوجود عوام کو بالغ رائے دہی سے حکومت تشکیل دینے کا حق دینے کی بجائے یہ اختیار ریاست پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس ہی رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوآبادیاتی ڈھانچے میں پروان چڑھنے والی حکمران اشرافیہ اقتدار کی اس ’میوزیکل چیئر ‘میں ایک کٹھ پتلی کی طرح آج تک ناچ رہی ہے۔ اقتدار کی اصل طاقت ہمیشہ وزارت امور کشمیر پاکستان سے بھیجے جانے والے لینٹ افسران ،بہ شکل چیف سیکرٹری، سیکرٹری مالیات، انسپکٹر جنرل پولیس، سیکرٹری صحت، اکاؤنٹنٹ جنرل، کے ذریعے ہی چلاتی رہی ہے۔ تاہم یہ سلسلہ بھی نمائشی ہی ہے،اس کے پیچھے بھی ایک اصل اقتدار رہا ہے، جو پہلے مرکزی سطح پر ڈائریکشن دینے تک محدود تھا، لیکن اب تحصیل سطح پر تعینات افسران فیصلہ سازی اور عملدرآمد کرتے ہیں۔
سول بیوروکریسی چیف سیکرٹری اور پولیس آئی جی پولیس کی سربراہی میں کام کرتی تھی، لیکن کسی حد تک سول بیوروکریسی اور پولیس پر مقامی حکمران اشرافیہ کا کنٹرول بھی موجود رہتا تھا۔ تاہم اب یہ سلسلہ مکمل طو رپر ختم ہو گیا ہے،اور ضلعی سطح پر بریگیڈ کمانڈرز انتظامی اور سیاسی امور کے حوالے سے فیصلے کرتے اور ضلعی انتظامیہ کے ماہانہ اجلاسوں میں فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اتنے سخت گیر نوآبادیاتی کنٹرول کے باوجود سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار وزیراعظم کو قرار دینا یہ واضح کرتا ہے کہ اس کرسی کی یہ پرکشش ملازمت کسی اور کے فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے فرنٹ مین سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔
یہ فیصلہ سازی اور حکومت کی تبدیلی کے لیے اسلام آباد کی طرف لگی مقامی حکمران اشرافیہ کی نگاہیں عوامی سطح پر حق حکمرانی کی مانگ کو مزید تقویت پہنچا رہی ہیں۔ ساتھ ہی بار بار کے تجربات یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ یہ نوآبادیاتی اقتدار کا ڈھانچہ اب قابل عمل نہیں رہا ہے۔ گزشتہ اڑھائی سالوں کے دوران لاکھوں افراد نے بار بار سڑکوں پر نکل کر اس اقتدار کو مسترد کیا ہے۔ نئی تبدیلی کے باوجود عوام اس اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔
اگر اس بار بھی وزارت عظمیٰ کی تبدیلی کا عمل مکمل ہوجاتا ہے تو یہ دوسری بار ہوگی کہ ایک اسمبلی 4وزراء اعظم کا انتخاب کرے گی۔ اس سے قبل 2006سے 2011تک چلنے والی اسمبلی نے پانچ سالوں کے دوران 4وزراء اعظم کا انتخاب کیا تھا۔ ماضی میں 1950سے1952کے محض دو سال کے دوران 4صدور بھی تبدیل کیے جا چکے ہیں۔
حکومت کی تبدیلی کے ذریعے تحریک کا اثر زائل کرنے کی یہ کوشش بھی شاید اب بہت ہی تاخیر سے کی جا رہی ہے۔ اسی اسمبلی میں سابق وزیراعظم تنویر الیاس کے دور میں بھی عوامی تحریک پونچھ ڈویژن بھر میں سراٹھا چکی تھی۔ حکومت کی تبدیلی کی بعد یہ تحریک نئے مرحلے میں زیادہ توانا ہوئی اور ریاست گیر سطح تک پھیل گئی۔ اس طریقے سے حکومت کی تبدیلی اس تحریک کے مقبول نعروں کو مزید تقویت پہنچائے گی۔ اب مظفرآباد کے اقتدار کو نوآبادیاتی طرز پر لمبے عرصے تک کنٹرول کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ وقت آچکا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کو حق حکمرانی فراہم کیاجائے ،تاکہ اس خطے کے باسی اپنی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ سازی کر سکیں۔

