Altamash Tasadduq

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔


سرینگر میں جی 20 ٹورازم اجلاس سے وابستہ خوش فہمیاں اور حقائق

جی 20 دنیا کی دو تہائی آبادی اور عالمی اقتصادی پیداوار اور تجارت کا ذمہ دار ہے۔ اس فورم کے قیام کا مقصد عالمی سطح پر مالیاتی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے ثابت کر دیا کہ منڈی کی بے لگام قوتوں پر مبنی نظام میں کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی، جس سے عالمی مالیاتی استحکام قائم کیا جا سکے۔ حکمران اور اس کے نمائندے نظام کو نہیں چلاتے، بلکہ یہ نظام کے تقاضے ہیں، جن کو یہ حکمران اور ان کے نمائندے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نظام 2008ء کے بحران کے اثرات سے ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ ایک اور بحران منڈلا رہا ہے، جس کو حکمرانوں کا کوئی اجلاس روک نہیں سکتا ہے۔

دیوتاؤں کی لڑائی میں عوام کی قربانی

پاکستانی ریاست کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اپنے آغاز سے ہی یہ ریاست معاشی، سیاسی اور نظریاتی بحران کا شکار نظر آتی ہے۔ تاہم بحران کی جو شدت اور انتشار کی جو کیفیت آج ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے۔ معاشی بحران اور سیاسی و سماجی انتشار اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے۔ حکمران طبقے کی لڑائی خفیہ سازشوں اور الزام تراشیوں سے نکل کر سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گھروں پر حملوں اور گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے تک پہنچ چکی ہے۔ ریاستی اداروں میں پھوٹ اور دھڑے بندی،جو پہلے ڈھکی چھپی تھی، اب بالکل واضح ہو چکی ہے۔

ایران: ملائیت کے خلاف عام بغاوت

ایرانی محنت کش اگر ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو وہ صرف ملائیت کی وحشت کے خاتمے تک خود کو محدود نہیں رکھیں گے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے اس بنیاد کو ہی ختم کریں گے جو انسان کو انسان پر جبر کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔

بھارتی جموں کشمیر میں فوجیوں سمیت لاکھوں غیر مقامی افراد کو ووٹ کا حق

بی جے پی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف ہندوستانی محنت کشوں پر معاشی حملوں میں اضافہ ہے، کشمیری عوام پر جبر میں اضافہ ہوا بلکہ خواتین، مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے خلاف تعصب کو بھی بڑے پیمانے میں فروغ دیا گیا۔

حکمران طبقے اور افسر شاہی کی مراعات کیسے ختم ہونگی؟

آج محنت کش مٹھی بھر سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کے لیے کام کرتے ہیں اور اس نظام کو چلا رہے ہیں۔ یہی محنت کش سرمایہ داروں کے بغیر اپنے لیے بھی سماج کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لینن نے کہا تھا ”ہر قیمت پر ہمیں ان پرانے، نامعقول، وحشی اور گھٹیا تعصبات کو نیست و نابود کرنا ہے کہ صرف نام نہاد اشرافیہ، امیر طبقے یا امیروں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ہی ریاست کو چلا سکتے ہیں۔“

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

کامریڈ عثمان نے اپنی نجی زندگی میں بے شمار مشکالات اور مصائب کے باوجود آخری سانس تک اس نظام کی ذلتوں، غلامی اور استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔

حکمرانوں کے نظام پر محنت کش کا عدم اعتماد

حکمران جماعت اور اپوزیشن اتحاد دونوں کے پاس ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے، کردار کشی کرنے اور بہتان تراشی کے سوا محنت کش عوام کو درپیش مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری، لا علاجی اور عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے نجات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ کسی میں یہ جرات نہیں ہے جو آئی ایم ایف کی پالیسوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرے اور ان کے قرضے ضبط کرنے کی بات کر سکے۔ اپوزیشن اتحاد یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہی تو قیامت آ جائے گی۔ حکمران جماعت قومی سلامتی اور خود مختاری کا پرانا چورن فروخت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے رہی ہے۔

خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی انسانی زندگی پر منڈی کی بے رحم قوتوں کے بجائے انسان کا اپنا اختیار قائم کیا جا سکتا ہے۔

لال خان تم نہیں رہے پر یہ لڑائی تو ہے!

کامریڈ لال خان کے فکری اور عملی کام کو کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ کامریڈ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی تعمیر کی گئی سرخ انقلابیوں پر مشتمل فوج موجود ہے، جو اگر درست نظریات اور حکمت عملی پر کاربند رہی تو آنے والے وقت میں شروع ہونے والی طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ لال خان ہم میں نہیں ہیں لیکن جب تک طبقات موجود ہیں، امیر اور غریب کی تفریق موجود ہے، یہ لڑائی تو ہے۔ ان کی زندگی کا پیغام ہے کہ طبقاتی جنگ کی تیاری کو تیز کرو، انقلابی نظریات کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاؤ، ایک فیصد طبقے کی حاکمیت کا خاتمہ کر کے محنت کشوں کوسرمائے کی ان زنجیروں سے آزاد کرو۔