Badar Rafiq

بدر رفیق کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ سے ہے۔ وہ جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے میگزین ’عزم‘ کے مدیر ہیں۔


پانی بھی ہمیں ملتا ہے سیلاب کی صورت!

اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب رائج الوقت سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کا یہ بنیادی معاشی اور سیاسی ڈھانچہ ہے جس میں کسی بھی چیز کے پیدا کرنے، تعمیر کرنے اور خریدنے کا مقصد محض سرمایہ کاروں کے منافع جات میں اضافہ اور ایک فی صد حکمرانوں کے سیاسی مفادات کا تحفظ ہے نہ کہ 99 فی صد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل ہے۔

جموں کشمیر: 2300 میگا واٹ سستی بجلی کے بدلے 400 میگا واٹ مہنگی بجلی بھی نہیں ملتی!

1990ء کی دہائی میں بے نظیر کی حکومت کے دوران مارگریٹ تھیچر کے فارمولہ کو استعمال کرتے ہوئے نیو لبرل اکونومی کو پاکستان میں رائج کرنے کے حوالہ سے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اسی سلسلہ میں پاکستان کے پاور سیکٹر کی نجکاری کا آغاز کیا گیا۔ اس نجکاری کو اس کے بعد آنے والی تمام نام نہاد جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریتوں نے جاری رکھا۔

یہ شاہراہیں نہیں…قتل گاہیں ہیں!

ہاں! یہ وہی محنت کش طبقہ ہے، جو ان تمام تکالیف کو برصغیر کی تقسیم کے بعد اور پاکستان میں ضیا آمریت کے بعد سے برداشت کرتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف غم و غصے کو جمع کر رہا ہے۔ اس سماجی غم و غصے اور انقلابی تحریک میں شائد کسی ایک چھوٹے چنگاری نما واقعے کا فاصلہ باقی رہ چکا ہے۔ جب تاریخ اپنے الٹ میں بدلے گی، تو پھر یہی شاہراہیں شائد قتل گاہیں تو ہوں پر محنت کشوں کا انتقام اتنا گھٹیا اور چھوٹا نہیں ہو گا کہ ان شاہراہوں پر راج کرتے ہوئے انسانوں کا قتل عام کرے، بلکہ پھر آج کی یہ ”موت بانٹتی شاہراہیں“ قتل گاہیں بنیں گی لیکن یہ قتل گاہیں انسانوں کی بجائے ان انسان دشمن سامراجی اور سرمایہ دارانہ رشتوں کی ہونگی، جن رشتوں کو قائم رکھنے میں مفادات تلاشنے والے حکمران طبقات محنت کشوں اور نوجوانوں کے قتل عام کے موجب بن رہے ہیں۔