فن و ثقافت


داستانِ بھٹو بہ زبانِ بھٹو

کیا بھٹوکی زبان سے وہ کچھ کہلوایا جاسکتا ہے کہ جس کے تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں؟
یہ سب اور ایسے بہت سارے سوال زیر بحث لانے
کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام سوالوں اور واقعات کو ہم آج کے دور کا چشمہ پہن کر اور اس وقت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ٹونی عثمان کا قلم دونوں ہی چشمے استعمال کرتا ہے۔ انھیں پورا حق ہے کہ وہ بھٹو کے کردار کو جیسے چاہیں تراشیں اور پیش کریں کیونکہ وہ ایک تاریخ دان، صحافی یا سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ ایک تخلیق کار داستان گو ہیں۔ داستانیں ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہیں۔

ناروے میں بھٹو

اوسلو(جدوجہد رپورٹ) ناروے کے پاکستانی نژاد ڈرامہ نگار ٹونی عثمان ایک عرصہ سے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے متعلق تھیٹر کے لئے نارویجن زبان میں ایک ڈرامے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھٹو کی 46ویں برسی(امسال4 اپریل)کے موقع پر ناروے […]

منٹو، ہم اور ہمارا عہد

اگر یہ کہا جائے کہ یہ عہد سعادت حسن منٹو کا عہد ہے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔آئے دن جس طرح معصوم لوگ مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس عہد کوایک منٹو کی بہت ضرورت ہے۔اتنی ضرورت جتنی شائد 1947ء میں بھارت یا پاکستان کو بھی نہ تھی۔وہی منٹو جو نہ صرف اردو کا بلکہ دنیائے ادب کا بڑا افسانہ نگار ہے،جس نے اپنے افسانوں میں نہ صرف مظلوم عورتوں کی کہانیاں بیان کی ہیں بلکہ ہندوستان کی تقسیم اور فساد پر شاہکار افسانے لکھے،اور ان افسانوں میں انسانی بہیمیت اور درندگی کے ہزارہا چہرے نقش کیے۔

منٹو: ہماری ننگی سوسائٹی کا آئینہ

اچھے لکھاری کے متعلق عام طور پر کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے مگر اُردو کے عظیم لکھاری سعادت حسن منٹو،جنہیں فحش اور رُجعت پسند کہا گیا، کا سب سے بڑا اور مظبوط ہتھیار اُن کی ایمانداری تھا۔ یہی ہتھیار مرتے دم تک اُن کے لئے مسائل کی وجہ بنا رہا۔ اس لئے کہ معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔ مگر منٹو نے بھی ایمانداری سے لکھنے کی ضد لگائی ہوئی تھی۔ جس بے باکی سے اُنہوں نے حقیقت نگاری کرکے مُعاشرے کی بُرائیوں سے نقاب ہٹایا اس کے لئے نہ تو برطانوی راج کے متحدہ ہندوستان میں جگہ تھی اور نہ ہی آزاد پاکستان میں۔ آزاد پاکستان نے تو اُن کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ”آزاد“کی اصطلاح ہی خراب ہوگئی۔

نُور جہاں: پاکستانی ثقافت کی سریلی شناخت

منٹو اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ”نور جہاں کے کئی عاشق ہوں گے۔ میں ایسے کئی باورچیوں کو جانتا ہوں جو چولہے کے پاس نور جہاں کی تصویریں لگا کر اپنے صاحبوں اور میم صاحبوں کاکھانا پکاتے ہیں۔“

ابسن کے ڈرامے اور پاکستانی سماج

معلوم نہیں کہ ابسن نے 142 سال پہلے فیصلہ سازی کرنے والوں کے بارے یہ ڈرامہ لکھتے ہوئے سوچا تھا کہ کبھی اردو پڑھنے والے بھی اُن کے ڈرامے سے لُطف اندوز ہونگے۔ اس ڈرامے کا اردو ترجمہ ناروے کے پاکستانی نژاد صحافی، دستاویزی فلم میکر اور مصنف عطا انصاری نے بڑی مہارت سے کیا ہے۔

ناروے کا کلاسیکی ادب اردو میں

ناروے کے سرکردہ ناول نگاروں میں سے ایک کھنیوت ہامسن ہیں۔ انہیں 1920 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اُن کے کئی ناولوں کو اسٹیج کے لیے ڈرامائی شکل دی گئی اور سنیما کی سکرین پر بھی پیش کیا گیا۔ وہ ناروے کے سب سے زیادہ فلمائے گئے مصنفین میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ متنازعہ بھی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ 1930 کی دہائی میں ہٹلرکے جرمنی کے حامی تھے اور ناروے پر جرمن قبضے کی حمایت کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے ناولوں کی ساکھ تباہ نہیں ہوئی اور نارویجن ادب میں وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والوں میں سے ایک رہے ہیں۔

افسانچہ: چھوٹا/بڑا

خیر تو وہ گھر والے ٹھیک ٹھیک رہتے تھے۔ تب تک جب تک وہ ایک دوسرے کو انسان سمجھتے تھے۔ بڑا پیارا ماحول رہتا تھا۔ سب ایک دوسرے کی خوشی ڈھونڈتے، ایک دوسرے کا دکھ دور کرتے، ایک دوسرے سے محبت کرتے ایک دوسرے کا احساس کرتے۔ان میں کوئی بڑا،چھوٹا،مرد اور عورت نہیں تھا سب انسان تھے۔

غزہ، نسل کشی اور احتجاج سے عاری اے آئی آرٹ

مزید برآں، یہ استھیٹک تصاویر زیادہ تر اس لئے پسند کی جاتی ہیں کیونکہ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی سنسرشپ کے الزامات سے آسانی سے بچ جاتی ہیں۔ اس وجہ سے یہ اور بھی خطرناک مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ خود تصاویر سنسرشپ کا مجسمہ ہوتی ہیں۔
اے آئی سے تیار کردہ آرٹ کی منافقت بھی ناقابل تردید ہے کیونکہ یہ کسی کو بھی ایسی چیز تیار کرنے سے روکتی ہے جو ایک مخصوص معیار پر پورا نہیں اترتی جس کا مطلب ایک ضمنی کاروباری مقصد ہوتا ہے۔
نسل کشی کے دوران آرٹ کو استھیٹک بنا کر، اس کو تجارتی بنا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی انتہا ہے اور جب عالمی برادری فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑی ہونے کی کوشش کرتی ہے، تو انہیں چاہیے کہ اپنے متعلقہ احتجاج کے ہر چھوٹے سے چھوٹے علامت کو احتیاط سے شامل کریں۔

اردو ڈرامہ اور عصری مسائل

جب سماج کی بنیاد یعنی معاشی نظام متروک ہو جائیں،تو وہ محض معیشت میں ہی اپنا اظہار نہیں کرتے، بل کہ سماج کا ہر ایک ادارہ تعفن پھیلانے لگتا ہے۔ تاریخ کا دھارا گویا روک سا جاتا ہے۔ تہذیب و ثقافت زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتیہیں۔ رشتوں کا تقدس اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ سماج میں ایک بے گانگی جنم لیتی ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے لا تعلق کر دیتی ہے۔ یہ انسانوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ ان کے پاس انفرادی بقا کے انتخاب کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا، اور انفرادی کام یابی ہی سب سے بڑا مقصد حیات بن جاتی ہے۔ چاہے اس کی قیمت اپنوں کے خون سے ہی کیوں نا چکانی پڑے۔