نقطہ نظر

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔


فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

’اشرافیہ کو 87 ارب ڈالر کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

ایک ممتحن کی غلطی نے آشکار کیا

دلیل کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اسے اصول کے تابع ہونا چاہئے۔ اگر ہم ترقی پسند ہیں تو ہمارے کچھ اصول بھی ہیں ورنہ ہم موقع پرست ہیں۔ ترقی پسندوں اور قوم یوتھ میں اگر فرق ہے تو اصول پرستی کا ہے۔ دوم، دلیل وہ ہوتی ہے جو یونیورسل ہو۔ اگر ایک سوال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوچھا جا سکتا ہے تو وہ سوال کامسیٹ میں اٹھانے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہم دلیل کو ’Relative‘ بنا دیں گے تو یہ ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ اگر کامسیٹ کا لیکچرر محرمات کے مابین سیکس پر سوال نہیں پوچھ سکتا تو پاکستان کے فوجی بجٹ پر سوال اٹھانا بھی منع ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔

’طالبان پاکستان میں چاہئیں نہ افغانستان میں: ورنہ دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘

جتنی بھی جابرانہ طاقتیں ہیں، یا آؤٹ فٹس ہیں، انہیں پالیسی فارمولیشن کا حصہ نہ بنایا جائے، وہ ہمیں ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ وہی آؤٹ فٹس جنہیں ہم ملکی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، بعد میں پھر ہمارے لئے ہی تھریٹ ثابت ہوتے ہیں۔ معاشی خدشات کے بارے میں سوچی، فرینڈلی پالیسی بنائیں، غیر مداخلت کی پالیسی بنائیں، کبھی بھی مداخلت نہ کریں تاکہ کسی کو بھی مداخلت کا بہانہ یا ضرورت محسوس نہ ہو۔

انقلابی شاعری کا امام جوش ملیح آبادی: اقبال حیدر سے گفتگو

جی ہاں، جوش صاحب ان عظیم شعرا کی صف میں آتے ہیں جنہوں نے اپنے دور کو نہ صرف’Define‘ کیا ہے بلکہ اس سے تجاوز بھی کیا ہے۔ ہر دور اور ہر زبان میں اس قبیل کے شعرا نسبتاً کم ہوتے ہیں جو ایک خاص قسم کی فکری آزاد روی یا عقلیت پسندی کی وجہ سے اپنی ہی زندگی میں ایک ’Iconoclast‘ بن جاتے ہیں۔ وہ ہر فرسودہ چیز کو یا جنہیں وہ فرسودہ سمجھتے ہیں، ببانگ دہل رد کرتے ہیں او ر زمانے سے اصرار بھی کرتے ہیں کہ عقل و دانش کے سوا کوئی دوسرا راستہ فلاح کا راستہ نہیں، کوئی بھی ایسے متحرک اور علم دوست معاشرے کو جمود کا شکار نہیں بنا سکتا۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ فلمی یوتھیاپا ہے

پاکستان تحریک انصاف کی سیاست دراصل سیاست سے عاری سیاست ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس جماعت کی سیاست دراصل سیاست دشمنی کی سیاست ہے۔ یہ سیاست ضیا الحق کی سیاست ہے جو سیاست کو برا کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے۔ سیاست کا مطلب ہے مکالمہ اور جمہوریت۔ ضیا الحق کی سیاست ہے آمریت۔ عین اسی طرح، مولا جٹ کی ری میک کا مولا جٹ سے کوئی تعلق ہے نہ پنجابی فلم اندسٹری سے۔ یہ سراسر ہالی وڈ فلموں کی نقالی ہے۔ یہ تھوڑا سا گلیڈی ایٹر کا چربہ ہے۔ تھوڑا سا گیم آف تھرونز کی نقالی۔

گرامشی کو نئے سال سے نفرت سہی، بطور سوشلسٹ میں نیو ائیر ضرور مناتا ہوں

گرامشی کو نئے سال سے نفرت سہی، بطور سوشلسٹ میں نیو ائیر ضرور مناتا ہوں
فاروق سلہریا

نئے سال کی آمد پر بائیں بازو کے بعض ساتھی انتہائی مایوس کن پیغامات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کرتے ہیں۔ امسال بھی یہی ہوا۔

گرامشی (گرامچی) کا مندرجہ ذیل مضمون، بعنون ’مجھے نئے سال سے نفرت کیوں ہے‘ (ترجمہ: علی تراب)،بھی اکثر شیئر کیا جاتا ہے:

”ہر صبح جب آسمان کے سال میں میری آنکھ کھلتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نئے سال کا دن ہے۔ اسی لیے مجھے نئے سال کے دن سے نفرت ہے جو اکاؤنٹس کی سالانہ رسید کی طرح آن ٹپکتا ہے۔ جو اپنے حساب کتاب، بقایا جات اور نئے انتظامی بجٹ کے ساتھ زندگی اور انسانی روح کو ایک کاروباری عمل میں بدل دیتا ہے۔ یہ زندگی سے اسکا تسلسل اور روح چھین لیتا ہے۔ آپ واقعی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ایک سال اور اگلے کے درمیان کوئی وقفہ ہے کہ ایک نئی تاریخ شروع ہونے جا رہی ہے۔ آپ نئے عہد کرتے ہیں، اور انکے ٹوٹنے پر پچھتاتے ہیں۔ عمومی طور پر تاریخوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں واقعات کی ترتیب کا علم تاریخ کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ چار یا پانچ بنیادی تاریخیں ایسی ہیں جو ہر اچھے انسان کے دماغ میں محفوظ رہتی ہیں جنہوں نے تاریخ کے ساتھ بھدے مذاق کیے ہیں۔ وہ بھی نئے سال ہی ہیں۔ رومی تاریخ کا نیا سال، یا قرون وسطی کا، یا جدید دور کا۔ اور وہ اس قدر جارحانہ اور مظبوط ہو گئے ہیں کہ ہم کبھی کبھی اپنے آپ کو یہ سوچتا پاتے ہیں کہ شاید اٹلی میں زندگی کا آغاز 752ء میں ہوا اور یہ کہ 1490ء یا 1492ء کوئی پہاڑ نما سال ہیں جنہیں پھلانگ کر انسانیت ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئی۔ لہٰذا تاریخ ایک رکاوٹ بن جاتی ہے، ایک ایسی دیوار جو ہمیں یہ دیکھنے سے روکتی ہے کہ تاریخ سینما کی کسی فلم میں آنے والے انٹرولز کی طرح رکتی نہیں بلکہ ایک مستحکم سیدھی لکیر پر مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اسی لیے مجھے نئے سال کے دن سے نفرت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر صبح میرے لیے نیا سال ہو۔ ہر دن میں خود پر غور کرنا چاہتا ہوں، اور ہر دن میں اپنی تجدید کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی دن آرام کا نہ ہو۔ جب میں زندگی کے شدت سے دھت ہوجاؤں اور ایک نیا جوش حاصل کرنے کیلئے حیوانیت میں ڈوبنا چاہوں تو میں خود رکنے فیصلہ کروں۔ کوئی روحانی قید نہ ہو۔ میں چاہوں گا کہ میرا ہر لمحہ نیا ہو جو ساتھ ہی ساتھ پچھلے لمحوں سے ایک تسلسل میں جڑا ہو۔ کوئی مخصوص تہوار نہ ہو جو مجھے ایک مخصوص انداز میں ایسے اجنبیوں کے ساتھ منانا پڑے جن کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، صرف اس لیے کہ ہمارا دادا کے دادا اور انکے دادا یہ سب منایا کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی یہ منانا چاہیے۔ مجھے یہ چیز بہت کراہت آمیز لگتی ہے۔ مجھے اس وجہ سے بھی سوشلزم کا انتظار ہے کیونکہ یہ ان تمام تہواروں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا جن کی ہماری روح سے کوئی ہم آہنگی نہیں اور اگر وہ نئے تہوار تخلیق کرے تو کم از کم وہ ہمارے اپنے ہوں، ناکہ ہمارے احمق اجداد کی طرف سے ہم پر تھوپے گئے ہوں۔“

قطع نظر اس کے کہ گرامشی کیا کہنا یا نہیں کہنا چاہتا تھا، عام طور پر جب ہمارے بائیں بازو کے دوست یہ مضمون یکم جنوری سے پہلے شیئر کرتے ہیں یا نئے سال پر ہونے والی تقریبات پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں تو ان کا مقصد اونچ نیچ کے طبقاتی نظام پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنا انتہائی جائزاحتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔

ایک مقصد اس حقیقت کا اظہاربھی ہوتا ہے کہ نیا سال یا عید اور کرسمس وغیرہ منانا ایک جعلی اور وقتی خوشی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جب تک سوشلزم نہیں آتا، حقیقی اور دائمی خوشی ممکن نہیں۔

مجھے مندرجہ بالا نقطہ نظر سے شدید اختلاف ہے۔ یہ انتہائی یاسیت پر مبنی رویہ اور موقف ہے۔

پہلی بات۔ کیا سوشلزم کے نہ’آنے‘ تک ہمیں خوش ہونے کا حق نہیں؟ اس سے بھی اہم سوال: اگر میری زندگی میں کوئی سوشلسٹ انقلاب اس ملک میں آیا ہی نہ تو؟ اس لئے میرا موقف ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے ہمیں ایک طرح کے ایوری ڈے سوشلزم (روز مرہ کا سوشلزم) بھی قائم کرنا چاہئے۔ روز کے روز، تھوڑا سا وقت، تھوڑی سی جگہ ایسی ہو جہاں ہم محنت کش لوگ اکٹھے ہو سکیں، خوش ہو سکیں۔ زندگی کے غم بھلا کر اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ ہنس کھیل سکیں۔ یہ سہولتیں ہمیں پاکستان کی عوام دشمن ریاست نہیں دے گی۔ ہمیں اپنے تھیٹر، سینما، جم، کھیل کے میدان، موسیقی کی محفل، میلے…یہ سب خود سے کرنا ہو گا۔ ریاست سے اس کا مطالبہ کرتے رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ مزدور اور کسان طبقے کو اپنی زندگی میں روز کے روز خوش ہونے، شعور حاصل کرنے، علم حاصل کرنے کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ ایسا ”مجھے نئے سال سے نفرت ہے“ کی بنیادپر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کے لئے مختلف طریقہ کار ہو سکتے ہیں۔ بہرحال رویہ اور موقف یہ ہونا چاہئے کہ ہم محنت کش خوشی منانے کا ہر موقع ڈھونڈیں گے۔ روز کے روز تلاش کریں گے اور سوشلسٹ انقلاب آنے تک بھی نیا سال منائیں گے، سالگرہ کا اہتمام کریں گے، عید، ہولی اور کرسمس منائیں گے، یوم مئی منائیں گے، پرانی روایتیں جو ہمارے ’بے وقوف‘ اجداد ہم پر تھونپ گئے ہیں، ان کا کایا پلٹ کر کے انہیں نیا رنگ دے دیں گے۔ جب پہلی مزدور ریاست پیرس کمیون کی شکل میں قائم ہوئی تو تھیٹر کا ٹکٹ ختم کر دیا گیا تھا۔

دوسری بات: اگر ان دوستوں کاموقف مان لیا جائے جو گرامشی کا مضمون اپنے فیس بک پر لگاتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں تو پھر کم از کم تھیوری کی حد تک یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ کیا مارکس وادیوں کو، جماعت اسلامی کی طرح، نئے سال کا بائیکاٹ کرنا چاہئے؟

حقیقت یہ ہے کہ اکثر دوست جو گرامشی کا مضمون شیئر کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ دائمی خوشی سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی ممکن ہے، وہ خود بھی نیو ائر مناتے پائے جاتے ہیں۔ ان کی حالت ان اہل ایمان والی ہوتی ہے جو شراب بھی پیتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔ شراب پیتے ہوئے انہیں احساس گناہ ہو رہا ہوتا ہے جسے مٹانے کے لئے وہ لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے انہیں الجھن ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ مے خانے کا رخ کرنا ہے یا نہیں۔ یوں نہ وہ شراب سے لطف اندوز ہوتے ہیں نہ نماز میں انہیں سکون ملتا ہے۔

تیسری بات: ایسا کوئی حتمی سوشلسٹ انقلاب ممکن نہیں جس کے بعد کوئی دائمی خوشی آ جائے گی۔ انقلاب آگے جانے کے لئے ایک بڑی جست ہے۔ ایک تاریخی فریضہ ہے۔ انقلاب اور انقلابی جدوجہدیں محنت کشوں کی زندگیاں آسان بناتے ہیں اور مجموعی طور پر خوشی کے امکانات کو بڑھاتے ہیں لیکن سوشلسٹ انقلاب کو مذہبی انداز میں پیش کرنا با لکل غیر انقلابی اور غیر سوشلسٹ ہے۔

’یہ تحریک شاہ ایران کے خلاف بغاوت سے بھی بڑی: 82 دن میں 160 شہروں میں 544 مظاہرے‘

ایران میں لازمی حجاب ایک قانون ہے اور جیسا کہ میرے اپنے خاندان کے افراد سمیت بہت سے لوگوں کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی تنظیموں، مثلاً پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی)، بیسج اور باقاعدہ پولیس فورس اور یہاں تک کہ حکومت کے عام پر جوش حامیوں، کے ذریعے سے حجاب نافذ کیا جاتا ہے۔ اس لئے ایک مخصوص تنظیم سے جان چھڑانا بے معنی ہے۔ اگر ایرانی حکومت مستقبل قریب میں اس اخلاقی پولیس کو ختم کر بھی دیتی ہے تو عین ممکن ہے کہ مناسب وقت آنے پر اس کی جگہ اسی طرح کی کوئی اورفورس لے لے۔ ایرانی حکومت کے لئے ایڈہاک تنظیموں کو اس طرح کھڑا کرنا ایک عام سی بات ہے۔

کشمیر کی واحد کامیاب سوشلسٹ کونسلر: ’عوام نے سیاسی اجارہ داری کو شکست دی‘

میں سمجھتی ہوں کہ یہ میری شخصیت کی کامیابی نہیں ہے، یہ انتخابی منشور اور پروگرام کی فتح اور کامیابی ہے۔ لوگوں نے مجھے نہیں بلکہ انتخابی پروگرام کو ووٹ دیا ہے۔ تعصبات اور مال و دولت کی بنیاد پر انتخابات کو ہائی جیک کرنے والوں کا راستہ روکنے کا بھی میرے خیال میں یہی ایک طریقہ ہے کہ نظریات، پروگرام اور جدوجہد کی بنیاد پر لوگوں کو منظم کیا جائے۔