لاہور (روزنامہ جدوجہد) امریکہ میں پولیس کی حراست میں ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کی موت کے بعد ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد اب وہاں امریکی نیشنل گارڈ نامی فوجی دستے کے اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔
46 سالہ جارج فلوئیڈ پیر کو ہلاک ہوئے تھے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ ایک سفید فام پولیس اہلکار جھک کر اپنے گھٹنے سے جارج کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور انھیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔
اب امریکہ کے اس شہر میں مسلسل تین راتوں تک مظاہرے جاری رہے ہیں۔
امریکہ کی ہر ریاست میں اپنا نیشنل گارڈ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی فوجی فورس ہے جو ہر وقت تیار ہوتی ہے اور اسے گورنر کی ضرورت کے مطابق تعینات کیا جاسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے شہر کے میئر پر تنقید
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو اس واقعے پر ٹوئٹر کے ذریعے بات کرتے ہوئے شہر کی سیاسی قیادت پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’میں منی ایپلس جیسے عظیم شہر کے ساتھ یہ ہوتا نہیں دیکھا سکتا۔ مئیر جیکب فرے کو چاہیے کہ شہر کے حالات کو قابو میں رکھیں ورنہ میں نیشنل گارڈ بھیج کر خود ہی کام کروا لوں گا۔ ‘
منی ایپلس میں مظاہرے
اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے منی ایپلس کے ایک پولیس سٹیشن میں توڑ پھوڑ کی ہے۔ ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار اس تھانے میں آگ لگنے کے بعد یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ خیال ہے کہ جارج کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث اہلکار اسی تھانے میں کام کرتے تھے۔
بدھ کے روز پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل پھینکے جبکہ دکانوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی سامنے آئے۔
اس کے علاوہ شکاگو، لاس اینجلس اور میمفس میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
جارج کی ہلاکت نے پولیس کی جانب سے سیاہ فام افراد کے قتل کے واقعات پر غم و غصے کو ابھار دیا ہے۔ یہاں جارجیا میں احمد آربری اور کینٹکی میں بریونا ٹیلر کے حالیہ کیسز بھی قابل ذکر ہیں۔
منی سوٹا کے گورنر ٹِم والز نے جمعرات کو ریاست کے نیشنل گارڈ کے دستوں کو تعینات کر دیا ہے۔ ان سے اس حوالے سے منی ایپلس اور سینٹ پال کے میئرز نے گزارش کی تھی۔ گورنر نے اس صورتحال کو ’امن کے وقتوں کی ایمرجنسی‘ قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دن قبل لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور آتش زنی نے کافی کاروباروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی دکانوں کو بھی نقصان پہنچا جو اقلیتی برادری کی تھیں۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جارج کی ہلاکت کا اختتام انصاف اور نظام میں تبدیلی پر ہونا چاہیے، مزید ہلاکتوں اور تباہی پر نہیں۔
منی ایپلس کے میئر جیکب فرے نے بدھ کو اس پولیس اہلکار کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی ہے جنھیں جارج پر حملہ کرتے ویڈیو میں دیکھا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری میں ملوث چار پولیس اہلکاروں کو پہلے ہی نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
جارج کا واقعہ بھی ایرک فارنر سے ملتا جلتا ہے۔ ان پر 2014 میں پولیس نے تشدد کیا تھا۔ ان کی ہلاکت کے بعد پولیس کی بربریت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے اور بلیک لائیوز میٹر کی مہم نے زور پکڑا تھا۔
مظاہرے کیسے شروع ہوئے؟
امریکہ میں مظاہرے منگل کی شب شروع ہوئے۔ شہر میں سینکڑوں افراد اس مقام پر کھڑے ہوگئے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
منتظمین نے مظاہرے کو پُرامن رکھنے کی کوشش کی اور مظاہرین سے سماجی فاصلے کی ہدایات پر عمل کرنے کی بھی استدعا کی۔ اسی دوران مظاہرین کی جانب سے ’میں سانس نہیں لے پا رہا‘ اور ’یہ میرے ساتھ بھی ہوسکتا تھا‘ کے نعرے شروع لگنا شروع ہوگئے۔
بدھ کی شب مظاہرے کے دوسرے روز مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں داخل ہوگئی۔ اس ہجوم نے پولیس کی جانب پتھر اور آنسو گیس کے شیل واپس برسانا شروع کر دیے۔
اس روز پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ پیش آئی۔ اہلکاروں نے پولیس سٹیشن کے اردگرد ایک انسانی ڈھال بنانے کی کوشش کی تاکہ مظاہرین اس میں داخل نہ ہوسکیں۔
اب تک کیا ردعمل آیا ہے؟
جارج فلویڈ کے بھائی فلونیس فلویڈ نے جمعرات کو سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں امید ہے ملوث افسران کو سزائے موت سنائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ: ’میں کبھی دوبارہ اپنے بھائی کو حاصل نہیں کر سکوں گا۔ ہم انصاف چاہتے ہیں۔‘
آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ انھوں نے یہ کہا کہ جن افسران نے ’میرے بھائی کو دن کے اجالے میں ہلاک کیا‘ انھیں گرفتار کیا جائے اور وہ ’سیاہ فام افراد کے قتل دیکھ دیکھ کر اب تھک چکے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھیں معلوم ہے مظاہرین میں غصہ کیوں ہے۔
’میں لوگوں کو اس وقت روک نہیں سکتا کیونکہ انھیں تکلیف پہنچی ہے۔ وہ اسی درد کو محسوس کر سکتے ہیں جس سے میں گزر رہا ہوں۔‘
منی ایپلس کی پولیس کے سربراہ نے جارج کی ہلاکت سے پہنچنے والے درد اور صدمے کے لیے معافی مانگی ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی مذمت کرتے ہوئے اس ہلاکت کو نسلی امتیاز قرار دیا ہے جبکہ مظاہرین سے پُرامن رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ جارج کی ویڈیو دیکھ کر کافی مایوس ہوئے۔ ’وہ چاہتے ہیں کہ انصاف کیا جائے۔‘
جسٹن بیبر، بیانسے سمیت شوبز اور کھیلوں کی دنیا کے کئی ناموں نے اس واقعے کے لئے اظہارِ افسوس کیا ہے۔
جارج فلویڈ کے ساتھ کیا ہوا؟
پیر کے روز پولیس اہلکار ان اطلاعات پر کاروائی کر رہے تھے کہ جعلی پیسے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ وہ جارج کی گاڑی کے قریب پہنچے تھے۔
پولیس کے مطابق انھیں گاڑی سے نکلنے کا کہا گیا تھا، انھوں نے اہلکاروں سے مزاحمت کی اور اس طرح انھیں ہتھکڑی لگا دی گئی۔ پولیس کے بیان میں ان میں ظاہر ہونے والی طبی تکلیف کا بھی ذکر ہے۔
واقعے کی ویڈیو میں یہ دکھایا نہیں گیا کہ تنازع کیسے شروع ہوا۔
ایک سفید فام افسر کو دیکھا جاسکتا ہے جو اپنے گھٹنے سے جارج کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اس موقع پر جارج کہتے ہیں کہ ’پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا‘ اور ’مجھے مت مارو۔‘
شہر کے حکام نے چاروں پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کر لی ہے۔ ان میں سے مقامی میڈیا نے ڈیرک شوون پر الزام لگایا ہے کہ وہ جارج کا گلا گھونٹ رہے تھے۔
پولیس کی یونین کا کہنا ہے کہ ملوث اہلکار تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔ ’فیصلے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ ہمیں پوری ویڈیو دیکھنی ہو گی اور طبی معائنہ کار کی رپورٹ کا انتظار کرنا ہوگا۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق 44 سالہ پولیس اہلکار شوون ماضی میں تین پولیس شوٹنگز میں ملوث رہ چکے ہیں۔ ان کے 19 سالہ کریئر میں ان کے خلاف 17 شکایات درج کرائی جاچکی ہیں۔