نقطہ نظر

[molongui_author_box]

سامراجی قرضوں میں اضافے کی 3 وجوہات: مقروض ممالک کاسترو کا راستہ اپنائیں

قرضے سے متعلقہ مسائل میں شدت کی وجہ بعض بیرونی جھٹکے ہیں۔ یہ جھٹکے شروع تو امیر ممالک میں ہوئے مگر ان کا اثر ترقی پزیر ممالک میں اس طرح ہوا کہ قرضوں کا بحران بڑھ گیا ہے۔ پہلا جھٹکا کرونا وبا کے مغرب پر اثرات سے لگا جس سے بعد ازاں ترقی پزیر ممالک کی آبادیاں بھی متاثر ہوئیں۔ پیرو، ایکواڈور اور برازیل جیسے ممالک میں کرونا وبا کے اثرات بالخصوص بہت شدید تھے۔ اس وبا کے شدید معاشی نتائج برآمد ہوئے۔ اس وبا سے نپٹنے کے لئے ریاستوں کو جو اقدامات اٹھانے پڑے ان کی وجہ سے بحران اور بھی شدید ہوا۔ اکثر یہ ہوا کہ بیرونی و اندرونی قرضے بڑھ گئے۔

اظہار رائے کی آزادی وہی ہے جو حکمران طبقے کو حاصل ہے

اظہار رائے ایک جمہوری حق ہے،جو تسلیم شدہ انسانی حقوق شمار ہوتا ہے،لیکن بدقسمتی یہ ہے آج بھی اس حق سے انسانوں کی اکثریت محروم ہے۔ملکی اور عالمی قوانین تو اظہار رائے کی آزادی دیتے ہیں،لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کروانے والا طبقہ اظہار رائے کی اجازت نہیں دیتا۔وہی سوچ،وہی رائے قابل قبول سمجھی جاتے ہے،جو حکمران طبقہ میڈیا اور نصاب کے ذریعے بناتا ہے۔

بنگلہ دیش-پاکستان تعلقات میں انڈیا بڑی رکاوٹ ہے: شاہد العالم

”کسی سے کینہ نہیں، سب سے دوستی،بنگلہ دیش کے دستور کا ایک اہم اصول ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہتر تعلقات ممکن ہیں اگر اس کے ساتھ نسل کشی کی تاریخ کو بھی تسلیم کیاجائے، لیکن صرف یہ حقیقت ہی بہتر تعلقات کی واحدبنیاد نہیں ہونی چاہیے۔“

جوائے لینڈ: گُھٹے ہوئے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

پاکستانی فلموں کا پاکستانی ثقافت میں ہمیشہ ایک اہم کردار رہا ہے مگر اس کے باوجود فلمی صنعت معقول حکومتی سرپرستی سے محروم رہی ہے۔ خوش قسمتی سے مختلف تخلیقی افراد مُشکلات کاسامنا کرتے ہوئے فلمی صنعت کو آکسیجن مُہیاکرتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد میں ایک صائم صادق ہیں۔ اُنہوں نے سکر پٹ لکھنے اور ہدایتکاری کی تعلیم کولمبیا یونیورسٹی سکول آف دی آرٹس سے حاصل کی۔”جوائے لینڈ“ اُن کی پہلی پوری لمبائی والی فیچرفلم ہے۔ اس سے پہلے اُنہیں متعدد مُختصر فلمیں بنانے کا تجربہ ہے۔

فلم ’اوپن ہائمر‘ امریکی تاریخ کے کن گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے؟

فلم کی کہانی اوپن ہائمر کی زندگی پر لکھی کتاب ’امریکن پرومیتھیوس دی ٹرائمف اینڈ ٹریجڈی آف اوپن ہائمر‘نامی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔ پرومیتھیوس یونانی دیومالا کا ایک کردار ہے، جو سب سے بڑے دیوتا ’زیوس‘کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آگ انسانوں کو دے آتا ہے۔ سزا کے طور پر اسے پہاڑ پر زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، جہاں روز صبح ایک عقاب آ کر اس کے جگر کو نوچتا ہے اور رات میں یہ جگر دوبارہ سالم ہوجاتا ہے۔ تین گھنٹے کی فلم کے تقریباً ڈھائی گھنٹے ایٹمی بم بنانے کی ناگزیریت کا بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ صرف آخری آدھ گھنٹے میں ہیرو اپنی تہذیب کش تخلیق پر تھوڑی ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ فلم میں ایٹمی بم سے متاثرہ انسان، حیات اور ماحول کی کوئی منظر کشی نہیں کی گئی۔

’زندگی تماشہ‘: ایک دلیرانہ کوشش

سرمد کھُوسٹ کوئی متنازعہ فلم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی فلم میں کُچھ متنازعہ ہے، مگر شاید پاکستان میں انتہائی دائیں بازو کے بنیاد پرستوں کی تنقید کا نشانہ بننے کے لئے متنازعہ ہونا ضروری نہیں۔

موت کی کتاب

مسعود قمر کی کتاب ’آئینے میں جنم لیتا آدمی‘ ماضی کے شاعروں، ناول نگاروں، فلسفیوں اور فنکاروں (جیسا کہ دوستوفسکی، فرانز مارک، کافکا، محمود درویش وغیرہ) کی تخلیقی سوچ کی مظہر اور اس کا مواد تاریخی حقائق پر مبنی ہے، جیسے ان کی نظم ’عمل زمین پر تھا قہقہے آسمان پر‘ میں ضیا دور کے خاتمے کا جشن ہے، جس دور میں شاعر کو آزادی اظہار رائے کی تحریک میں سرگرم ہونے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد میں انہوں نے سویڈن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی، تاہم اس سب کے باجود یہ کتاب اپنے خواص میں عین موت کی کتاب ہے۔

کارل مارکس بطور ایک صحافی

تاہم مارکس کا اپنے نیویارک ٹربیون کے کالم کیلئے بنیادی نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ واقعات کو سیاست اور معاشیات کے کچھ بنیادی سوالات کی بنیاد پر کھنگالتے اور پر ان سوالوں پر اپنا فیصلہ سناتے تھے۔ وہ ایسے واقعات کو زیر بحث لاتے جو خبروں میں ہوتے تھے، جیسے کوئی الیکشن، بغاوت، دوسری افیون جنگ، امریکی خانہ جنگی کا آغاز وغیرہ۔ اس لحاظ سے مارکس کی صحافت کچھ ایسے تحریروں سے مشابہت رکھتی ہے، جو آج کل رائے عامہ کے جرائد میں شائع ہوتی ہیں۔ مارکس کی صحافتی تحریر اور عوامی امور پر کی جانیوالے سیاسی صحافت، جو بیسیوں صدی میں یورپ میں عام تھی، کے درمیان براۂ راست لکیر کھنچنا مشکل نہیں ہے۔