Ali Madeeh Hashmi

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔


فیض کی شاعری سوشلزم کی پکار تھی

فیض فیسٹیول میں ان کی اردو میں سوانح عمری بارے ہونے والے سیشن کے دوران کسی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا: فیض کے ذہن میں ان کی شاعری کا ایک خاص سیاسی اور نظریاتی (سوشلسٹ) مقصد تھا مگر ایسا کیوں کہ ان کی شاعری کو اکثر سیاق و سباق سے کاٹ کر دیکھا جاتا ہے؟ بہ الفاظ ِدیگر، فیض نے مزدوروں، کسانوں، ٹریڈ یونین، خواتین اور مذہبی اقلیتوں، کے لئے جو جدوجہد کی اس پر اتنا زور کیوں نہیں دیا جاتا جتنا شائد فیض صاحب نے خود دیا ہوتا؟ یہ سوال فیض فیسٹیول کی میڈیا کوریج کے پس منظر میں پوچھا گیا تھا۔

پاکستانی طالبان سے لڑنے کے لئے فیض احمد فیض کا نسخہ

وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے ’نمک حلال‘ ہونے کا پراپیگنڈہ احمقانہ ہے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا ”میں نے انہیں بتایا کہ یہ نمک حلال والی بات احمقانہ ہے۔ ہندوستان ان کا اپنا وطن ہے اور وہ اپنی ہی دھرتی کا نمک کھا رہے ہیں۔ یوں ہندوستانی سپاہی کی وفا داری نہیں جیتی جا سکتی۔ ہندستانی سپاہی کو بتانا ہو گا کہ ان کے وطن کو جاپان سے کیا خطرہ لاحق ہے اور اگر ہندوستان پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ سپاہیوں کو باور کرانا ہو گا کہ یہ جنگ وہ اپنی دھرتی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں“۔

راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حِصہ دوم)

راولپنڈی سازش کیس کی تفصیلات مقدمہ ختم ہونے کے برسوں بعد تک بھی راز و اَسرار میں لپٹی ہوئی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں کہ اصل ’سازش‘ نئی نویلی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) پر پابندی لگانا اور ان تمام آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو سیاسی آزادی اور کشادہ ذہنیت کا مطالبہ کر رہی تھیں۔یہ تفصیلات جو مقدمے کی کارروائی کے دوران اور بعد میں سامنے آتی رہیں تھیں ان سے الزام تراشی کے اصل مقاصد بھی سامنے آ گئے۔

راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حصہ اوّل)

عام لوگ جنہوں نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ریاست ہو جہاں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ پریشان حال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ بہرحال قیامِ پاکستان کے فوراً بعدخاص کر 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد حکومتِ پاکستان ایسے افراد کے ہاتھوں میں آ گئی جو ان تصورات و نظریات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

آج ن م راشد کی 111 ویں سالگرہ ہے

راشد کو ’نقادوں‘ کی حیرت زدہ چیخوں کی کیا پرواہ ہو سکتی تھی۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے فنکار کے تخلیقی کام کو ’آزادی کی شرائط کے تحت‘ دیکھا۔ مختلف حلقوں کی خواہشات کے تابع ادب تخلیق کرنا انہیں بہت ناگوار تھا، چاہے اس خواہش کا اظہار ریاستی کرداروں کی طرف سے ہو یا نظریاتی پنڈتوں کی جانب سے، یہ ان کے نزدیک بہت بڑی ناانصافی تھی۔ اسی طرح جب انہوں نے اپنی موت کے بعد خود کو جلانے کا کہا تو ایسا ہی تھا جیسے انہوں نے…ایک معجزہ برپا کیا…کیوں کہ جب انسان آزادی کیلئے ساری زندگی زنجیریں توڑتا رہا ہو، تو پھر اس سلسلہ کی آخری کڑی کیوں باقی رہے؟

فیض اور فلسطین

”محترم شاعر اور برادر عزیز فیض احمد فیض! آپ کی شکل میں فلسطینی لوگوں کو ایک ایسا شاعر نصیب ہوا ہے جو ترقی پسند ہے، عالمی شاعر ہے، عالمی امن کے لئے ان تھک جدوجہد کرنے والا کارکن ہے اور آزادی و خوشحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے مظلوم عوام کا ساتھی ہے۔ ہم عرب فلسطینیوں کو آپ کی دوستی پر فخر ہے۔ آپ کے گہرے شعور، اہل فلسطین اور ان کی جائز جدوجہد میں آپ کی معاونت کرنے پر ہمیں آپ پر فخر ہے۔ اہل فلسطین خاص کر فلسطینی بچوں اور انقلابیوں کے لئے آپ نے جو دلسوز اور بہترین نظمیں کہیں وہ ہمیشہ برادرانہ اور سچی محبت کی مثال بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گی“۔

منٹو: ایک نفسیاتی مطالعہ

منٹو بھی انہیں فنکاروں کی صف میں کھڑے ہیں جن کا ذکر فرائڈ کر رہے ہیں۔ منٹو کی کہانیاں پڑھ کر کوئی شک نہیں رہتا کہ وہ ایک ماہر نفسیات دان ہیں۔ افسانہ چاہے کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہوں، منٹو کے کر دار کتا ب کے صفحوں سے اچھل کر قاری کے دل میں پیو ست ہو جاتے ہیں اور کہا نی ختم ہونے کے کئی گھنٹوں اور دنوں بعد تک پڑھنے والا سوچتا رہتا ہے کیا کر پال کور(موذیل) فسادیوں سے جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی؟ اور تر لو چن سنگھ کا کیا بنا؟ جب نیستی (لائسنس) کو کمیٹی نے اپنا جسم فروش کرنے پر مجبور کر دیا تو اس کے بعد اس پر کیا گزری؟ سو گند ھی (ہتک) اور اس بے نام ویشیا (سو کینڈل پاور کابلب) کا کیا بنا جنہوں نے اپنی حالت سے تنگ آ کر ایسا قدم اٹھایا جس کا انجام عبرت ناک ہو سکتا تھا؟

کافرِ عشقم

1947ءکے ان ہولناک دنوں میں، انُ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں، جنہوں نے اپنی جان کی بازیاں لگا کر دوسرے مذہب کے لوگوں کی جانیں بچائیں، کئی ایسے ضرور ہونگے جن کی سانسوں میں اقبال کی شاعری رچی بسی تھی۔

محبت اور ویلنٹائن ڈے

محبت کوئی مستحکم رجحان نہیں، یہ شروع ہوتی ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ نوجوان مرد اور خواتین کے مابین جو محبت ہمارے مذہبی اسکالرز اور سیاستدانوں کو ہر سال فروری میں بہت پریشان کرتی ہے وہ ایک گہرے احساس کا سطحی عکس ہے۔ اسے دبا یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بلا شبہ یہ کسی معاشرے کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ معاشرتی مفادات میں وہ اس محبت کو اس کے ضابطے کے اندر رکھے۔