نقطہ نظر


فلسطین میں جنگ بندی اور ٹرمپ کے منصوبے پر فورتھ انٹرنیشنل کا بیان

حقیقت فی الحال ان دونوں کے درمیان ہے۔ٹرمپ کا منصوبہ ایک نوآبادیاتی سوچ پر مبنی ہے، یہ فلسطینی عوام کے نقط نظر سے طاقت کے منفی توازن کو تسلیم کرتا ہے، اور ان کی مزاحمت کی صلاحیت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔تاہم جنگ بندی، اگرچہ یہ نوآبادیاتی پھیلاؤ اور نسلی تطہیر کو جاری رکھتی ہے، پھر بھی جدوجہد کو ازسرنو منظم کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے ۔ ایک ایسی جدوجہد جو صرف اسی وقت جیتی جا سکتی ہے جب وہ نسل کشی پر مبنی صیہونی ریاست سے کسی بھی قسم کی سازباز کو مسترد کرے اور عوامی سطح پر بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی روایت کو زندہ کرے۔

مائیکرو فنانس: جھوٹے مسیحاؤں کے پر فریب وعدے

مائیکروفنانس ایسی مالیاتی خدمت ہے ،جوچھوٹے قرضوں،انشورنس،سیونگ اکاؤنٹ،اور دوسری مالیاتی اشیاء کی پیشکش ایسے افراد یا چھوٹے کاروباروں کو کرتی ہے، جن کی پہنچ روایتی بینکوں تک نہیں ہوتی۔اسکی مشہوری پہلی بار1980میں معیشت کی گلوبل ساؤتھ کو منتقلی جیسے بڑے دعوؤں کے ساتھ کی گئی۔

ایک امریکی طالب علم ’دشمن ملک‘ کیوبا میں!

21 مئی 2024 کی صبح ورمونٹ کے چھوٹے مگر دلکش برلنگٹن ایئرپورٹ میں، میں نے اپنے والد اور سوتیلی ماں کو روانگی سے ایک گھنٹہ قبل مضبوطی سے گلے لگایا اور الوداع کہا۔ میں اس سفر پر نکلنے جا رہا تھا، جس نے میری زندگی بدل دینی تھی۔ میں ایک ماہ کے لیے بیرون ملک رہنے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا،جس سے میں پہلے کبھی نہیں گزرا تھا ، اور اس سفر کی غیر یقینی نوعیت بیک وقت پرجوش بھی تھی اور تھوڑی خوفناک بھی۔ کسی نہ کسی سطح پر میں وہیں ایئرپورٹ پر جان گیا تھا کہ یہ سفر میری زندگی کا رخ بدل دے گا۔ یہ کتنا اور کس انداز میں ایسا کرے گا، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا ، بس اندازہ ہی لگا سکتا تھا۔

جموں کشمیر: نو آبادیاتی نظام کو للکارتی عوامی حقوق تحریک کا نیا مرحلہ

جموں کشمیر کا یہ خطہ پاکستان کی پیریفریز میں سے ایک ہے اور جموں کشمیر کے لارجر ایشو کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایسی کیفیت میں انتہائی جاندار تحریک ہونے کے باوجود اس تحریک کی مکمل فتح یابی یا سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی طرف بڑھنے کا راستہ پھر پاکستان کے محنت کشوں اور محکوم قوموں کے متحرک ہونے سے مشروط ہے۔ اس کیفیت میں بالخصوص پاکستان اور بالعموم بھارت اور جنوب ایشیا سے بائیں بازو کی قوتوں اور محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں کا اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کرنا انتہائی اہم ہے۔

ذہنوں کی جنگ: طاقت، میڈیا اور ثقافت ہماری دنیا بدل رہے ہیں

پاکستان اور بھارت کے ایشیا کپ 2025 کے فائنل کے بعد ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ حالیہ تنازعات میں بھارت کے آرٹسٹ، اداکاروں اور کھلاڑیوں نے اتنا مایوس کیا جتنا پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے جواب دیا کہ وہ زمانے گئے جب بھارت کو بعض حلقے پڑھا لکھا، جمہوری اور سیکولر ملک مانتے تھے اور وہاں کے دانشوروں، آرٹسٹوں اور کھلاڑیوں کو سمجھدار مانا جاتا تھا۔ آج بہت ساری مین اسٹریم شخصیات گھمنڈی، خودغرض، متکبر، انا پرست، نفرت سے پُر، جھوٹی اور موقع پرست نظر آئیں گی۔

نفرتوں کا ایشیا کپ

پاکستان اور ہندوستان کے مابین کرکٹ مقابلہ (بالخصوص ورلڈ کپ کے دوران) واہگہ کے دونوں جانب جنگی ہیجان کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ بیس سال پہلے اردو ہندی کے اخبارات چیختی چلاتی سرخیاں جماتے۔ پھر نجی چینلوں نے آ کر اِس کام کو بامِ ِعروج پر پہنچا دیا کہ ٹی وی میڈیم ہی ایسا ہے کہ اپنی ٹیکنالوجی کے باعث اس میں بے شمار امکانات موجود ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے نفرتوں کے کھیل کو مزید ہوا دی۔

برکس ممالک غزہ میں جاری نسل کشی کی مذمت کیوں نہیں کر رہے؟

برکس ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ)، جنہوں نے پانچ مزید ریاستوں (مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ایران) کو رکنیت دی ہے، 6 اور 7 جولائی 2025 کو ریو ڈی جنیرو میں جمع ہوئے۔ سعودی عرب موجود تو تھا لیکن باضابطہ طور پر رکن ملک کے طور پر شامل نہیں ہوا۔ شراکت دار سمجھی جانے والی 20 دیگر ریاستوں کے نمائندے بھی شریک تھے۔

ثقافت کا مجاہد

ناروے میں 42 ہزار سے زائد بسے ہوئے پاکستانیوں میں بیشتر 1970 کی دہائی میں روزگار کی تلاش میں آئے تھے۔ اُن میں سے متعدد افراد یا تو خود یا اُن کی اگلی نسل اب ناروے کی سیاسی، سماجی، کاروباری اور ثقافتی زندگی کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم اس مقام پر پہنچنے کے لیے پانچ دہائیوں سے زائد لمبا اور پیچیدہ سفر طے کرنا آسان نہیں رہا۔ اس سفر میں ایک طرف پاکستانیوں کو ناروے کی زبان اور ثقافتی کوڈز سے لاعلمی کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف نسل پرستی کی وجہ سے ثقافتوں کے درمیان انضمام کے سلسلے میں رکاوٹیں تھیں۔

صمود فلوٹیلا پر سوار جماعت اسلامی کی مجسم منافقت پر سینیٹر مشتاق کے نام خط

ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ آپ جتنے عورت دشمن پہلے تھے، ممکن ہے غزہ سے واپسی پر بھی عورت دشمن پر اسی ثابت قدمی سے گامزن رہیں۔ جس طرح ’جہاد‘ کے سوال پر پہلے جماعت اسلامی دوہرے معیار کی قائل رہی، آئندہ بھی اسی پر گامزن رہے۔ اس وقت تو میں صرف ان نیک خواہشات پر اس خط کا خاتمہ چاہتا ہوں کہ آپ اور صمود فلاٹیلا پر سوار تمام افراد بحفاظت واپس پہنچیں۔ اس سے بھی اہم یہ کہ غزہ میں قتل عام بند ہو، فلسطین آزاد ہو، دنیا بھر سے جنگ اور تشدد کا خاتمہ ہو۔