خبریں/تبصرے

سی آئی اے نے 4 سالوں میں فیدل کاسترو کو قتل کرنے کے 5 منصوبے بنائے

لاہور(جدوجہد رپورٹ)حال ہی میں ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی خفیہ دستاویزات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے 1959سے1963کے چار سالوں کے دوران کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو کو قتل کرنے کے 5مختلف منصوبے بنائے۔ یہ منصوبے 1977کی داخلی تحقیقاتی رپورٹ میں درج تھے، جنہیں اب آزادانہ طور پر دستیاب ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں شائع کیا گیا ہے۔

’دی پرنٹ‘ کے مطابق یہ تمام منصوبے ایک اندرونی تفتیش کے تحت ریکارڈ کیے گئے تھے، جسے سی آئی اے کے انسپکٹر جنرل جان ایئرمین نے 1977 میں مرتب کیا تھا، اور اب یہ دستاویزات آن لائن دستیاب ہوئیں ہیں۔

یہ منصوبے 1959 سے 1963 تک، یعنی کاسترو کے اقتدار کے ابتدائی برسوں کے دوران بنائے گئے۔ فیدل کاسترو کو قتل کرنے کے لیے بنائے گئے یہ منصوبہ انتہائی غیر واضح، بعض اوقات بے معنی اور غیر روایتی تھے۔ مثال کے طور پر فیدل کاسترو کو ایک ایسا ’ویٹ سوٹ‘(Wetsuit) تحفے کے طور پر دینا، جس میں زہریلا فنگس ڈالا گیا تھا، ایک بال پین کے اندر خفیہ ہائپو ڈرمک انجیکشن رکھنا، جس میں نیکوٹین پر مبنی کیڑے مار دوا(Black Leaf 40) بھری گئی تھی، بیکٹیریم بوٹولینس لگا سگار دینا، ایل ایس ڈی سپرے کرنے والا ویال دینا،شوگر فری سویٹنرز میں زہر ڈالنا، یا دیگر مشروبات کے ذریعے زہریلا مادہ فراہم کرنا وغیرہ ان حربوں میں شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق 22نومبر 1963کو پیرس میں ایک بال پوائنٹ قاتل کو حوالے کرنے کی تیاری تھی، یہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر جان ایف کینیڈی ٹیکساس میں قتل ہوئے تھے۔

ابتدا میں ان منصوبوں کو چلانے کے لیے بیرونی سب کنٹریکٹرز استعمال کیے گئے، جن میں پرائیویٹ انوسٹی گیٹر روبرٹ ماہیو بھی شامل تھے، جن کا تعلق منظم جرائم سے بھی تھا۔

منصوبے کے دیگر اہم کرداروں میں شکاگو کے گینگسٹرسلواتورے گائینسانا، سی آئی اے کے ویسٹرن ہیمی سفیئر آپریشن کے سربراہ جے سی کنگ، نائب ڈائریکٹر برائے منصوبہ جات جے سی بائیسل اور ٹیکنیکل ماہرین جیک اسٹرلین اور سڈنی گوٹلیب شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق زہریلی سویٹنر کی تیاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی نمونے مائع میں تحلیل نہیں ہوتے تھے۔ پہلے سوؤروں پر آزمائش میں موثر ثابت نہیں ہوئے، جس کے بعد پھر ماہرین نے بندروں پر کامیاب ٹیسٹ کیے۔

کاسترو کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل جان اورتا کو سویٹنر کی آڑ میں زہریلا ٹیبلٹ چائے میں شامل کرنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا، مگر انہوں نے 26 جنوری 1961کو عہدہ چھوڑ کر وینزویلا کے سفاتخانے میں پناہ لے لی۔ سی آئی اے نے ان کے اس عمل کو ’cold feet‘، یعنی خوفزدہ ہوجانا قرار دیا۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سی آئی اے نے امریکی شہریوں پر بغیر ان کی رضامندی کے ایل ایس ڈی کے تجربات کیے تھے۔ 29نومبر1963کے میمورنڈم میں درج تھا کہ مزید ’غیر شعوری ٹیسٹنگ‘ کے لیے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو ذاتی طور پر اجازت دینی ہوگی۔

اسی طرح، کتے، بلیاں اور خرگوش بھی ایل ایس ڈی کے تجربات میں شامل تھے۔ نفسیاتی اداروں میں رکھے گئے قیدیوں پر بھی یہ ٹیسٹ کیے گئے، جب کہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا۔

کوڈ نام آرٹیچوک کے نام سے ایک پروگرام کے تحت یورپ میں غیر رضامند افراد پر باربیچوریٹس (barbiturates) استعمال کیے گئے تھے، جس کا اعتراف سی آئی اے کے چیف کیمسٹ گٹلیب نے سینیٹ میں کیا تھا۔

انہوں نے سینیٹ میں کہا کہ”پیسے، محنت، سلامتی کے خطرات“سب ملا کر ہم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ یہ پروگرام”بہت زیادہ فائدے کا حامل نہیں تھا“۔

یہ انکشافات بتاتے ہیں کہ سی آئی اے کی کاستروکے خلاف مہم نہ صرف طاقت کے استعمال پر مبنی تھی بلکہ انتہائی منفرد، اوربعض اوقات انتہائی غیر معمولی حربے استعمال کرنے کی کوشش تھی۔اس طرح کی کارروائیاں اگرچہ کامیاب نہیں ہوئیں،مگر ان کے وجود نے خفیہ ایجنسی کے کام کرنے کے انداز، اخلاقی دائرہ کار اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت بحث کو جنم دیا ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ داخلی طور پر بھی سی آئی اے نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس نوعیت کے پروگراموں میں ’ریٹرن آن انویسٹمنٹ‘محدود تھا، یعنی اخراجات اور خطرات کے مقابلے نتائج کم تھے۔

اس کے علاوہ، امریکی شہریوں یا غیر ملکی افراد پر خفیہ ٹیسٹ کرنا، باہمی اعتماد اور قانون کے دائرے میں اہم سوال اٹھاتا ہے، خاص طور پر جب وہ افراد رضامند نہ ہوں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts