پاکستان

برقیات ملازمین کے خلاف مقدمے، کام چھوڑ ہڑتال کے 12 روز

التمش تصدق

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کی کامیابی کے بعد برقی حادثات کی ذمہ داری بغیر کسی تحقیق کے برقیات کے محنت کشوں پر عائد کی جاتی ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتار کیا جاتا ہے۔رواں سال ضلع پونچھ،ضلع باغ اور ضلع حویلی کے ملازمین کے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کیے بغیر ایف آئی آر درج کی گئی اور برقیات کے ملازمین کو گرفتار کیا گیا۔محض موجودہ دور میں ہونے والے حادثات پر ہی مقدمات قائم نہیں کیے گئے بلکہ دہائیوں پرانے مقدمات میں بھی برقیات کے ملازمین کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔

رواں ماہ 1985 میں قائم ہونے والے ایک مقدمے کی دوبارہ سماعت کی گئی،جو عدالت نے خارج کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں 50 سے زائد برقیات کے ملازمین اور افسران کے وارنٹ جاری کیے گئے۔حکمران طبقہ اور اس کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ادارے(عدلیہ اور انتظامیہ) حکمرانوں کے جرائم کا ملبہ برقیات کے ان ملازمین پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جن ملازمین کا محکمے کی پالیسیاں بنانے میں کوئی اختیار نہیں ہے۔

نصف صدی سے زیادہ عرصہ پہلے قائم ہونے والا انفراسٹرکچر بوسیدہ ہو چکا ہے،جو نہ صرف حادثات کا موجب بن رہا ہے بلکہ بجلی کے زیاں اور فنی خرابی کا موجب بھی بن رہا ہے۔کم وولٹیج اور فرسودہ ٹرانسمیشن لائنز کی وجہ سے ہونے والی لوڈشیڈنگ کی ذمہ داری بھی برقیات کے ملازمین پر عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بجلی بلوں میں اضافے کے نتیجے میں جب ہزاروں لوگ سڑکوں پر آئے تو حکمران اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوئے۔عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد حکمرانوں اور انتظامیہ نے منظم طریقے سے عوام کی نفرت کا رخ محنت کشوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔برقیات کے ملازمین کے خلاف مقدموں، گرفتاریوں اور سزاؤں کے ذریعے انتظامیہ اور عدلیہ عوامی پرتوں میں اپنی ساکھ بحال کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

انتظامیہ اور عدلیہ کی ان کاروائیوں کے خلاف تنظیم غیر جریدہ پونچھ فنی ملازمین برقیات کے زیر اہتمام پونچھ ڈویژن میں 12 دنوں سے کام چھوڑ ہڑتال جاری ہے۔ تنظیم نے 29 اکتوبر سے ایمرجنسی سروس دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے عوام کو بجلی کی بندش کی صورت میں جو مسائل درپیش آئیں گے،جس کی ذمہ داری برقیات کے ملازمین کی بجائے ریاستی اداروں پر عائد ہو گی۔جب تک ان محکموں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں نہیں دیا جاتا ان محکموں کے کسی بھی عمل کی ذمہ داری محنت کشوں پر عائد نہیں ہوتی۔

حکمران نہ صرف عوام کو پیش آنے والے برقی حادثات کا ذمہ دار برقیات کے ملازمین کو قرار دیتے ہیں بلکہ خود جن حادثات کا شکار برقیات کے ملازمین بنتے ہیں،ان کو بھی ملازمین کی غفلت ہی قرار دیا جاتا ہے۔پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں محکمہ برقیات کے ملازمین کی آئے روز کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں ہوتی ہیں، جنہیں معمول کا واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔مرنے والوں کے لواحقین کے علاوہ کسی اور کو ان کی موت سے کوئی غرض نہیں ہے۔محنت کشوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ابھی تک کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے،جو حکمران طبقے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔حفاظت کے ضروری آلات اور سیفٹی افسران کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر سال کئی محنت کش جان کی بازی ہار جاتے ہیں،لیکن ان ہلاکتوں سے اربابِ اختیار کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حکمران طبقے کی نظر میں محنت کشوں کی زندگی کی اہمیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے، جو مر گئے تو اور پیدا ہو جائیں گے۔

معمولی اجرت پر مزدوروں سے ان کی زندگیوں کا سودا کر دیا جاتا ہے، جنہیں انتہائی کٹھن حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔جیسے بھی موسمی حالات ہوں، برفباری ہو یا طوفان، شدید گرمی ہو یا سردی بجلی کی سپلائی معطل نہیں ہونی چاہیے۔یہ محکمہ برقیات کے محنت کشوں کی ذمہ داری ہے،لیکن ان کی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں ہے۔دوران کام کرنٹ لگ کے مرنے والوں کو ہی اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرادیا جاتا ہے۔ابھی تک غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف نہ کوئی انکوائری ہوئی ہے، نہ ہی ان واقعات کے ذمہ داران کا تعین ہوا ہے۔

مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ اور ملازمت دے کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ زندگی کا جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ کر دیا گیا۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی زندگی کا نقصان کچھ چندپیسوں سے پورا کیا جا سکتا ہے؟ کیا پیسوں سے دوبارہ زندگی خریدی جا سکتی ہے؟مرنے والوں کی جگہ لینے کے لیے ہزاروں بے روزگار نوجوان ہر وقت تیار رہتے ہیں جن کا کام اور انجام بھی یہی ہوتا ہے لیکن نام الگ ہوتا ہے۔ بے روزگاری کی ذلت سے انسان اس موت کو ترجیح دیتے ہیں۔

محنت کشوں کی زندگی سے کھلواڑ گزشتہ لمبے عرصے سے یوں ہی جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک مزدور متحد ہو کر اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔زندگی کو قائم رکھنے کے لیے تمام جاندار ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔بقا کی یہ جدوجہد لاکھوں سالوں سے جاری ہے اور تب تک جاری رہے گی جب تک اس کائنات میں زندگی کا وجود ہے۔تاہم آج کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے بقا ء کی اس جدوجہد میں ناکامی اور بے بسی کی وجہ نظام زر کی پیدا کردہ سماجی بے حسی اور انفرادیت ہے،جس نے انسان کو تنہا کر کے کمزور کر دیا ہے۔

مہنگائی کے اس طوفان میں انتہائی معمولی اجرت پر کام لیا جاتا ہے۔مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگیاں ذلتوں، پریشانیوں اور مجبوریوں کی ایک داستان کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ان ارمانوں کا ہر روز خون ہوتا ہے،جو لب پر آنے سے پہلے ہی دل میں دفن ہو جاتے ہیں۔بچوں کے سکول کی فیس ادا کرنے کی فکر، بیماری کی صورت میں علاج کے لیے پیسوں کی پریشانی، مختلف تہواروں میں کپڑے خریدنا، گھر کا راشن پورا کرنا،یہ تمام ایسی پریشانیاں ہیں جو مزدوروں کو ہر روز مر مر کے جینے پر مجبور کرتی ہیں۔

تاہم معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا،بلکہ اس ذلت آمیز زندگی کی بھی ضمانت نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی کبھی دی جائے گی،کیونکہ زندگی مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لی جاتی ہے۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔