لاہور(جدوجہد رپورٹ)دنیا کے امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک دن میں اتنی کاربن آلودگی پیدا کرتے ہیں جتنی دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی پورے سال میں بھی پیدا نہیں کرتی۔ آکسفیم کی نئی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ دولت مند طبقے کے انتہائی پرتعیش طرزِ زندگی نے کرۂ ارض کے کاربن بجٹ کو خطرناک حد تک کم کر دیا ہے ، یعنی وہ حد جس کے اندر رہ کر انسانیت موسمیاتی تباہی سے بچ سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 1990 سے اب تک امیر ترین 0.1 فیصد نے عالمی کاربن اخراج میں اپنے حصے میں 32 فیصد اضافہ کیا ہے، جب کہ دنیا کی غریب ترین نصف آبادی کے اخراج میں 3 فیصد کمی آئی ہے۔ اگر ہر شخص اتنی ہی مقدار میں کاربن خارج کرے جتنی امیر ترین 0.1 فیصد کرتا ہے، تو کرۂ ارض کا محفوظ کاربن بجٹ صرف تین ہفتوں میں ختم ہو جائے گا۔
تحقیق کے مطابق اگر دنیا کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے حدف کے اندر رکھنا ہے تو امیر ترین 0.1 فیصد کو 2030 تک اپنی فی کس کاربن اخراج میں 99 فیصد کمی کرنا ہوگی۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اس طبقے کا ہر فرد روزانہ اوسطاً 800 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے ، یہ اتنا وزن ہے جسے دنیا کا طاقتور ترین شخص بھی اٹھا نہیں سکتا۔ اس کے برعکس غریب ترین نصف انسانیت کا اوسط اخراج صرف 2 کلوگرام روزانہ ہے، جو ایک چھوٹا بچہ بھی باآسانی اٹھا سکتا ہے۔
امراء کی آلودگی، غریبوں کا بوجھ
بیلیم، برازیل میں ہونے والی COP30 موسمیاتی کانفرنس سے قبل آکسفیم کی رپورٹ’’کلائمیٹ پلنڈر: ہاؤ اے پاورفل فیو آر لاکنگ دی ورلڈ ان ٹو ڈیزاسٹر‘‘نے خبردار کیا ہے کہ امراء کا آلودہ طرززندگی دنیا کو تباہی کی راہ پر ڈال رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارب پتی افراد نہ صرف خود کاربن کا بے تحاشا استعمال کر رہے ہیں بلکہ وہ سب سے زیادہ آلودہ صنعتوں ، تیل، گیس اور کان کنی ، میں سرمایہ کاری کرکے منافع بھی کما رہے ہیں۔
آکسفیم کے مطابق ایک اوسط ارب پتی اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے سالانہ 19 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ یہ اخراج اس کے برابر ہے جیسے کوئی شخص نجی جیٹ میں دنیا کا 10ہزار مرتبہ چکر لگائے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 60 فیصد ارب پتی سرمایہ کاری ان شعبوں میں ہے جو ماحول پر سب سے زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ ان سرمایہ کاریوں سے پیدا ہونے والی آلودگی ایک اوسط سرمایہ کاری سے 2.5 گنا زیادہ ہے۔ صرف 308 ارب پتیوں کے سرمایہ کاری پورٹ فولیو سے ہونے والا کاربن اخراج 118 ممالک کے مجموعی اخراج سے زیادہ ہے۔
آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کے مطابق ’’موسمیاتی بحران دراصل عدم مساوات کا بحران ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد موسمیاتی تباہی سے منافع کما رہے ہیں، جب کہ باقی انسانیت ان کے طرززندگی کی قیمت اپنی جانوں اور مستقبل سے چکا رہی ہے۔‘‘
پالیسی پر امراء کا قبضہ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتہائی امیر افراد اور کارپوریشنز اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل پر عالمی پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پچھلی موسمیاتی کانفرنس COP29 میں کوئلے، تیل اور گیس سے وابستہ 1ہزار773 لابیسٹ شریک ہوئے ۔ یہ تعداد دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار 10 ممالک کے مندوبین سے بھی زیادہ تھی۔
مزید کہا گیا ہے کہ کئی امیر ممالک ، خصوصاً امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ، نے طاقتور کارپوریٹ ڈونرز کے دباؤ پر ماحولیاتی قوانین کو نرم یا موخر کیا۔
امیتابھ بہار کے مطابق’’یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ دنیا کی طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی ہے جو اسے صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ لابیسٹوں کو فنڈ دیتا ہے، ماحولیاتی حقائق مسخ کرتا ہے، اور ان این جی اوز یا حکومتوں کے خلاف مقدمے دائر کرتا ہے جو ان کے راستے میں کھڑی ہوں۔‘‘
انسانی جانیں اور معاشی نقصان
رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین 1 فیصد کا موجودہ کاربن اخراج اس صدی کے اختتام تک 13 لاکھ حرارت سے متعلق اموات کا باعث بن سکتا ہے، جب کہ 2050 تک 44 ٹریلین ڈالر کا معاشی نقصان غریب اور نچلے درمیانی آمدنی والے ممالک کو برداشت کرنا پڑے گا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں سب سے کم کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر عالمی جنوب کے ممالک، خواتین، لڑکیاں اور مقامی و دیہی برادریاں۔
عالمی مطالبات
آکسفیم نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امیر ترین طبقے کے اخراج میں کمی اور ان کی دولت پر ٹیکس عائد کریں تاکہ موسمیاتی انصاف کو ممکن بنایا جا سکے۔ رپورٹ میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ امیر ترین 1 فیصد پر 60 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے جس سے کاربن اخراج میں اتنی کمی ممکن ہے جتنی برطانیہ کے سالانہ اخراج کے برابر، اور ساتھ ہی 6.4 ٹریلین ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔فوسل فیول کارپوریشنز کو موسمیاتی مذاکرات سے باہر رکھا جائے، تاکہ وہ پالیسی پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔سول سوسائٹی اور مقامی کمیونٹیز کی نمائندگی بڑھائی جائے تاکہ متاثرہ گروہوں کی آواز فیصلہ سازی میں شامل ہو۔ایک برابر مواقع پر مبنی معاشی نظام تشکیل دیا جائے جو دولت کی بجائے انسانی و ماحولیاتی فلاح کو ترجیح دے۔
رپورٹ یاد دلاتی ہے کہ پیرس معاہدے (2015) کے بعد گزرنے والے 10 برسوں میں دنیا کے امیر ترین 1 فیصد نے اتنا کاربن خارج کیا ہے جو غریب ترین آدھی انسانیت کے مجموعی اخراج سے دو گنا زیادہ ہے۔
آکسفیم کے مطابق اگر عالمی برادری نے دولت مند طبقے کے سیاسی اور معاشی تسلط کو محدود نہ کیا تو زمین کا ماحولیاتی مستقبل صرف چند ہاتھوں کے مفاد کی نذر ہو جائے گا۔
امیتابھ بہار کے مطابق’’ہمیں ضرورت ہے کہ امیر ترین طبقے کی طاقتور گرفت کو توڑا جائے، ان کی دولت پر ٹیکس لگایا جائے، ان کے لابنگ نیٹ ورکس پر پابندی ہو، اور موسمیاتی فیصلوں میں ان لوگوں کو جگہ دی جائے جو اس بحران کا اصل بوجھ اٹھا رہے ہیں۔‘‘
