Month: 2022 اکتوبر

[molongui_author_box]

قائد اعظم یونیورسٹی کیمپس کو دو لخت کرنے کا منصوبہ

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی اراضی پر قبضے اور کیمپس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے درمیان سے ایک بائی پاس روڈ تعمیر کئے جانے کے منصوبہ کے حوالے سے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے ایک ویڈیو انٹرویو میں تفصیلات بتائی ہیں۔

سوات: فضل اللہ کو تین سال منظم ہونے کا موقع ملا، اب ایسا ممکن نہیں

ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ طالبان مالاکنڈ ڈویژن سے کبھی گئے ہی نہیں تھے، انکی محفوظ پناہ گاہیں آج بھی موجود ہیں۔ سرحداور باڑ بھی عام لوگوں کیلئے رکاوٹ ہیں، دہشتگرد جب چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد انہیں لایا بھی گیا ہے لیکن اہم چیز انہیں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ریاست کی پشت پناہی نہ ہو تو طالبان کو مقامی عوام چند لمحوں میں ختم بھی کر سکتے ہیں اور ان کی دہشت کا بھی خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ اب لوگ تنگ آ چکے ہیں، اب اس قتل عام کو دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

راولپنڈی: کاروانِ انقلاب طلبہ کنونشن بعنوان ’طلبہ تحریک اور انقلابی سیاست‘ کا انعقاد

طلبہ یونین پر عائد پابندی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے اور فوری الیکشن شیڈول جاری کیا جائے۔فیسوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے اور سیلاب متاثرہ علاقوں کے طلبہ فیس ایک سال تک معاف کی جائے۔تعلیم کی نجکاری کا عمل بند کیا جائے اور تعلیم کے بجٹ میں 10گنا اضافہ کیا جائے۔ہر ادارے میں طلبہ کی نمائندگی پر مبنی خصوصی جنسی ہراسانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ طالبات کے جبری ہاسٹل کرفیو کا خاتمہ کیا جائے اور طالبات کے مخصوص گراؤنڈ مہیا کیے جائیں۔ریاست ہر نوجوان کو روزگار دے یا 20ہزار روپے ماہانہ بیروزگاری الاؤنس دیا جائے۔منتخب ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو فوری رہا کیا جائے۔علم ادب پبلشر کے فہیم لالہ بلوچ پر قائم بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ کیا جائیاور فوری رہا کیا جائے۔

ایسے معاشروں کی کہانی جہاں اقلیتیں وفاداری اور توقعات کی چکی میں پستی ہیں

بات دراصل جدید تھیٹر کے ذریعے کثیرالثقافتی معاشرے، انسانی رویوں، نفسیاتی الجھنوں اور ہجرت کے متعدد پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے، مگر میں مرزا غالب کے ایک مصرعے سے نارویجن ڈرامہ ”سوفی صد“ پر انپے اس مضمون کاآغاز کرنا چاہتا ہوں: ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں توکیا ہوتا۔“

یہ لانگ مارچ جلد یا بدیر ناکامی کا سامنا کرے گا

ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں غیر معمولی شرکت سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ عمران خان کی صورت میں تیسری طا قت کو ملکی سطح پر مصنوعی طور تیار کرنے کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی۔ یہ پریس کانفرنس اس تجربہ سے ناکامی کا اظہار کرنے کے لیے تھی اور خاص طور پر لانگ مارچ سے ایک روز پہلے اس پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے تمام قریبی رابطوں اور سیاست دانوں پر وا ضح کرنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ نہ چلیں اور ا نکا ساتھ نہ دیں۔ لانگ مارچ کا سیاسی انداز میں جواب پریس کانفرنس کر کے دیا گیا، دیگر ریاستی حربے اس کے بعد استعمال کئے جائیں گے۔ یہ وارننگ بھی تھی کہ ابھی سیاسی بات کر رہے ہیں پھر دوسرے طریقے سے بھی نپٹیں گے۔

معروف مارکسی دانشور مائیک ڈیوس وفات پا گئے

مائیک ڈیوس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ان چند مارکس وادیوں میں سے تھے، جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد مایوس ہونے کی بجائے نظریات پر نہ صرف قائم رہے بلکہ انہوں نے محنت کش طبقے کی نجات کے نظریات کے علم کو مسلسل بلند کئے رکھا۔