کیا بھٹوکی زبان سے وہ کچھ کہلوایا جاسکتا ہے کہ جس کے تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں؟
یہ سب اور ایسے بہت سارے سوال زیر بحث لانے
کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام سوالوں اور واقعات کو ہم آج کے دور کا چشمہ پہن کر اور اس وقت کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ٹونی عثمان کا قلم دونوں ہی چشمے استعمال کرتا ہے۔ انھیں پورا حق ہے کہ وہ بھٹو کے کردار کو جیسے چاہیں تراشیں اور پیش کریں کیونکہ وہ ایک تاریخ دان، صحافی یا سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ ایک تخلیق کار داستان گو ہیں۔ داستانیں ہمیشہ ایسی ہی ہوتی ہیں۔
