نقطہ نظر

فلسطین میں جنگ بندی اور ٹرمپ کے منصوبے پر فورتھ انٹرنیشنل کا بیان

لاہور(جدوجہد رپورٹ)فورتھ انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو بیورو کی جانب سے فلسطین میں جنگ بندی اور ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے ایک تفصیلی بیان جاری کیا گیا ہے، جس کا اردوترجمہ درج ذیل ہے:

ٹرمپ پلان پر دستخط اور اس کے ابتدائی نفاذ نے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔یہ منصوبہ دراصل نوآبادیاتی اور نسلی تطہیر کی پالیسیوں کا ایک نیا تسلسل ہے، اگرچہ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ اسی لیے فلسطین کی آزادی کی عالمی تحریک کو جاری رکھنا ناگزیر ہے۔

اس منصوبے کے تجزیے کے حوالے سے دو انتہاؤں سے بچنا ضروری ہے۔پہلی انتہا یہ ہے کہ صورت حال پر انتہائی مایوس کن تنقید کی جائے ، کہ فلسطینی دستخط کنندگان غدار ہیں اور یہ منصوبہ نسل کشی کا سیدھا تسلسل ہے۔دوسری انتہا اس کے برعکس ہے کہ جنگ بندی کو ایک ناقابل شکست مزاحمت کی کامیابی سمجھا جائے جو ایک نئے جوابی حملے کے دور کا آغاز کرے گی۔

حقیقت فی الحال ان دونوں کے درمیان ہے۔ٹرمپ کا منصوبہ ایک نوآبادیاتی سوچ پر مبنی ہے، یہ فلسطینی عوام کے نقط نظر سے طاقت کے منفی توازن کو تسلیم کرتا ہے، اور ان کی مزاحمت کی صلاحیت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔تاہم جنگ بندی، اگرچہ یہ نوآبادیاتی پھیلاؤ اور نسلی تطہیر کو جاری رکھتی ہے، پھر بھی جدوجہد کو ازسرنو منظم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے ۔ ایک ایسی جدوجہد جو صرف اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ نسل کشی پر مبنی صیہونی ریاست سے کسی بھی قسم کی سازباز کو مسترد کرے اور عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی روایت کو زندہ کرے۔

ٹرمپ پلان

ٹرمپ کے منصوبے کے 20 نکات درج ذیل ہیں:

1)۔ڈی ملٹرائزیشن( یعنی ایک ایسا علاقہ جو ’انتہاپسندی اور دہشت گردی سے پاک‘ ہو۔)
2)۔ نوآبادیاتی غلبے کے تحت تعمیر نو( غزہ کو’دوبارہ ترقی یافتہ‘ کیا جائے گا۔)
3)۔ لڑائی کا خاتمہ اور جنگ بندی لائن کا قیام۔
4اور5)۔قیدیوں کا تبادلہ ( 48’یرغمالیوں‘ (زندہ یا مردہ) کے بدلے 250 فلسطینی قیدی جو عمر قید بھگت رہے ہیں، اور 7 اکتوبر 2023 سے زیر حراست 1,700 افراد کی رہائی)۔
6)۔ ان حماس ارکان کے لیے عام معافی جو مسلح جدوجہد ترک کر دیں۔
7 اور8)۔ انسانی امداد کی آمد، ہنگامی ڈھانچوں کی بحالی، رفاہ سرحدی گزرگاہ کو دو طرفہ کھولنا،اور
12)۔فلسطینیوں کے لیے قیام، نقل مکانی یا واپسی کی آزادی۔
9)۔ ایک عارضی عبوری اتھارٹی کا قیام ، ایک ’تکنیکی اور غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی‘ جو ایک غیر ملکی کونسل کے زیر انتظام ہوگی، جس کی قیادت سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو سونپنے کی تجویز ہے۔ یہ کونسل مالیاتی انتظامات اور تعمیر نو کے کام کو منظم کرے گی۔
10اور11)۔خصوصی اقتصادی زون کا قیام، جس میں’ترجیحی کسٹم ڈیوٹیز‘ہوں گی۔
13)۔حماس اور دیگر دھڑوں کے لیے شرط کہ وہ غزہ کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔تمام عسکری انفراسٹرکچر (بشمول سرنگوں) کو تباہ کیا جائے گا۔
15)۔ عارضی بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی، جس میں امریکہ اور عرب ممالک شامل ہوں گے۔

ٹرمپ کا مقصد ایک ایسے فوجی توازن کو قائم کرنا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے سیاسی و معاشی تسلط کو مزید مضبوط کرے۔یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، ٹرمپ کے بدنام زمانہ منصوبے غزہ کو ایک ’ریویرا‘(سیاحتی جنت) میں تبدیل کرنے کے ہیں، اور اسرائیل کی طرف سے ایران، قطر، لبنان، شام اور یمن سمیت پڑوسی ممالک پر حملے جاری ہیں۔

یہ منصوبہ مکمل طور پر امریکی سامراجی جارحیت کے مطابق ہے، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ پر اپنی بالا دستی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔خاص طور پر یہ منصوبہ ’نارملائزیشن‘کے اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ہے، یعنی عرب ممالک ، بالخصوص خلیجی بادشاہتوں، مصر، اردن اور شام کے نئے نظامِ حکومت کا امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ۔

امریکہ اور اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ نسلی تطہیر کا عمل جاری رکھا جائے، تاکہ تباہی اور ناکہ بندی کے باعث پیدا ہونے والی بدترین زندگی کی حالت لاکھوں غزہ کے باشندوں کو فلسطین چھوڑنے پر مجبور کر دے۔جو لوگ باقی رہ جائیں گے، وہ غزہ کی تعمیر نو کے نام پر نیم غلامی کی حالت میں دھکیل دیے جائیں گے۔

آخر میں امریکہ اور اسرائیل یہ امید رکھتے ہیں کہ مزاحمت کی عسکری صلاحیت کو ختم کر کے، اور ٹرمپ کی طرف سے نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں عام معافی کی اپیل کے ذریعے، اپنے مخالفین کو مکمل طور پر خاموش کر دیں گے۔

جنگ بندی کا نفاذ

یہ عمل بظاہر اتنا سادہ نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔ اب تک 2ہزار قیدی رہا کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 250 طویل المدتی قیدی شامل ہیں۔ ان میں 157 کا تعلق فتح، 65 کا حماس، 16 کا جہاد، 11 کا PFLP اور 1 کاDFLP سے ہے۔ اس کے باوجود 9ہزار فلسطینی قیدی اب بھی اسرائیلی جیلوں میں ہیں ، جو جنگ کے آغاز کے وقت سے دوگنا تعداد ہے۔لاکھوں غزہ کے باشندے اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔

بدھ 15 اکتوبر کو اسرائیل نے صرف 173 ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی، حالانکہ اقوام متحدہ کی درخواست پر 1800 ٹرک داخل ہونے تھے تاکہ آبادی کے لیے ضروری انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔PFLP نے اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی 36 خلاف ورزیاں بھی درج کی ہیں، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے واقعات بھی جاری ہیں۔

24 اکتوبر کو 41این جی اوزنے اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد پر پابندیوں ، خاص طور پر امدادی ٹرکوں کو روکنے کی مذمت کی ۔ ان تنظیموں کے مطابق 50 ملین ڈالر مالیت کا ضروری سامان اسرائیل کی جانب سے روک لیا گیا ہے۔

حماس اس وقت ایک مسلح کارروائی کی قیادت کر رہی ہے، جسے PFLP اور اسلامی جہاد کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا ہدف وہ ملیشیائیں ہیں جو انسانی امداد کی لوٹ مار میں ملوث ہیں ، یہ یا تو جرائم پیشہ گروہ ہیں یا اسرائیل کے زیر اثر یا اس کے معاون گروہ۔ان میں سے کچھ ملیشیائیں اسرائیلی قابض فوج کے ساتھ یلو لائن، یعنی غزہ کے اس حصے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں جو اسرائیل کے قبضے میں ہے۔تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ ان کارروائیوں کے ذریعے حماس اپنے اندرونی سیاسی مخالفین سے حساب برابر کر رہی ہو، مگر اس بارے میں قابل اعتماد معلومات محدود ہیں۔

اسرائیل نے اب بھی غزہ کے مشرقی حصے میں ایک’بفر زون‘پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔

امریکہ اور اسرائیل حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے مکمل غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔یہ مطالبہ دو بنیادی وجوہات کی بنا پر عملی طور پر ناممکن ہے:پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ مطالبہ سیاسی طور پر ناقابل قبول ہے، کیونکہ فلسطینیوں کو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرے گا ، جیسا کہ ماضی میں وہ متعدد معاہدوں کو توڑ چکا ہے۔مزید یہ کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد بالآخر کسی نہ کسی مرحلے پر مسلح مزاحمت کا تقاضا کرتی ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ غزہ جیسے تباہ شدہ علاقے میں، جہاں ریاستی ڈھانچہ مفلوج ہے، عوام کی حفاظت ، خاص طور پر خوراک اور امداد کی تقسیم کے دوران ، اسلحے کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ مافیا گروہوں اور اسرائیل نواز ملیشیاؤں کے حملے عام ہیں۔

ٹرمپ نے جنگ بندی کیوں تجویز کی؟

اکثر یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پیچھے اصل منطق کیا ہے۔تاہم جنگ بندی کے اس فیصلے کے پیچھے کئی مرکب عوامل کارفرما ہیں:

1)۔نسل کشی کے بڑھتے ہوئے فوجی، مالی اور سیاسی اخراجات کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
2)۔عالمی سطح پر عوامی تحریکوں نے ایک نئی جہت اختیار کر لی۔ خاص طور پر اٹلی کی عام ہڑتال نے مزدور تحریکوں کے لیے ایک نمونہ پیش کیا، اور غزہ کے لیے روانہ ہونے والے جہازوں (فلوٹیلاز) نے اسرائیل کو سیاسی طور پر ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔اس کے علاوہ غزہ مارچ جیسے مظاہرے اب بھی عرب حکومتوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ سازباز کر رہی ہیں۔
3)۔اسرائیل کے اندرونی احتجاجی مظاہرے ، اگرچہ وہ ابہام اور تضادات سے بھرپور ہیں ، لیکن نیتن یاہو کی حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔
4)۔مزید برآں امریکہ اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کے وسیع تر خطے میں اپنی عسکری و سیاسی مداخلت کو منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔وہ کئی محاذوں پر سرگرم ہیں:جنوبی لبنان میں، جہاں اسرائیل مسلسل فوجی کارروائیاں اور نئے علاقوں پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے۔شام میں، جہاں دونوں ممالک نئی HTC حکومت سے مزید سیاسی رعایتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو اقتدار کے استحکام کے لیے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی سمیت ہر ممکن راستہ اپنا رہی ہے ۔ایران میں، جہاں ٹرمپ نے جون 2025 کی فوجی مداخلت کے بعد اپنی مخصوص’دھمکی اور لالچ‘کی پالیسی دوبارہ شروع کر دی ہے تاکہ کسی ممکنہ معاہدے تک پہنچا جا سکے۔

امریکہ کی مجموعی حکمت عملی یہ ہے کہ عالمی طاقت کے توازن اور اثر و رسوخ کے دائرے کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ وہ دیگر بڑی طاقتوں ، بالخصوص یورپ اور روس ، کے ساتھ مسابقت میں اپنی برتری قائم رکھ سکے۔

یکجہتی کی عالمی تحریک کے لیے اس کا مطلب

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں فلسطینی عوام کے لیے خوشی محسوس کرنی چاہیے کہ وہ صیہونی ریاست کے تشدد کا اس قدر شدید سامنا عارضی طور پر ہی سہی، لیکن کچھ حد تک کم شدت کے ساتھ کریں گے۔اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمیں عوام کی مزاحمت اور استقامت کو اجاگر کرنا چاہیے ۔ ایک ایسی قوم جو ایک منظم نسل کشی کا شکار رہی ہے، جس کی ہولناکی آج بھی کم سمجھی جا رہی ہے، اور جو جنگ بندی کے فوراً بعد اپنی زمینوں پر واپس لوٹ کر ایک نئی نکبہ کو رد کر رہی ہے۔ہمیں ان عوام کے ساتھ اپنی غیر مشروط یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے، جو اب بھی صیہونی فوج، اس کے جیل نظام، اور آبادکاروں کے تشدد کا شکار ہیں۔تاہم یہ یکجہتی طاقت کے توازن کو بڑھا چڑھا کر پیش کیے بغیر اور قربانیوں کو گلوریفائی کیے بغیر ہونی چاہیے۔

دوسری اور یقینا سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں ٹرمپ کے منصوبے کو بے نقاب اور مسترد کرنا چاہیے۔یہ صرف ایک اخلاقی مخالفت نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی تنظیمیں اس تباہ کن صورت حال میں اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہیں اور ان کے پاس ان جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔تاہم ہمیں ان تمام فلسطینی کوششوں کی حمایت کرنی چاہیے جو ٹرمپ پلان کو ایک ایک نکتے پر چیلنج کرتی ہیں، اور ہمیں اس نوآبادیاتی اور سامراجی معاہدے کی مذمت کرنی چاہیے جو تباہی اور موت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے۔

عملی طور پر ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم آنے والے ہفتوں میں سامراجی طاقتوں کے عزائم کو ناکام بنائیں۔ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہم غزہ میں کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو مکمل طور پر رد کریں ، چاہے وہ مغربی ہو یا عرب، اور چاہے وہ فوجی، معاشی یا انتظامی نوعیت کی ہو۔حق خود ارادیت ناقابل مذاکرات ہے ۔ فلسطینیوں کو اپنے سماج کی تشکیل کا مکمل حق حاصل ہے، اور تمام فوجی دستوں اور آبادکاروں کو وہاں سے واپس جانا چاہیے۔

نسل کشی کی سب سے شدید شکل کے خاتمے سے وقتی سکون تو ضرور ملے گا،لیکن اس کے ساتھ ساتھ عالمی عوامی تحریک میں کمی بھی آ سکتی ہے۔تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں ایک عوامی سطح کی وسیع تحریک تعمیر کرنی ہے جوانسانی امداد کے آزادانہ اور فوری داخلے کو یقینی بنائے،عوامی نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کرے،نوآبادیاتی پھیلاؤ اور نسلی تطہیر کے تسلسل کو مسترد کرے،اورسامراجی طاقتوں کی جانب سے غزہ پر سیاسی، عسکری اور معاشی قبضے کی کوششوں کو ناکام بنائے۔

لہٰذا ہمیں نئی، متحد عوامی تحریکیں تعمیر کرنی ہوں گی جو طاقت کے توازن کو بدل سکیں۔

فوری مطالبات کے گرد منظم کی جانے والی اس وسیع تحریک کے ساتھ ہمیں ایک زیادہ منظم، باشعور اور براہ راست فلسطینی عوام سے جڑی ہوئی تحریک بھی تعمیر کرنی ہے۔یہ تحریک درج ذیل نعروں کے گرد متحد ہونی چاہیے:

٭غیر ملکی قبضہ فوجوں (بالخصوص ہمارے اپنے ممالک کی افواج) کی موجودگی اور سامراجی سرپرستی کی مخالفت، اورفلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی مکمل حمایت۔
٭تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی، خصوصاً مروان برغوثی کی رہائی کی بین الاقوامی مہم کی حمایت۔
٭مغربی کنارے، یروشلم اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے نوآبادیاتی بستیوں کے خاتمے کا مطالبہ۔
٭محاصرے کی مذمت اور نقل و حرکت کی آزادی کا مطالبہ۔
٭واپسی کے حق کی ضمانت کا مطالبہ۔
٭نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) پر مبنی ریاست کو مسترد کرنا۔نسل کش ریاست کے غیر مسلح کیے جانے اور تمام فلسطین کی آزادی کے مقصد کی وضاحت ،
یعنی ایک آزاد، جمہوری، مساوی اور سیکولر فلسطین کے قیام کی جدوجہد۔
٭بی ڈی ایس (بائیکاٹ، سرمایہ نکالنے اور پابندیوں) کی مہم کو جاری رکھنا،اور ان تمام حکومتوں، کمپنیوں، اداروں اور تنظیموں (بشمول فیفا اورجامعات) پر دباؤ ڈالنا،جو اسرائیل سے تعلقات رکھتی ہیں، خاص طور پر وہ کمپنیاں جو اسرائیل کے ہتھیاروں کی تیاری میں مددگار ہیں۔

ہمارے سامنے کچھ براہِ راست، عملی یکجہتی کے فرائض بھی ہیں۔انسانی امداد میں شرکت نہ صرف ایک ضرورت ہے بلکہ مزدور طبقے کے محلّوں میں لوگوں کے لیے اپنی یکجہتی ظاہر کرنے کا ایک آسان طریقہ بھی۔

مظاہروں، یونینوں، شہری تنظیموں اور فلسطینی قومی تحریک کے مختلف سیاسی دھڑوں کی شرکت کے ذریعے فلسطینی تنظیموں کی تعمیر نو میں تعاون،تاکہ عوامی جدوجہد کو ازسرنو منظم کیا جا سکے ۔لبنان اور حتیٰ کہ مغربی کنارے میں سول مشنز کی تنظیم سازی،جو ایک بار پھر فلسطینی عوام کے ساتھ عملی یکجہتی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

جدوجہد جاری رہے گی

نہ تو یہ نوآبادیاتی جنگ اور نسلی تطہیر 7 اکتوبر سے شروع ہوئی،اور نہ ہی ہماری بین الاقوامی مزاحمت۔یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی چوکس حالت کو کم نہ کریں بلکہ اپنی صفوں کو مزید مضبوط کریں۔جس مرحلے سے ہم گزرے ہیں، وہ دنیا کے عمومی سخت گیر اور غیر انسانی رجحان کا حصہ ہے ۔یہ وہ دور ہے جب عالمی سطح پر وحشیانہ مظالم، دائیں بازو کی انتہاپسندی، اور عرب آمریتوں کی سامراجی سازباز نے ایک نیا ردعمل پیدا کیا ہے۔

اسی کے جواب میں سینکڑوں ملین انسان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ہم اس حقیقت کو دہراتے ہیں کہ ہم فلسطینی عوام کی جدوجہد کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں ۔یہ جدوجہد ہماری اپنی انقلابی بصیرت اور وژن کے عین مطابق ہے۔ہم نوآبادیاتی نظام کے بدترین مظاہر ،یعنی موت، غربت، نسل پرستی اور من مانی قید و بند کے خلاف جدوجہد میں شریک ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ ایک عوامی سطح کی عالمی تحریک تعمیر کی جا سکے،

جو زیادہ انقلابی دھڑوں ، نوجوانوں، مزدور طبقے، صیہونیت مخالف یہودیوں، اورپورے فلسطین کی آزادی کی انقلابی حکمت عملی کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ ربط میں ہو۔یہ ایک ایسی آزادی اور علاقائی انقلاب کی جدوجہد ہے،جو سامراجی طاقتوں کے تسلط کو بہا کر لے جائے گی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts