Farooq Sulehria

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔


پی ٹی آئی ہی نہیں، ن لیگ بھی ٹوٹ گئی ہے

پاکستان تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ پر تبصرے جاری ہیں۔ ایک دلچسپ پہلو پر تبصرہ البتہٰ دیکھنے کو نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہی نہیں، مسلم لیگ نواز بھی ٹوٹ گئی۔ عمل مختلف ہے۔ عمران خان کو وقتی طور پر فوج سے ٹکر لینے کی وجہ سے، اپنی جماعت کی توڑ پھوڑ دیکھنا پڑی ہے۔ انہیں ریاستی تشدد سے ختم کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، نواز لیگ فوج سے تعاون کے نتیجے میں عوام کے اندر اپنی حمایت کھو کر کھوکھلی ہو گئی ہے۔

جنرل جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ کے نام ایک خط

آپ کی آڈیو سے مزید پتہ چلا کہ آپ جمہوریت پسند ہیں اور حقیقی آزادی کی قائل ہیں۔ امید ہے آپ اپنے والد سلمان شاہ کے خلاف بھی کسی دن یہ موقف اختیار کریں گی کہ انہوں نے جنرل مشرف کی فوجی آمریت کا حصہ بن کر جمہوریت کا نقصان کیا۔ امید ہے آپ کے والد بھی اپنی اس جمہوریت دشمنی پر پاکستانی شہریوں سے معافی مانگیں گے کیونکہ جب سے آپ روپوش ہوئی ہیں انہیں بھی جمہوریت کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ویسے کبھی سوچا، یا آپ کے والد نے (جو ماہر معیشت ہیں) کبھی بتایا کہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی، نئیو لبرلزم، نج کاری، آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد بھی انتہائی غیر جمہوری معاشی اقدامات ہیں۔

اہل زمان پارک کے نام کابل سے ایک خط

کابل چالیس سال خونی قسم کا زمان پارک بنا رہا۔ یہاں جب ’پر امن احتجاج‘ہوتا تھا پٹرول بم نہیں، خود کش بم پھٹتے تھے۔ یہاں پنجاب پولیس نہیں سویت روس، امریکہ، سی آئی اے، القاعدہ، ’دنیا کی نمبر ون‘، سعودی مخبرات، پوری مسلم ورلڈ کے جہادی، پاکستان اور کشمیر کے مجاہدین…ہمارے سکولوں، ہسپتالوں، قبرستانوں، درگاہوں، بازاروں، شاہراہوں، گوردواروں، مندروں اور مسجدوں پر کبھی جہازوں سے مدر آف آل بامبز گراتے تو کبھی مومن بھائی جنت کی تلاش میں کابل کی کسی بستی کو جہنم بنا دیتے۔

’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘

یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

ایک ممتحن کی غلطی نے آشکار کیا

دلیل کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اسے اصول کے تابع ہونا چاہئے۔ اگر ہم ترقی پسند ہیں تو ہمارے کچھ اصول بھی ہیں ورنہ ہم موقع پرست ہیں۔ ترقی پسندوں اور قوم یوتھ میں اگر فرق ہے تو اصول پرستی کا ہے۔ دوم، دلیل وہ ہوتی ہے جو یونیورسل ہو۔ اگر ایک سوال آکسفورڈ یونیورسٹی میں پوچھا جا سکتا ہے تو وہ سوال کامسیٹ میں اٹھانے کی بھی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہم دلیل کو ’Relative‘ بنا دیں گے تو یہ ہمارے گلے پڑ جائے گی۔ اگر کامسیٹ کا لیکچرر محرمات کے مابین سیکس پر سوال نہیں پوچھ سکتا تو پاکستان کے فوجی بجٹ پر سوال اٹھانا بھی منع ہونا چاہئے۔ کیا خیال ہے؟

طالبان زرداری بھٹو

معلوم نہیں کسی نے انہیں یاد دلایا یا نہیں کہ جب ناٹو اور امریکہ افغانستان میں موجود تھے تو طالبان اسلام آباد میں ریاست کے شاہی مہمان بن کر رہ رہے تھے۔ جب امریکہ رخصت ہوا تو فتح کے شادیانے بجائے گئے۔ ملک کے وزیر اعظم نے کہا کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں تو اپوزیشن رہنما خوجہ آصف کو لگا کہ طاقت امریکہ کے پاس ہے مگر اللہ طالبان کے ساتھ ہے۔ جنرل فیض حمید چائے پینے سرینا ہوٹل کابل پہنچے ہوئے تھے۔ تب تو بلاول بھٹو نے امریکہ سے گلا نہیں کیا کہ بھائی کیوں جا رہے ہو؟ (واضح رہے، اس دلیل کا مطلب افغانستان پر امریکی قبضے کی حمایت نہیں، مقصد صرف بلاول بھٹو کے تضادات کو اجاگر کر نا ہے)۔

تیندوا بنام جرنل صاحب!

سر! دوسری بات یہ کہ اپنے فرار کے الزام میں ”نامعلوم افراد“ کیخلاف ایف آئی آر پر میں پولیس کی شدید مذمت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سرا سر جھوٹی ایف آئی آر ہے۔ سر! میں تنیدوا ہوں احسان الٰہی احسان نہیں کہ نا معلوم افراد مجھے فرار کرا دیں۔ ویسے سر! آپ پولیس کی جرات تو دیکھیں کہ نا معلوم افراد کے خلاف ہی ایف آئی آر کاٹ دی۔ کل یُگ ہے مہا راج۔ آج نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر کٹی ہے، کل کو محکمہ زراعت کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہو جائے گا۔ یہ پولیس والے ملک توڑنا چاہتے ہیں۔

افغان ہمارا ویزا نہیں لے سکتا مگر طالبان، خود کش حملہ آور جب چاہے آئیں جائیں: بلاول بھٹو

میں بہت ’Categorically‘ بتانے چاہتے ہوں کہ بھٹو خاندان نے ہمیشہ طالبان کے ساتھ دئیے ہیں۔ شہید ذولفقار علی بھٹو نے حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو کابل سے بلا کر گوریلا ٹریننگ دئیے تھے۔ میرا امی نے اپنا دوسرا حکومت میں طالبان کو لانچ کئے تھیں۔ میجر جنرل بابر نے ہمارا بچپن میں بتائے تھے کہ جس طرح تم ہمارا اپنا بچہ ہیں ویسا طالبان ہمارا اپنا بچہ ہیں۔ میں خود بھی طالبان سے ملے ہیں۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ میرا شہیدامی کو ان کا جیکٹ والا بندہ نے شہید نہیں کیا تھے۔ میرا ابو کو پتہ ہے کہ کس نے کیا تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے بچوں کونہیں بتائے کہ کس نے کیا تھے لیکن سب کو پتہ ہے کہ کس نے کیا تھے۔ جب ہم واپس اپوزیشن کا حصہ بنی گا تب ہم سب کو بتائیں گا کہ یہ جو نا معلوم ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں۔

کیا جنرل مشرف لبرل تھے؟

اعزاز سید نے اپنے ویلاگ ’ٹاک شاک‘ میں جنرل مشرف سے اپنی ملاقاتوں کا احوال سنایا اور جنرل مشرف کی’لبرلزم‘کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ جنرل مشرف اس بات پر بہت خوش ہوئے جب اعزاز سید نے انہیں بتایا کہ وہ خواتین میں بہت مقبول ہیں۔

جی سی یو میں طارق جمیل تو آ سکتے ہیں مگر فیض احمد فیض کا داخلہ بند ہے

وائے افسوس! اس معتبر کیمپس پر عمران خان جلسہ کر سکتے ہیں، مولانا طارق اپنے رجعتی، عورت دشمن اور عوام دشمن نظریات پیش کرنے کے لئے بطور مہمان خصوصی مدعو ہوتے ہیں اور وائس چانسلر کے پہلو میں بیٹھ کر ہر طرح کی غیر سائنسی، غیر منطقی باتیں طالب علم کو بتاتے ہیں۔