ثناء ِ محمد
مائیکروفنانس ایسی مالیاتی خدمت ہے ،جوچھوٹے قرضوں،انشورنس،سیونگ اکاؤنٹ،اور دوسری مالیاتی اشیاء کی پیشکش ایسے افراد یا چھوٹے کاروباروں کو کرتی ہے، جن کی پہنچ روایتی بینکوں تک نہیں ہوتی۔اسکی مشہوری پہلی بار1980میں معیشت کی گلوبل ساؤتھ کو منتقلی جیسے بڑے دعوؤں کے ساتھ کی گئی۔
ایسی خدمات کی تجاویز پیش کرنے والوں کا یہ دعویٰ تھا کہ ان مالیاتی خدمات کے ذریعے سے ایسی معیشتوں کو اور ان میں موجود کم آمدنی والی آبادی کو عالمی سرمایہ دارنہ مارکیٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس سے انکے لیے کمائی کے مواقعے پیدا ہوں گے،انکا معیار زندگی بلند ہو گا اوراس طرح سے دنیا سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مائیکروفنانس نے تدریجاًفن ٹیک یافنانشل ٹیکنالوجی کا روپ اختیار کیا ،جو عالمی غربت زدہ افراد کو مالیاتی خدمات مہیا کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کرتی ہیں۔بلیک چین،ڈیجیٹل پے منٹس،کرپٹووغیرکا شمار فن ٹیک میں ہوتا ہے۔ایزی پیسہ،روبن ہوڈ،پے پال،سدا پے اس کے نمایاں نام ہیں۔مائیکروفنانس اورفن ٹیک کوایک بڑی کامیابی کے طور پیش کیا گیا کہ اس طرح مالیاتی خدمات تک تمام لوگوں کی رسائی کو ممکن بنایا جائے گا ،جو پہلے محض چند لوگوں کی دسترس میں تھی۔یوں مالیاتی جمہوریت کو پروان چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔
محمد یونس ایک جعلی مسیحا
محمد یونس گرامین بینک کے بانی اور مہربان سرمایہ داری کا نیا چہرہ، جومائیکروفنانس کے تجویزکنندگان کے رہنماتھے۔ 1980میں ان کے نمایاں ہونے کے ساتھ انہیں ایسا مسیحا بنا کے پیش کیا گیا جو بنگلہ دیش کو غربت سے باہر نکالے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا اسی صورت ممکن ہے کہ غریبوں کو اس نام نہاد مائیکروفنانس کے ذریعے سرمایہ داری کا حصہ بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جتنے زیادہ لوگ سرمایہ درانہ مارکیٹ کا حصہ بنیں گے اتنے زیادہ لوگ اس سے فیضیاب ہوں گے۔یہاں یہ مفروضہ گڑھ لیا گیا تھا کہ سرمایہ داری کارگر ہے ۔گلوبل ساؤتھ کے ترقی پذیر ہونے اور غریب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں کی پہنچ سرمایہ داری اور اس کے جدید مالیاتی اوزاروں تک نہیں ہے۔انہوں نے اپنی کتاب کے اندر لکھا ہے کہ ’’اگر آپ غریبوں کے درمیان وقت گزاریں توآپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ اپنی محنت کے ثمرات پر قدرت نہیں رکھتے۔ اس کی آسان وجہ یہ ہے کہ انھیں اپنے سرمائے پر قدرت حاصل نہیں ہے۔غریب کسی اور کے لیے کام کرتے ہیں جو سرمائے کی ملکیت رکھتا ہے۔‘‘
محمد یونس کے مطابق استحصال زدگان کا طبقاتی استحصال سے بچنے کایہی طریقہ تھاکہ وہ سرمایہ دار بنیں۔جزوی نیشنلائزیشن یا انقلاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سرمایہ داری کے لیے خوش آئند ہے کہ وہ سماجی خدمات کے شعبوں کی مزیدنجکاری کرتے ہوئے سوشل انٹرپرائزز اور مائیکروفنانس کو متعارف کروائے۔ان خدمات کے اعزاز میں انہیں 2006 میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔تاہم اس کے کچھ ہی عرصے بعد یہ بلبلہ پھٹ گیا اور مائیکروفنانس غریبوں کی زندگی میں کوئی موثر تبدیلی لانے میں ناکام رہا۔
گرامین بینک
چلیں محمد یونس کی اپنی سوشل انٹرپرائز ’’گرامین بینک‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔گرامین بینک کی بنیاد سٹی بینک انڈیا کے اشتراک سے رکھی گئی،جو سماج کے محروم طبقات کو چھوٹے قرضوں کی پیشکش کرتا تھا۔ یہ انسانی بھلائی کے لیے تھااور اس کا مقصد منافع کمانا نہیں تھا۔اس انسان دوستی کے منصوبے کے سائے تلے گرامین بینک نے ارب پتی کارپوریشن ڈانن کے اشتراک سے دہی سے موبائل فون تک سب کچھ بیچا(منافعے کے لیے)اوریو ایس ایڈ،روکفیلر فاؤنڈیشن اورورلڈ بینک جیسے اداروں سے اس کے نام پر امداد بھی حاصل کی۔
محمد یونس کے انسان دوست منصوبوں نے انہیں اور ان جیسے سی ای اوز کو تو دولت مند بنا دیا مگر وہ تمام لوگ امارت سے محروم رہے جنہوں نے انھیں یہ سب کرنے کی طاقت عنایت کی۔جنوری 2007میں فوجی اشرافیہ کی طرف سے انہیں نگراں حکومت کے لیے مدعو کیاگیا، اور یوں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔2011میں محمد یونس کو غبن کے الزامات کے زیر اثر گرامین بینک کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا گیا۔
مہربان (انسان دوست)سرمایہ داری اور سماجی کاروبار
محمد یونس اپنی کتاب’’غربت کے بغیر دنیا کی تخلیق،سماجی کاروبار اور سرمایہ داری کا مستقبل‘‘میں مہربان سرمایہ داری اور سوشل انٹرپرائزز کی وکالت کرتے ہیں۔ سوشل انٹرپرائززکو چاہیے کہ وہ اپنے منافعے کا کچھ حصہ غریبوں کو دان کریں یا ایسے سماجی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں جنہیں حل کرنا لازمی ہو۔مثال کے طور صحت اور تعلیم کی منصوبہ بندی اور انشورنس یہاں تک کے ری سائیکلنگ تک میں یہ سماجی انٹرپرائزز کاروبار کر رہی ہیں ،جو اس سے پہلے پبلک سیکٹر کے ذریعے سرانجام دیے جاتے تھے۔ محمد یونس کہتے ہیں کہ چونکہ ریاست ان خدمات کو مہیاکرنے میں ناکام ہوئی ہے، اس لیے رحم دل سرمایہ کاروں کو اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
محمد یونس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کمپنیاں آپس میں مقابلہ بازی کریں گی مگر یہ مقابلہ بازی مزدوروں کے استحصال پر مبنی نہیں ہو گی،(پھر اور کیا طریقہ کار ہو گا جو قیمتوں میں کمی کا موجب بنے گا؟)بلکہ یہ خدمت اور تعظیم کے لیے مقابلہ ہوگا۔یہ ایک اچھا خیال ہے مگر کمپنیاں پرہیزگاری اور منافع کے حصول جیسے دو متصاد مقاصد لے کر اپنے انتظامات کیسے چلائیں گی؟ اس بارے وہ کچھ نہیں کہتے۔ایسے خیالات مہربان سرمایہ داری کی وکالت کرنیوالوں کے لیے خوش کن نہیں ہیں کہ غریبوں کو امداد کے نام پر بھیک کے لیے حصہ دینے کی بجائے انہیں اتنی تنخواہ دی جائے کہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں تاکہ غربت میں مزید اضافہ نہ ہو۔
منافع کے حصول کے لیے استحصال کرنے والے سرمایہ کاروں کو سماجی کاروباری کہنا ایک غالب رجحان ہے۔کسی طرح کا مشکل سوال پوچھنے کی چنداں ضرورت نہیں جیسے کہ غربت کی اصل وجہ کیا ہے؟نہ ان ناپائیدار سدابہار ترقی کے خوابوں پرمبنی ماڈلز پر سوال اٹھانے کی کوئی گنجائش موجودہے ،جو غربت کو جنم دیتے ہیں اور مسلسل اس نا ہمواری اوراستحصال پر انحصار کرنے پہ مجبورکرتے ہیں۔دولت کی از سرنو تقسیم کی بات کرنا یا200 سالہ نوآبادکاری کے اس خون خرابے اور لوٹ مار پر مبنی دور کا ذکر جس نے اس زمین کو برباد کر کے رکھ دیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کے قحط کا ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ورلڈ بینک اورآئی ایم ایف کی ان پالیسوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، جنہوں نے پوری قوم کو قرضوں کے جال میں جکڑا اور ترقی پذیر رکھا۔ محمد یونس بلکہ ایک انتہائی سطحی اور عارضی حل کی تلقین کرتے ہیں کہ چھوٹے قرضے ہی غربت سے نکلنے کا بہترین راستہ ہیں۔
تاریخی تناظر میں سویت یونین کے انہدام کے بعد نجکاری
سویت یونین کے انہدام کے بعد ترقی پذیر ممالک میں نجکاری کے عمل میں بڑا اضافہ کرتے ہوئے پہلے سے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے اداروں کو نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا آغاز کیا گیا۔مستقبل میں نجکاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ذریعے لبرلائزیشن کی پالیسیوں کے تحت منافع پر مبنی منصوبوں کو متعارف کروایا گیا۔
آئی ایم ایف کے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کی مداخلت سے پبلک سیکٹر،چھوٹے کسانوں اور تعلیمی اداروں کو ملنے والی سبسیڈیز میں کٹوتیاں کی گئیں۔80 کی دہائی میں سٹرکچرل پروگراموں کے ذریعے چھوٹے کسانوں کو ملنے والی سبسیڈیز کا خاتمہ کیا گیا۔جس سے ان چھوٹے زمین مالکان کے لیے کاشتکاری کے عمل کو جاری رکھنااور زندہ رہنا ناممکن ہو گیا۔ ایسے میں ان مائیکروفنانس کی تنظیموں نے ان کسانوں میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔
ایساخطہ جس نے کچھ ہی سال قبل ایک بڑے قحط کا سامنا کیا ہو،وہاں پر یہ کسی وحشت سے کم نہیں تھا۔مائیکروفنانس کا یہ کاروبار 90 کی دہائی میں برق رفتاری سے اس وقت آگے بڑھا،جب ورلڈ بینک،آئی ایم ایف اور عالمی امداد کی تنظیموں ،جیسے کہ روکفیلر،یو ایس ایڈ اورتھینک گیٹ فاؤنڈیشن، نے مشترکہ طور پر ترقی پذیر ممالک میں اس کو پروان چڑھایا۔یہ سب کسی قسم کے خلوص کی بنیاد پر نہیں کیاگیا بلکہ اس سب کے ذریعے مائیکروفنانس کے کاروبار پر مغربی اجارہ قائم کیا گیا۔فلاح وبہبود پر مبنی ریاستوں کو کمزور کیا گیا۔غربت زدہ افراد کوغربت سے نکالنے جیسے پروپیگنڈے کے نیچے اس واردات کو انتہائی ہوشیاری سے چھپایا گیا۔در حقیقت مائیکروفنانس اور مہربان سرمایہ داری بنگلہ دیش اور باقی ماندہ ترقی پذیر دنیا سے سرمایہ داری کی تباہ کن ناکامیوں کویکسر مٹا دینے کی مذموم کوشش تھی۔نجکاری کی تباہی کے باعث وسیع تر آبادی بنیادی ضروریات سے پہلے ہی محروم ہو چکی تھی، اسے مزید ہوا دیتے ہوئے عوام کا خون نچوڑنے اور استحصال کرنے کی ہموار کی گئی۔ محدود مثالیں ہیں ، لیکن جب حکومتوں نے ایسی وارداتوں کے خلاف مزاحمت کی،توانھیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ایسی حکومتوں کے خلاف عوام دشمن ہونے کا بیانیہ تخلیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ کسی قوم کی خود مختاری اسے یہ حق نہیں دیتی کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کوعالمی مارکیٹ تک رسائی اور وہاں موجود لوگوں کی فلاح و بہبود سے باز رکھے۔ایسے میں محمد یونس جیسے افراد کو استحصال کی اس نئی ایجاد کو متعارف کروانے کے لیے لایا گیا۔
مائیکروفنانس کیسے کام کرتا ہے؟
مائیکروفنانس مالیاتی نظام میں شمولیت کا لیبل لگا کر غریبوں کو سامراجی سرمایہ کاروں کا گاہک بناتے ہوئے اپنے آپ کو پھیلاتا ہے۔مغربی سرمایہ کاروں کے منافعوں میں شاندار اضافے کا باعث بنتا ہے اور لوگوں کو مزید کسمپرسی میں دھکیلتا چلا جاتا ہے۔مائیکرو فنانس روزمرہ امور کے لیے رقوم فراہم کر کے سرمایہ دارنہ مارکیٹ کو پھیلاتا ہے ۔یہاں تک کہ غیر اہم کاموں کے ذریعے بھی اپنے شراکت داروں کے لیے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں۔مائیکروفنانس صرف عام لوگوں کے لیے کام نہیں کرتا۔معیشت دان ملفورڈ بیٹمین کہتے ہیں کہ’’جب یہ نجی فن ٹیک کمپنیاں گاہکوں کی بہتر بنیاد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں یا اجارہ قائم کر لیتی ہیں ،جو ان ڈیٹا پر مبنی توسیع پسند کاروباری ماڈلز کی حتمی منزل ہے تو صورت حال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘
قرض کی واپسی
مائیکرو فنانس کی تنظیمیں 02 سے 05فیصد شرح سود پر قرض دیتی ہیں اور جلد ادائیگی کا مطالبہ کرتی ہیں۔یہاں تک کہ سانحہ یا آفت کی صورت میں بھی صارفین پر قرضوں کی واپسی کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔جیسے کہ سائیکلون سیڈ کے دوران دیکھا گیا،جب قرض دہندگان کو طوفان کی زد میں آئے ہفتہ ہوا تھاکہ ان سے ادائیگیوں کے لیے مطالبہ کیا جانے لگا۔پاکستان میں 42سالا محمد مسعود نے قرض خواہوں کی طرف سے اپنی بیوی کو دی جانے والی دھمکیوں سے تنگ آ کر خود کشی کی۔مسعود نے اپنے گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لیے ابتدائی طور ایک آن لائن اپلیکیشن سے 13 ہزار روپے کا قرضہ لیا تھا،جس پر شرح سود بڑھتے بڑھتے وہ رقم 7لاکھ تک پہنچ گئی جس کی ادائیگی اس کے لیے ناممکن ہو گئی تھی۔مائیکروفنانس بینک آئی ایم ایف کی طرح کام کرتے ہیں۔کسی آفت یا ضرورت کے وقت امداد کے نام پر قابل واپسی قرض دیا جاتا ہے ،جس کی سرمایہ داری حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان آفتوں کے دوران خیرسگالی کے تحت دیے گئے قرضوں پر یہ سوشل انٹرپرائزز منافع کماتی ہیں۔زیادہ تر قرض دہندگان اضافی آمدن کا بندوبست کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ قرضوں کی ادائیگی کر سکیں ۔ایسے میں انھیں پہلے سے موجود اثاثوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، اورکثر وہ اپنی زمینیں،مال مویشی بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ انکی بچیوں کو جسم فروشی پر مجبور ہونا پڑتا ہے ،تاکہ وہ قرض خواہوں کا پیٹ بھر سکیں۔
مالیاتی غلبہ اور صارفیت چھوٹے قرضوں کی صورت میں جو رقوم فراہم ہوتی ہیں ،وہ گزارے لائق کاروباروں کو معمولی سا سہارا دینے سے بڑھ کر کسی کمیونٹی کی فلاح بہبود میں خاطرخواہ اثرات مرتب نہیں کر سکتیں۔اسے چھوٹے کاروباروں میں سرمایہ کاری کی بجائے صارفیت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مائیکرو فنانس کی تشہیر مقامی آبادیوں میں انہی بد نیت اجارہ دار مائیکروانٹرپرائزز،جو ان کمپنیوں کی ملکیت رکھتی ہیں، کی طرف سے کی جاتی ہے ۔یہ انتہائی مجرمانہ انداز میں ان چھوٹے قرضوں کے ذریعے اپنی صارفیت بڑھاتے ہوئے اپنی مصنوعات کو گلوبل ساؤتھ میں درآمد کرتے ہیں۔اپنی مصنوعات کو چھوٹے قصبوں اور گاؤں کی سطح تک متعارف کروایا جاتاہے ،جن کو اول تو ان کی ضرورت ہی نہیں ہوتی یا وہ انھیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ۔تاہم اس تشہیر ی مہم کے باعث بہت سے لوگ اپنے آپ کو موبائل فون جیسی مصنوعات خرید کر قرضوں کے بوجھ تلے دفنا دیتے ہیں۔
خواب و سراب
جب کوئی انٹرپرائز ہزار لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہو جاتی ہے توسرمایہ داری کے لیے ایک بھرپور تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔ایسے بینکوں کی طرف سے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں ایسے چھوٹے کاروباری لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے ،اور انہیں بہترین کاروباری یا خواتین کو بااختیار بنانے جیسے اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔یہ پروپیگنڈہ ایسے لوگوں سے جھوٹ بولتا جنہوں نے ابھی قرض لینے کا تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔ یہ ایک ایسا ابہام پیدا کرتا ہے جیسے معاشی خود اختیاری اور آزادی بس ایک چھوٹے قرضے کی دوری پر ہواور اپنی کامیابی اور ناکامی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہو۔اور اسطرح اس نظام کی جڑوں میں پیوست تفریق اور عدم توازن کو یکسر رد کردیا جاتا ہے ،جوکچھ کو اجازت دیتی ہے کہ وہ کامیاب ہوں اور کچھ کو برباد کر دیتی ہے۔
غربت کو برقرار رکھنا
بہت سے لوگ اس لیے قرض لیتے ہیں کہ وہ اگلی تنخواہ ملنے تک اپنا گزارا کر سکیں۔یہ عمل ان مائیکروفنانس بینکوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ براہ راست قرض دہندگان کی اگلی تنخواہ سے وصولی کر سکیں۔اس طرح چھوٹے قرض دینے والے ادارے نادہندگانی کے خطرات سے مکمل طور محفوظ رہتے ہیں ۔انکی رسائی براہ راست قرض دہندگان کی تنخواہ تک ہوتی ہے ،جس پر وہ بعض اوقات 50 فیصد سے زیادہ شرح سود لیتے ہیں۔اسطرح محنت کشوں کی فاضل محنت کے استحصال کے ساتھ ایک مالیاتی اوزار تخلیق کیا گیا ہے جو انکی کسمپرسی سے بھی منافع کماتا ہے۔چھوٹے قرضے انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس اذیت ناک نوکری کو جاری رکھیں اور نا کافی تنخواہ پر استحصال کا شکار ہوتے رہیں۔اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے مزید قرض لیں جس پر ان سے مزید شرح سود لیا جاتا رہے اور اس طرح انہیں پوری طرح غلام بنا لیا جائے۔محنت کشوں کی محنت کا بڑا حصہ جس سے انہیں محروم کیا جاتا ہے ،اس سے ابھرنے والے تضادات کوان چھوٹے قرضوں اور مالیاتی مداخلت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یوں کم آمدن والے افراد کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض دیا جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اپنی ہی مصنوعات خریدنے کے لیے انہیں قرضے دیے جاتے ہیں ،ساتھ ہی ساتھ انھیں کم تر تنخواہ پہ اپنی نوکری جاری رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے۔یوں ان بینکوں کے انسان دوست اور سماجی بیرونی سرمایہ کار محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی سے غربت زدہ افراد کو غربت سے نکالنے کی بھونڈی بکواس کے ذریعے اچھا خاصہ حصہ بٹورتے ہیں۔
ڈیٹا پر اجاراداری
ان فن ٹیک اور مائیکروفنانس بینکوں کے پاس بڑے پیمانے کا منافع کمانے کاایک اور طریقہ ہے،جس میں یہ اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معلومات کے بڑے ذخیرے تک رسائی حاصل کرتے ہیں، اور وسیع تر معلومات کی حامل ’ڈیٹا مونوپولی‘(ڈیٹا پراجارہ داری )کا روپ اختیار کرلیتے ہیں۔اس معلومات کو پھر ایسی ترقی و تحقیق پر کام کرنے والی کارپوریشنز کو بیچا جاتا ہے ،جوایسی مصنوعات کی فروخت کے لیے کی جانی والی تشہیری مہم چلانے کے لیے ثقافت اور صارفیت کی نفسیات کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کرتی ہیں۔جیسے ہم نے کیمریج کے تجزیاتی سکینڈل کے اندر دیکھاکہ کیسے ایسی معلومات سیاسی پارٹیوں کو بیچی جاتی ہیں ،جس سے وہ نہ صرف انتخابات کی تشہیری مہم چلانے میں مدد لیتی ہیں ،بلکہ انتخابات کے نتائج میں بھی ردو بدل کرتی ہیں۔
غربت مکاؤ مہم اور امیروں کے لیے ٹیکس چھوٹ
ان میں سے بیشتر منافع خور مائیکرو کریڈٹ بینک این جی اوز ،یعنی غیر منافع بخش ادارے ،ہونے کے دعویدار ہیں اوراپنے آپ کو غربت ختم کرنے ،اور خواتین کو خود اختیار بنانے والا ظاہر کرتے ہیں۔انہیں دیگر عالمی غیر منافع بخش فاؤنڈیشنوں کی مدد حاصل ہوتی ہے ،جیسا کہ گیٹس فاؤنڈیشن وغیرہ ،جو اپنے صارفین کو یہ خدمت فراہم کرتی ہیں کہ وہ تیسری دنیا کو براہ راست امداد فراہم کریں ،جس کے ذریعے اپنے لیے ٹیکس سے استثناء حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بھیجی گئی رقوم میں سے بھی 5 فیصد سے لے کر20 فیصد تک حصہ وصول کرتی ہیں۔گیٹس فاونڈیشن اپنی فن ٹیک کے ذریعے سے امدادی رقوم کی ترسیل کرتی ہے، اس پر فیس وصول کرتی ہے اور اپنے کاروباری منصوبوں کے لیے ٹیکس چھوٹ بھی حاصل کرتی ہے۔
مہربان یا انسان دوست سرمایہ داری
اس حقیقت کو انتہائی مکاری سے غربت مٹاؤ منصوبوں تلے چھپا کر ارب پتیوں کے لیے اربوں روپے بنائے جاتے ہیں، انھیں ٹیکسوں میں چھوٹ یا استثناء دلوایا جاتاہے، اور یوں افتادگان خاک کو مزید دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔
مائیکرو فنانس دراصل سرمایہ داری کی حد درجہ لالچی اور درندہ صفت فطرت کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک چیلنج بھی ہے جو انسان دوست سرمایہ داری کے قائل ہیں۔ کیا ایسا نظام واقعی کبھی انسان دوست ہو سکتا ہے؟ ایسا نظام جو نہ صرف غربت، عدم مساوات اور محرومی پیدا کرتا ہے، بلکہ انہیں برقرار رکھتا ہے، انہیں مضبوط بناتا ہے اور پھر انہی سے منافع کماتا ہے؟ غیر منافع بخش فاؤنڈیشنز سے لے کر غربت مٹانے کے پروگراموں، مالی شمولیت کی باتوں، نوبیل انعامات، کاروباری اعزازات اور ان چند مائیکروفنانس منصوبوں کی تشہیر تک ، جو کسی طرح کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ سب ایک شاندار مگر منظم دھوکہ ہے۔
ایک ایسا دھوکہ جس میں ہر ہتھیار کا مقصد دولت کی واپسی اور سامراجی مرکز کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصو ل ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ اجاراداریاں کسی کے لیے کچھ باقی نہیں چھوڑتیں۔
برازیل: فن ٹیک کی ریاستی ملکیت کا مقدمہ
مائیکرو فنانس صرف اس صورت میں حقیقی طور پر مزدور طبقے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے ،جب یہ عوامی ملکیت، جمہوری کنٹرول اور مقامی انتظام کے تحت چلائی جائے ، یعنی جب منافع کمانے کا مقصد ختم کر دیا جائے۔
اس کی بہترین مثال برازیل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صدر لولا دا سلوا کی جماعت ورکرز پارٹی کے زیر انتظام شہر ماریکا ان پالیسیوں کے لیے زیادہ سازگار ہے جو غربت کے خاتمے اور غریب عوام کی فلاح کے لیے بنائی گئی ہیں، بجائے ان اقدامات کے جو زیادہ تر امیروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔مزید یہ کہ ماریکا کو برازیل کی آف شور تیل و گیس صنعت سے حاصل ہونے والی رائلٹی کی قابل ذکر آمدنی بھی میسر ہے، جو ان بلدیاتی علاقوں میں تقسیم کی جاتی ہے جو ان سرگرمیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
اسی تناظر میں ماریکا کا کمیونٹی بینک ، بانکو مومبوکا، ایک فن ٹیک پلیٹ فارم کے ذریعے مقامی کرنسی مومبوکا میں مشروط بنیادی آمدنی کا نظام چلاتا ہے۔
یہ نظام روایتی مالیاتی ثالثوں جیسے ویزا ، ماسٹر کارڈ اور پے پال کو مکمل طور پر بائی پاس کرتا ہے، اور اس طرح کمیونٹی کو یہ فائدہ دیتا ہے کہ امداد یا تنخواہ وصول کرنے والے افراد کو بغیر کسی فیس کے پوری رقم ملتی ہے۔
مزید برآں جب لوگ موبائل فون کے ذریعے مقامی ادائیگیوں کو ترجیح دیتے ہیں ،تو ماریکا کی بلدیہ کے انتظامی اخراجات میں بچت ہوتی ہے، اور یہ بچت دوبارہ مقامی کاروباروں اور صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔
یہ ماڈل نجی اور منافع خوری پر مبنی فن ٹیک پلیٹ فارمز کے برعکس ہے۔ ماریکا کا طریقہ کار عوامی فلاح، مقامی ترقی اور سماجی انصاف کو ترجیح دیتا ہے ، نہ کہ سرمایہ کاروں کے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنے کو۔
نتیجہ
مائیکرو فنانس اور فن ٹیک کے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور مالیاتی خدمات کو جمہوری بنانے کے تمام تر وعدے تضادات اور خامیوں سے اٹے پڑے ہیں۔جیسے پہلے اسے معیشت میں شمولیت کا اوزار کہا گیا ہے۔یہ پروگرام سماج میں پہلے سے موجود تفریق کا کوئی حل پیش کرنے کی بجائے اسے مزید گہرا کرتے ہیں۔فن ٹیک کی کمرشلائزیشن اورنجکاری کا مقصد منافع کا حصول ہے ،جس سے غربت اور استحصال کو برقرار رکھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔برازیل میں ماریکا کی صورت بہت محدود ہی سہی مگر متبادل کی رمق ملتی ہے۔مقامی عوامی ملکیت میں کام کرنے والا ماڈل ،جو سرمایہ کاروں کے منافع پر عوامی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔یہ اقدام برابری پہ مبنی اور زیادہ بہتر حل پیش کر سکتا ہے۔تاہم سرمایہ داری میں اسکی بھی حدود ہیں۔یہ ہمیں واپس اس بنیادی سوال کی طرف لے جاتا ہے کہ غربت کاوجود ہی کیوں ہے؟ اور امداد کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ مہربان اور انسان دوست سرمایہ داری حقیقی سرمایہ دارنہ بدصورت اور شیطانی وحشی چہرے کی ساکھ بحال کرنے کی بھونڈی اور غلیظ کوشش ہے۔یہ نظام جو مزدوروں کا خون پیتا ہے،عورت کی عظمت،دریدہ دل محبت کرنے والوں اور معصوم کم عمر بچوں کی محنت پر پلتا ہے۔ یہ وہ وحشی درندہ ہے جو ہمارے دریاؤں اور جنگلوں کو برباد کرتاہے ،ہمارے پیاروں کو ہم سے ہزاروں میل دور رہنے پر مجبور کرتا ہے،یہ ہماری امیدوں اور خوابوں کا شکار کرتا ہے ،اور ہماری طرف جھوٹے مسیحا بھیجتا ہے جو ہمیں جھوٹے خواب دیکھاتے ہیں۔ان جھوٹے مسیحاؤں پر فیاضانہ نوازشات کی دلکشی ہمیں اپنا رخ بدلنے پر مجبور کرتی ہے ،کچھ تو ان سرابوں کا پیچھے کرتے اپنی زندگیاں گنوا دیتے ہیں۔سرمایہ دارنہ وحشت کو اب کسی نقاب کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ اس کے مکمل خاتمے کی ضرورت ہے ۔ہمیں ان جھوٹے مسیحاؤں اور وعدوں کوسمجھتے ہوئے ان کے ہاتھوں بیوقوف بننے سے انکار کرنا ہو گا۔ہم امن و محبت والی دنیا کی امنگ رکھتے ہیں۔ہماری سوشلسٹ انقلاب سے پہلے کوئی منزل نہیں ہے۔
