نقطہ نظر

ایک امریکی طالب علم ’دشمن ملک‘ کیوبا میں!

 سیموئل بارنی

21 مئی 2024 کی صبح ورمونٹ کے چھوٹے مگر دلکش برلنگٹن ایئرپورٹ میں، میں نے اپنے والد اور سوتیلی ماں کو روانگی سے ایک گھنٹہ قبل مضبوطی سے گلے لگایا اور الوداع کہا۔ میں اس سفر پر نکلنے جا رہا تھا، جس نے میری زندگی بدل دینی تھی۔ میں ایک ماہ کے لیے بیرون ملک رہنے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا،جس سے میں پہلے کبھی نہیں گزرا تھا ، اور اس سفر کی غیر یقینی نوعیت بیک وقت پرجوش بھی تھی اور تھوڑی خوفناک بھی۔ کسی نہ کسی سطح پر میں وہیں ایئرپورٹ پر جان گیا تھا کہ یہ سفر میری زندگی کا رخ بدل دے گا۔ یہ کتنا اور کس انداز میں ایسا کرے گا، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا ، بس اندازہ ہی لگا سکتا تھا۔

میرے والدین کی علیحدگی اس وقت ہوئی جب میں بہت چھوٹا تھا ، مجھے ان کے ایک ساتھ ہونے کی کوئی یاد نہیں۔ علیحدگی کے باوجود مجھے اپنے والد سے اکثر ملنے کا موقع ملتا رہا، جس کے لیے میں شکر گزار ہوں، لیکن میری پرورش کا زیادہ تر حصہ میری والدہ کے گھر میں گزرا۔ میری ماں روس سے ہجرت کر کے امریکہ آئی تھیں، اور نیویارک کے دیہی علاقے میں ان کا آ جانا ایسا فیصلہ تھا جس نے ان کے لیے اپنے ملک کی ماسٹر ڈگری کے مطابق کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ نتیجتاً انہیں یہاں دوبارہ تعلیم حاصل کرنی پڑی اور ساتھ ہی جز وقتی طور پر کلینیکل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنا پڑا تاکہ اپنے اور اپنے بچے ، یعنی میرے اخراجات پورے کر سکیں۔ جیسا کہ اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ دور ان کے لیے نہایت پریشان کن تھا۔

اس زمانے کی کچھ یادیں آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ پیگی بینک کے سکوں سے گیس اسٹیشن پر کھانے کی ادائیگی،سردیوں میں گاڑی بند ہونے پر ماں کا رلا دینے والا غصہ اور مایوسی آج بھی یاد ہے میں نے بہت کچھ دیکھا، ان کے چہرے پر تھکن، آنکھوں کے نیچے سوجن، اور آواز کی کرختگی جو میری کسی غلطی سے نہیں بلکہ مالی دباؤ اور مسلسل تھکن سے جنم لیتی تھی، اور کرسمس کا وہ درخت جس کے نیچے تحفے کم تھے۔

کچھ باتیں ایسی تھیں جو میں نے اس وقت نہیں دیکھیں ۔ وہ ماں نے بعد میں بتائیں، جب انہیں بہتر نوکری مل گئی اور مالی دباؤ کم ہوا۔ اس سال کے کرسمس کے تحفے دراصل ایک مقامی خیراتی ادارے کی طرف سے آئے تھے۔ جب کھانے کے پیسے صرف ایک کے لیے ہوتے تو وہ بھوک چھپا کر کہتیں کہ انہیں بھوک نہیں۔

اگر میں جذبات کو الگ رکھ کر ان تجربات کا تجزیہ کروں، تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہمدردی پیدا کرنے والے حالات تھے۔ تاہم یہ ان تکالیف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو طبقاتی معاشروں نے تاریخ بھر میں مزدور طبقے پر مسلط کیں۔ میرے ہائی اسکول کے آخری سال کا بہترین دوست کبھی بے گھر رہا تھا۔ ایک لڑکی جسے میں جانتا تھا، اس کا گھر بینک نے ضبط کر لیا تھا۔

آزادی

جب میں ابھی بچہ تھا اور اپنے اردگرد کی ان ناانصافیوں کو سمجھنے کے قابل نہیں تھا، تب بھی کیوبا کے مزدور طبقے اپنی آزادی کے لیے ایک طویل جدوجہد میں مصروف تھے۔ 16ویں صدی میں ہسپانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے مقامی تائینو آبادی کو قتل و غلامی سے بچنے کے لیے پہاڑوں اور قریبی جزیروں کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔ بعد میں انہی نوآبادیاتی طاقتوں نے افریقیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر جزیرے پر لایا اور ایک ظالمانہ غلامی کا نظام قائم کیا جو صدیوں تک جاری رہا۔

1898 میں جب بہادر کیوبن آزادیت پسند اسپین کی نوآبادیاتی غلامی ختم کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے، امریکہ نے فوجی مداخلت کی ، جس کا واضح مقصد تھا کہ اسپین کی جگہ خود کیریبین میں بالادست طاقت بن جائے۔

1898 کے بعد کیوبا کو بظاہر آزادی ملی، لیکن امریکہ نے اپنی مرضی سے کسی بھی وقت مداخلت کرنے کا حق برقرار رکھا۔ امریکی فوج نے ملک میں امریکی سرمایہ داروں کی بالادستی کی بنیاد رکھی۔ کیوبا کی معیشت امریکی کاروباری مفادات کے تابع کر دی گئی ، چاہے کیوبن عوام راضی ہوں یا نہیں۔ یہ نظام کئی دہائیوں تک قائم رہا، یہاں تک کہ 1959 میں ایک انقلابی تبدیلی آئی۔

فیدل اور راؤل کاسترو، کامیلو سینفوگوس اور ارنیستو چے گویرا کی قیادت میں انقلابی تحریک نے امریکی حمایت یافتہ آمر فولخینسیو بتیستا کو گرا کر سامراجی اثرات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے امریکی کمپنیوں کی ملکیت والی زمینوں کو قومی تحویل میں لیا اور واشنگٹن کے سیاست دانوں کو کیوبا کی زندگی پر حکم چلانے سے روک دیا۔

میں یقینا ان موضوعات پر لکھنے والا پہلا شخص نہیں ہوں، نہ ہی سب سے زیادہ اہل، مگر مزدور طبقے کی تاریخ سے میری دلچسپی میرے بچپن کے تجربات کا نتیجہ ہے ۔ میری یونیورسٹی کی یونیورسٹی آف سیئن فیوگوس کے ساتھ تعلیمی شراکت، نیز ہسپانوی زبان اور لاطینی امریکی ثقافت کے مطالعے کی رغبت ، یہ سب مل کر مجھے اس سرزمین تک لے آئے جہاں دیہی علاقوں کی مٹی نارنجی ہے، بیل شاندار سینگوں والے ہیں، اور لوگ دنیا کے سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں۔ یہ کیوبا کی سرزمین ہے۔

عملی سوشلزم

کیوبا کے سفر سے پہلے کئی سالوں تک میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی تحریریں پڑھتا رہا۔ ان کے دلائل مجھے خطیبانہ لحاظ سے قائل کرنے والے محسوس ہوتے تھے، اور وہ میرے اندر غربت سے وابستہ تجربات کے جذباتی ردعمل کا فکری اظہار معلوم ہوتے تھے۔ جیسے جیسے میں سرمایہ (Capital)، جرمن آئیڈیالوجی یا ولادیمیر لینن کی’ کیا کیا جائے؟ ‘جیسی تحریروں میں گہرائی سے اترتا گیا، میری یہ خواہش بڑھتی گئی کہ میں خود دیکھوں کہ ایک بعد از سرمایہ دارانہ معاشرے میں زندگی کیسی ہوتی ہے۔ مارکس کا یہ نظریہ کہ مزدور طبقہ سرمایہ کے تعلق سے الگ ہو کر آزادانہ ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مجھے نہایت شاندار معلوم ہوتا تھا ۔ تاہم حقیقت میں مزدور طبقہ اس ترقی کو کس طرح پاتا ہے، یہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ افسوس کہ اب تک امریکی مزدور طبقے کو یہ موقع نصیب نہیں ہوا۔ چنانچہ نظریے کی دنیا سے آگے بڑھ کر یہ جاننا کہ جہاں سوشلسٹ نظام نافذ ہو چکا ہے، وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ، یہی میرے اس سفر کا بنیادی محرک بنا۔

جب میں ہوائی جہاز سے اترا اور کیریبین کی گرم ہوا میں سانس لی، تو وہ لمحہ میرے لیے کسی خواب سے کم نہ تھا۔ جب ہم ایئرپورٹ سے سین فیوگوس شہر تک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر پر روانہ ہوئے، تو میری نظریں مسلسل باہر مناظر پر جمی رہیں۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میری ہسپانوی زبان اتنی اچھی نہیں جتنی میں سمجھتا تھا، مگر میں سیکھنے آیا تھا، اور یہی سب سے اہم تھا۔ روزمرہ کی درجنوں چھوٹی چھوٹی گفتگوؤں نے مجھے ایسے جملے بولنا سکھائے جن کا مجھے پہلے کبھی سامنا نہ ہوا تھا۔ (مثلاً، جب آپ کو ایک انداز کے انڈے دوسرے سے کہیں زیادہ پسند ہوں، تو آپ جلدی سیکھ لیتے ہیں کہ’اسکریبلڈ‘ اور’فرائیڈ‘ انڈوں میں فرق کیا ہے!)

میں پانچ دیگر طلبہ کے ساتھ کیوبا آیا، جن میں سے چار میری ہی یونیورسٹی SUNY Potsdam کے تھے۔ ایک جان اسکاٹ لوزیانا سے تھا اور اول مس یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ ہمارے ایک پروفیسر ایکسل فئیرشولز مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور وہ میرے فکری رہنما بن گئے تھے۔ ایکسل نے ہمارا کورس’کولڈ وار‘پر کیوبا کے پروفیسر ڈکٹینیو دیاز گونزالیز کے ساتھ پڑھایا ، جو نہ صرف نہایت باخبر اور خوش مزاج شخص تھے بلکہ رقص میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ہماری دو رہنما یادیرا اور دایانا ترجمہ کرنے اور جزیرے کی تاریخ سمجھانے میں ہمارے لیے ناگزیر بن گئیں۔

تعلیم اور صحت

جلد ہی ہم نے سمجھ لیا کہ انقلاب کا روزمرہ کیوبن عوام کے لیے کیا مطلب ہے۔ دایانا کی دادی اور ان کا پورا خاندان 1959 سے پہلے غریب کسان تھا، جو بنیادی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ جب انقلاب آیا تو پورے ملک میں بڑے پیمانے پر خواندگی کی مہمات چلائی گئیں۔ دایانا کی دادی انہی مہمات کی ایک مستفید تھی ، انہوں نے 26 سال کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھا۔

سین فیوگوس یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کے داخلی دروازے پر پتھر کی سیڑھیاں ہیں۔ ان کے آگے دیوار پر ایک دیواری نقش و نگار بنا ہوا ہے، جس پر لکھا ہے کہ ’’تعلیم کے بغیر انقلاب ممکن نہیں، اور اس کے بغیر سوشلسٹ معاشرہ بھی ناممکن ہے۔‘‘

ہم نے جانا کہ انقلاب سے پہلے پورے کیوبا میں محض چند یونیورسٹیاں تھیں۔ وہی کیمپس جہاں ہم روزانہ پڑھتے تھے، انقلاب سے پہلے موجود ہی نہیں تھا۔ آج جزیرے بھر میں درجنوں یونیورسٹیاں ہیں جو سینکڑوں کیمپسوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دایانا کی وہی دادی، جو 26 برس کی عمر تک ناخواندہ تھیں، اپنے چاروں بچوں کو یونیورسٹی کی تعلیم دلوانے کے قابل ہوئیں ، یہ موقع انہیں انقلاب کے بغیر شاید کبھی نہ ملتا۔

امریکہ میں حکمران طبقہ یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کاروباروں کی طرح چلیں، ان کے بجٹ کم کیے جا رہے ہیں۔ ہم دنیا کے امیر ترین ملک میں رہتے ہیں، پھر بھی اعلیٰ تعلیم یہاں ناقابل برداشت حد تک مہنگی ہے۔ دوسری جانب کیوبا ہمارے مقابلے میں بہت کم وسائل رکھتا ہے ، اور اپنے تمام شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کرتا ہے، باوجود اس کے کہ 1960 کی دہائی سے امریکی حکومت کی طرف سے اس پر غیر قانونی پابندیاں عائد ہیں۔ شاید ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی چاہئیں۔ دوسروں کے لیے قلت پیدا کرنے کی بجائے تعلیم کو سب کے لیے قابل رسائی بنانے پر سرمایہ لگانا چاہیے۔ وسائل تو ہمارے پاس موجود ہیں ۔ بس شرط یہ ہے کہ سماج کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکال کر مزدور طبقے کے ہاتھوں میں دیا جائے۔

ہمارے کیوبن استاد ڈکٹینیو نے بتایا کہ فیدل کاسترو خود ان کے بچپن کے اسکول میں کبھی کبھار آیا کرتے تھے اور اس کی تعمیر کی نگرانی کرتے تھے۔ ان کے بقول’’کیوبن عوام کے لیے تعلیم ہی انقلاب ہے ، یہ انقلابی ہونے کا بنیادی مفہوم ہے۔‘‘

ہم نے کلاسوں کے دوران کئی ایک روزہ دورے کیے، مثلاًبے آف پگزاور پرانے ہسپانوی قلعوں کادورہ کیا۔ ہوانا میں ہم نے آرٹ میوزیم دیکھے اور افروکیوبن ثقافتی تقریبات میں شرکت کی۔ سفر کے آخر میں ہم نے ایک ہفتے کا سڑک کا سفر کیا، جس میں ٹرینیڈاڈ، ماتانزاس، پینار دل ریو اور دیگر شہروں کا دورہ کیا، ہر ایک کی منفرد تاریخ جانی اور جدید کیوبن ثقافت سے روشناس ہوئے۔ شدید گرمی میں پسینہ بہانے کے باوجود خوش مزاج گفتگو اور ساتھیوں کی ہنسی نے موسم کی سختی کو قابل برداشت بنا دیا۔ ہماری رہنما ہمیں بار بار پانی پینے کی تاکید کرتی رہتیں۔

یقیناجب کوئی سفر کرتا ہے تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ معدہ مقامی کھانوں سے کیسا برتاؤ کرے گا ، مگر اس لحاظ سے میرا تجربہ بہت اچھا رہا۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک بار جب میں بیمار ہوا تو وہ میری اپنی غلطی تھی،کیونکہ میں نے ایئرپورٹ کا پرانا سینڈوچ کھا لیا۔

جب میں بیمار پڑا تو رہنما مجھے سین فیوگوس کے ایک مقامی میڈیکل کلینک لے گئے۔ وہاں کے عملے نے میرا علاج کیا، ہاضمے کی دوا دی اور جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے لیے الیکٹرولائٹس دیے۔ ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا میری اس پوری یاترا کی سب سے خوشگوار یادوں میں سے ایک ہے۔

کیوبا اپنے شہریوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ امریکہ کی حکمران اشرافیہ دنیا کے امیر ترین ملک ہونے کے باوجود یہ قدم اٹھانے سے انکاری ہے۔ مزدور طبقہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور صحت کے بحران سے تنگ آ چکا ہے ۔ نیویارک سٹی کی میئرل پرائمری میں زوہران ممدانی کی حالیہ کامیابی اسی بے چینی کی علامت ہے۔ شاید ہم ان کی جیت کی رفتار سے فائدہ اٹھا کر ایک نئی سوشلسٹ تحریک تعمیر کر سکیں، جو منافع سے زیادہ انسان کو ترجیح دے ، بالکل کیوبا کے ماڈل کی طرح۔

انقلاب کے بعد سے کیوبا کا طبی نظام غیر معمولی حد تک ترقی کر چکا ہے۔ کیوبن ڈاکٹر دنیا کے بہترین معالجین میں شمار ہوتے ہیں، اور ملک نے کووڈ19 کی وبا کے دوران اپنی ویکسین خود تیار کی۔ اگرچہ ضروری ادویات کی قلت نے حالات کو مشکل بنایا، مگر طبی ماہرین نے انہی حالات میں اختراعی حکمت عملیوں سے ایک ایسا نظام قائم کیا جو احتیاطی علاج پر زور دیتا ہے۔
ہزاروں کیوبن ڈاکٹر قدرتی آفات کے بعد دنیا بھر میں انسانی امداد کے مشنوں میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ ایک موقع پر کیوبا نے نیو اورلینز میں طوفان کترینہ کے متاثرین کی مدد کے لیے میڈیکل عملہ بھیجنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ تاہم حیران کن طور پر، اور اپنی اخلاقی گراوٹ کو ایک فیصلے میں بے نقاب کرتے ہوئے، جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے اس امداد کو مسترد کر دیا ، جب کہ نیو اورلینز کے لوگ زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے۔

مسائل

اگر میں کیوبن عوام اور ان کے قائم کردہ معاشرے کی بہت تعریف کرتا ہوں، تو یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ کیوبا آج بھی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ جزیرے پر بنیادی غذائی اشیاء کا حصول مشکل ہے، اور بجلی کے بلیک آؤٹ عام ہیں۔ ہم نے خود ان مسائل کا سامنا کیا۔ ہوانا میں ہمارے قیام کے دوران کئی گھنٹوں کے لیے بجلی غائب رہی۔ ایک اور موقع پر سین فیگو کے میزبان صبح مچھلی پکڑنے گئے تاکہ رات کا کھانا تیار کیا جا سکے۔ کیوبن عوام روزانہ ان حالات میں جیتے ہیں ، اور ہمارے برعکس ان کے پاس مہینے کے آخر میں ان مشکلات سے فرار کا کوئی راستہ نہیں۔

یہ قلت بعض لوگوں میں مایوسی کا باعث بنی ہے، جیسا کہ ہماری میزبان میلباسین فیگو میں اکثر شکوہ کرتی تھیں۔ ایک موقع پر میلبا نے مجھ سے کہا’’چے ہی اصل انقلابی تھا‘‘۔ ایک دن جب بجلی کی تار میں خرابی ہوئی اور بجلی بند ہو گئی تو میلبا نے ہاتھ اٹھا کر مایوسی سے کہا’’میرا سب کچھ ضائع ہو گیا‘‘۔ بجلی کے جھٹکوں نے اس کے کئی برقی آلات کو نقصان پہنچایا، بعض شاید ناقابل مرمت ہو گئے۔ ایک صبح جب ہم چند دن کے لیے ہوانا روانہ ہونے والے تھے، اوپر والے حصے میں پانی کا پائپ پھٹ گیا۔ خوش قسمتی سے جب ہم واپس آئے تو مسئلہ حل ہو چکا تھا، لیکن میں شکرگزار تھا کہ اس خرابی سے نمٹنے والا میں نہیں تھا۔

اگرچہ سوشلسٹ انقلاب اور انقلابی نظریہ آج بھی جزیرے پر غالب ہیں، مگر سب کے لیے نظریہ یکساں اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک ہوٹل ورکر، جس نے میری ہسپانوی بول چال کی تعریف کی، سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ ایک نوجوان بریان، جو انگریزی کا طالب علم تھا، نے کہا کہ وہ ایک دن امریکہ میں رہنا چاہتا ہے۔ ایک کالج پروفیسر سے جب میں نے پوچھا کہ’’کیا آپ خود کو مارکسسٹ لیننسٹ سمجھتی ہیں؟‘‘تو ان کا جواب مبہم تھاکہ ’’کیا سوال ہے! یہ کہنا مشکل ہے۔‘‘

ہر سوشلسٹ نظام کے لیے خوداحتسابی ضروری ہے۔ کم از کم ایک اہم معاملے میں کیوبا نے یہ سبق سیکھا ہے ۔ انقلاب کے بعد کے برسوں میں ایل جی بی ٹی کیو پلس افراد کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، مگر آج کیوبا نے دنیا کے سب سے ترقی پسند فیملی کوڈز میں سے ایک اختیار کیا ہے۔ مغربی سرمایہ دار میڈیا اب بھی کیوبا پر سیاسی جبر کے الزامات لگاتا ہے۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سامراجی طاقتیں مسلسل کیوبا کی خودمختاری کو کمزور کرنے اور اسے دوبارہ سرمایہ دارانہ نظام میں کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ امریکہ کا واضح ہدف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ کیوبا میں رژیم چینج کی جائے۔ تاہم داخلی اختلافات کو ہر صورت’’سامراجی سازش‘‘سمجھ کر دبانا بھی درست نہیں۔

کیوبا محض اس لیے جنت نہیں بن گیا کہ وہاں مارکسی نظریہ غالب ہے۔ انقلاب کے بعد لاکھوں لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ نظریاتی وجوہات کی بنا پر، مگر زیادہ تر بہتر مواقع اور آسان زندگی کی تلاش میں گئے ہیں۔ تاہم یہ بھی یاد رہے کہ ہجرت کا مسئلہ صرف کیوبا کا نہیں بلکہ پورے کریبین خطے کا ہے۔ پورٹو ریکو، ہیٹی اور ڈومینیکن ریپبلک کے لاکھوں لوگ بھی امریکہ میں مقیم ہیں۔

اس سب کے باوجود کیوبا کی موجودہ مادی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ امریکی پابندیاں ہیں ۔یہ وہ اقتصادی ناکہ بندی ہے،جو صرف اس لیے لگائی گئی کہ کیوبا نے 1960ء کی دہائی میں سامراج سے آزاد اور اشتراکی راستہ اختیار کیا۔ یہ پابندیاں جزیرے کی معیشت کو اب تک اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کبھی کسی سوشلسٹ تجربے کو سکون سے پنپنے نہیں دے گا، کیونکہ سوشلسٹ کامیابی دنیا بھر میں طبقاتی نظام کے خاتمے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اگر انسانیت کا کوئی خوشگوار مستقبل ممکن ہے، تو وہ اسی وقت آئے گا جب بورژوازی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے گا۔

انقلاب کا دفاع

میں کیوبا سے ان گنت خوشگوار یادوں، نئے دوستوں، اور جزیرے کے لوگوں کی گہری سمجھ کے ساتھ واپس آیا۔ تاہم اس سے بھی زیادہ پختہ عزم کے ساتھ کہ کیوبا کے انقلاب کا ہر قیمت پر دفاع کیا جانا چاہیے۔ یہ دفاع اس لیے نہیں کہ وہاں کی ریاست خود کو سوشلسٹ کہتی ہے، بلکہ اس لیے کہ کیوبا میں معاشرہ اپنی عوام کی زندگی بہتر بنانے کے لیے حقیقی پالیسیاں اختیار کرتا ہے۔ میں نے کیوبا کے تعلیم، رہائش اور صحت سے متعلق انقلابی اقدامات کے بارے میں کتابوں میں پڑھا تھا، مگر جب میں نے زمین پر ان کے اثرات دیکھے ، محنت کش طبقے کے چہروں پر انقلابی کامیابیوں کی جھلک دیکھی، تو میرا یقین اور پختہ ہوگیا کہ ایک بہتر دنیا ممکن ہے۔

کیوبا کا ماڈل کامل نہیں، کوئی انقلابی ماڈل کبھی کامل نہیں ہوتا ، مگر کیوبن عوام نے انسانی آزادی کی جدوجہد میں ایک بہادر قدم ضرور اٹھایا ہے۔

میں Dairo Moreno اور Civitas Global Educational Servicesکی ٹیم کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اس تعلیمی سفر کا انتظام کیا۔ ان کی کاوشیں اس وقت اور بھی اہم ہیں جب امریکہ کی حکمران اشرافیہ کیوبا کے خلاف سامراجی بیانیہ پھیلاتی ہے،’آزادی‘کے نام پر دوسرے ممالک میں مداخلت کے حق کو اپنا واحد اصول سمجھتی ہے۔

امریکہ کے محنت کش عوام کو چاہیے کہ وہ کیوبا کے خلاف اس غیر انسانی اقتصادی محاصرے کی مخالفت کریں ، جس کی مذمت اقوامِ متحدہ میں سوائے اسرائیل کے ہر ملک نے کی ہے ۔ امریکی محنت کش طبقے کو اپنے لیے وہی حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے جو کیوبن عوام نے اپنے لیے جیتے ہیں ، اور ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ کیوبا کو اپنی زندگی اور سماج کو آزادانہ طور پر ترقی دینے دیا جائے۔

اگر ہم خوش قسمت ہوئے ،تو شاید ایک دن امریکی اور کیوبن طلبہ بڑی تعداد میں ایک ساتھ پڑھ سکیں گے ، اور شاید ایک دن ایک سوشلسٹ امریکہ اور سوشلسٹ کیوبا دو برادر ممالک کی طرح شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، انسانیت اور برابری کے مشترکہ پرچم تلے۔

(بشکریہ:’لنکس‘، ترجمہ: حارث قدیر)

Samuel Barney
+ posts