یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا تھا۔ نوے کی دہائی نصف سے زائد گزر چکی تھی۔ میرے ہم جماعت اوردوست مسعود کو جب پتہ چلا کہ میں نے ’سپارٹیکس‘ نہیں پڑھا تو چند روز بعد انہوں نے مجھے یہ ناول پڑھنے کے لئے دیا۔ مزاحمت، بغاوت اور بہادی کا سبق دیتا ہوا یہ ناول جب تک میں نے ختم نہیں کر لیا، میں سویا نہیں۔ میں نے ایسا ناول اس سے قبل پہلے نہیں پڑھا تھا۔ ان دنوں میں ’جدوجہد گروپ‘ کا رکن بن چکا تھا اور جو بھی نئی کتاب پڑھتا، اپنے ساتھیوں سے اُس کا ذکر کرتا۔ گروپ کے مٹھی بھر تمام ساتھیوں نے یہ ناول پڑھ رکھا تھا۔
