سماجی مسائل

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔


کیا ارادہ پختہ ہو تو انسان کوئی بھی منزل پا سکتا ہے؟

بہرحال اصل بحث یہ ہے کہ کیا انسان محنت اور مصمم ارادے سے سب کچھ حاصل کر سکتا ہے تو جواب ہے، نہیں۔ پہلی بات، اگر محنت سے دولت کا حصول ممکن ہوتا تو پاکستان کا کسان صدیوں سے بھوک کا شکار نہ ہوتا۔ کسان عمر بھر محنت کرتا ہے۔ مزدور عمر بھر اور دن بھر محنت کرتا ہے۔ دونوں دولت مند نہیں بن پاتے۔ جن ملکوں میں مزدور کی تنخواہ اچھی ہے، وہاں بھی مزدور جتنا مرضی اوور ٹائم لگا لے، ارب پتی تو کجا کروڑ پتی بھی نہیں بن پاتا۔ دولت محنت سے نہیں، دوسروں کے استحصال سے کمائی جاتی ہے۔

محرومیوں کی انتہاؤں میں خودکشی کاعفریت

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں جہاں پسماندگی اپنی تمام تر شکلوں میں موجود ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود اس خطے کے باسی سسک سسک کر اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بنیادی انفراسٹراکچر کی عدم تعمیر سے لے کر صحت اور تعلیم کی سہولیات کی خستہ حالی اور عدم موجودگی تک مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ جو اس خطے کے باسیوں کی زندگیوں کو اجیرن کیے ہوئے ہے۔

روزمرہ کے مسائل: برتن سکھا کر ان میں کھائیں پئیں

گھروں کی ٹونٹیوں میں جو پانی ٹنکی سے آ رہا ہے اگر وہ پینے کے قابل نہیں تو ظاہر ہے ایسے پانی سے اگر برتن دھوئے جائیں تو لازمی ہے کہ برتنوں کے سوکھنے تک انہیں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ جب برتن سوکھ جائیں گے تب ہی ٹنکی والے پانی میں موجودجراثیموں کا خاتمہ ہو گا۔

حیات ہی ہے بشر کا تمام سرمایہ

جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اور اس کا رائج شدہ بوسیدہ نظام تعلیم موجود ہے نوجوان یوں ہی اپنی زندگیوں کو ضائع کرتے رہیں گے۔ مقابلے بازی کی اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ایک اجتماعی اشتراکی معاشرے کے قیام سے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی تلخیوں کو اپنے اندر سمو کر گھٹ گھٹ کے مرنے کے بجائے اس کے خلاف لڑائی کو ہر سطح پر منظم کرنا ہو گا اور ان مشکلات کے دلدل کو عبور کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہو گا جو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ماضی کے ان تمام اندھیروں کو ختم کر دے۔

میرے دل میرے مسافر

ہم اپنے اس کالم کے ذریعے سیاحت کی انڈسٹری اور سیاحتی حلقوں کو ایک پیغام اصلاح دے رہے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ناجائز منافع خوری کی بجائے انسان دوستی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ بصورت دیگر عوام کی اکثریت سفر سے اکتا جائے گی اور سیاحتی انڈسٹری کی اصلاح بذریعہ کمپیوٹر اپلیکیشنز مثلاً ’Zoom‘ یا ’Whatsapp‘ وغیرہ سے ہو جائے گی۔

خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔

سوشلسٹ سماج: مرد و عورت کی آزادی کا ضامن

ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش خواتین اس طبقاتی تفریق کو سمجھتے ہوئے ایک ایسی لڑائی لڑنے کی جانب جائیں جہاں محنت کش مرد و خواتین صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر باہمی جڑت بناتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑائی لڑیں تبھی آزادی حاصل ہو سکے گی۔

عورت مارچ سوشلسٹ مارچ

پدر سری سرمایہ داری سے پہلے وجود میں آئی تھی۔ سرمایہ داری اور پدر سری کے ملاپ نے بے شک عورت پر جبر کو گمبھیر بنا دیامگر یہ کہنا کہ پدر سری سرمایہ داری کے خاتمے کے ساتھ خود بخود ختم ہو جائے گی، نعرے بازی کے سوا کچھ نہیں۔ محنت کش طبقے کے اندر بے شمار رجعتی رجحانات پائے جاتے ہیں۔