خبریں/تبصرے

ہالینڈ:اسلاموفوبک گیرٹ ولڈرز انتخاب ہار گیا، ہم جنس پرست اگلا وزیراعظم ہوگا

لاہور(جدوجہد رپورٹ)ہالینڈ میں 29 اکتوبر 2025 کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں سخت گیر دائیں بازو کی جماعت پارٹی فار فریڈم (PVV) کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی، جب کہ مرکز اور بائیں بازو کی جماعتوں ، خصوصاً ڈیموکریٹس 66 (D66) ، نے غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس نتیجے نے ہالینڈکی سیاست میں ایک نئے مرحلے کی بنیاد رکھ دی ہے، جہاں ممکنہ طور پر ایک وسیع ترقی پسند اتحاد کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ابتدائی نتائج کے مطابق اسلاموفوبک گیرٹ ولڈرز کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ38سالہ ہم جنس پرست رہنما روب جیٹن ملک کے سب سے کم عمر وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔

انتخابی نتائج کے مطابق D66 نے تقریباً 16.9 فیصد ووٹ حاصل کیے اور 27 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی، جبکہ دائیں بازو کے رہنما گِیرت ولڈرز کی PVV جماعت نے 16.8 فیصد ووٹ اور 26 نشستیں حاصل کر کے انتہائی معمولی فرق سے دوسری پوزیشن لی۔ پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی (VVD) جو سابق وزیراعظم مارک روٹے کی جماعت ہے، تیسرے نمبر پر رہی، جس نے 14.2 فیصد ووٹ اور 22 نشستیں حاصل کیں۔ کرسچن ڈیموکریٹک اپیل (CDA) اور گرین لیفٹ لیبر الائنس نے بھی متوازن کارکردگی دکھائی اور نئی پارلیمانی اکثریت کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔

یہ انتخابات اس وقت منعقد ہوئے جب پناہ گزین پالیسیوں پر اختلاف کے باعث روٹے حکومت گر گئی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ولڈرز کی نسل پرستانہ اور اسلام مخالف مہم نے وقتی شور تو پیدا کیا، مگر ووٹرز کی اکثریت نے ان کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کو مسترد کر دیا۔ نوجوان ووٹروں اور شہری متوسط طبقے نے زیادہ تر D66، گرین لیفٹ اور سوشلسٹ پارٹی کو ووٹ دیا، جو ماحولیاتی تحفظ، فلاحی ریاست کے دفاع اور سماجی انصاف کے ایجنڈے پر زور دے رہی تھیں۔

فی الحال کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی، اس لیے حکومت سازی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ متوقع طور پر D66 اور VVD سمیت دیگر جماعتیں ایک سینٹرلیفٹ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں گی تاکہ ملک میں سیاسی استحکام اور سماجی اصلاحات کے لیے مشترکہ پروگرام وضع کیا جا سکے۔

D66اب حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں سے مذاکرات شروع کرے گی۔ ماہرین کے مطابق یہ عمل کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔

اس الیکشن میں رہائشی بحران، مہنگائی، امیگریشن اور صحت عامہ جیسے مسائل سب سے زیادہ زیرِ بحث رہے۔ ابتدا میں یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ D66اور ولڈرز کی جماعت دونوں کی پچیس سے چھبیس نشستیں ہوں گی، مگر اب ڈی۔سکسٹی سکس ایک نشست کے فرق سے آگے نکل گئی ہے۔

؂’گارڈین‘ کے مطابق تمام بڑی جماعتوں نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ وہ ولڈرز کی شدت پسند جماعت کے ساتھ حکومت نہیں بنائیں گی۔ 2023 میں ولڈرز کی جماعت نے 34سے زائد نشستیں حاصل کرکے ایک دائیں بازو کی حکومت بنائی تھی، لیکن سخت گیر امیگریشن پالیسیوں پر اختلاف کے باعث وہ حکومت ایک سال سے کم عرصے میں ختم ہو گئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ انتخابات دائیں بازو کی شکست ضرور ہیں، لیکن اس کے ووٹر ختم نہیں ہوئے بلکہ اب وہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بٹ گئے ہیں۔ عوامی اعتماد بھی سیاست پر بہت کمزور ہے، جو محض چار فیصد رہ گیا ہے۔

روب جیٹن نے انتخابی جیت کے بعد کہا کہ ووٹروں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ اتحاد اور باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، نئی حکومت کو رہائشی بحران، ہجرت، موسمیاتی تبدیلی اور معیشت جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔

انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والی ایک ماہر نے کہا کہ اگرچہ D66کی جیت واضح ہے، لیکن ملک میں دائیں بازو کی سوچ ختم نہیں ہوئی۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ اس بکھری ہوئی پارلیمان میں ایک مضبوط اور مستحکم حکومت کیسے بنائی جائے۔

ایک ممکنہ اتحاد میں کرسچن ڈیموکریٹک اپیل، وی۔وی۔ڈی اور گرین لیفٹ لیبر شامل ہو سکتے ہیں، مگر وی۔وی۔ڈی کی سربراہ نے کہا ہے کہ وہ بائیں بازو کے ساتھ حکومت بنتی نہیں دیکھتیں۔

روب جیٹن کی پراعتماد شخصیت، مثبت مہم اور واضح موقف نے ووٹروں کو متوجہ کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابقD66نے بائیں اور دائیں دونوں جانب کے ووٹروں کو اپنی طرف مائل کیا۔ امیگریشن کے معاملے پر نسبتاً سخت رویہ رکھنے کے باعث اسے کچھ دائیں بازو کے ووٹر بھی ملے، جس سے پارٹی کا ووٹ بینک مزید وسیع مگر متنوع ہو گیا ہے۔

ماہرین کے نزدیک یہ انتخابات صرف ایک جماعت کی جیت نہیں بلکہ ایک سیاسی رجحان میں تبدیلی کی علامت ہیں -97 جہاں انتہاپسندی کے بجائے تعاون، مکالمہ اور عملی حل کی سیاست کو پذیرائی ملی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts