Farooq Sulehria

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔


مسلم دنیا میں سامراج مذہبی بنیاد پرستی کا سر پرست اعلیٰ رہا ہے

5 جنوری 1957ء، امریکی صدر آئزن ہاور نے کانگرس سے مطالبہ کیا کہ انہیں اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ خلیج کی ہر اس قوم کو زیادہ معاشی و عسکری مدد، حتیٰ کہ امریکی پروٹیکشن فراہم کر سکیں، جسے کیمونزم سے خطرہ لاحق ہے۔ دو ماہ بعد کانگرس نے ایک قرار داد منظور کی جسے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ اس ڈاکٹرائن کا اصل نشانہ عرب قوم پرستی تھی (بحوالہ یعقوب، 2004، ص 1 تا 2)۔

کیا ارادہ پختہ ہو تو انسان کوئی بھی منزل پا سکتا ہے؟

بہرحال اصل بحث یہ ہے کہ کیا انسان محنت اور مصمم ارادے سے سب کچھ حاصل کر سکتا ہے تو جواب ہے، نہیں۔ پہلی بات، اگر محنت سے دولت کا حصول ممکن ہوتا تو پاکستان کا کسان صدیوں سے بھوک کا شکار نہ ہوتا۔ کسان عمر بھر محنت کرتا ہے۔ مزدور عمر بھر اور دن بھر محنت کرتا ہے۔ دونوں دولت مند نہیں بن پاتے۔ جن ملکوں میں مزدور کی تنخواہ اچھی ہے، وہاں بھی مزدور جتنا مرضی اوور ٹائم لگا لے، ارب پتی تو کجا کروڑ پتی بھی نہیں بن پاتا۔ دولت محنت سے نہیں، دوسروں کے استحصال سے کمائی جاتی ہے۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ فلمی یوتھیاپا ہے

پاکستان تحریک انصاف کی سیاست دراصل سیاست سے عاری سیاست ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس جماعت کی سیاست دراصل سیاست دشمنی کی سیاست ہے۔ یہ سیاست ضیا الحق کی سیاست ہے جو سیاست کو برا کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے۔ سیاست کا مطلب ہے مکالمہ اور جمہوریت۔ ضیا الحق کی سیاست ہے آمریت۔ عین اسی طرح، مولا جٹ کی ری میک کا مولا جٹ سے کوئی تعلق ہے نہ پنجابی فلم اندسٹری سے۔ یہ سراسر ہالی وڈ فلموں کی نقالی ہے۔ یہ تھوڑا سا گلیڈی ایٹر کا چربہ ہے۔ تھوڑا سا گیم آف تھرونز کی نقالی۔

پاکستانی جنگوں کی متبادل تاریخ

تبصرے کے آخر میں دو معروضات کرنا چاہوں گا۔ اؤل، طارق رحمن نے ایک گروہ یا اوپری ٹولے کے حوالے سے بحث کو بہت آگے نہیں بڑھایا۔ کیا جنگ کے فیصلے بہرحال اوپر بیٹھے ٹولے ہی نہیں کرتے؟ جہاں عوام کی حمایت درکار ہو، حکمران کامیابی سے جنگی جنون پیدا کر لیتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح عراق پر انتہائی بلاجواز حملے کے لئے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی، اس سے سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹولے ہی کرتے ہیں، چاہے یہ فیصلے خفیہ ہوں یا عوام کو بے وقوف بنا کر۔ اس بابت کتاب میں تھوڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔ دوم، اس میں شک نہیں کہ 1971ء کے دوران بھٹو نے جرنیلوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی پیٹھ میں خنجر گھونپا البتہ 1965ء کی جنگ میں ان پر، اس کتاب میں، ضرورت سے زیادہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے جس کا دستاویزی ثبوت بہت متاثر کن نہیں۔

قرضے واپس دینے سے انکار کرو! ملک کے اندر موجود دولت استعمال کرو

ہونا یہ چاہئے کہ قرضے دینے سے انکار کیا جائے۔ اگر انکار نہیں کر سکتے تو کم از کم پانچ سال کے لئے عالمی قرضوں کی ادائیگی موخر کر دی جائے۔ کئی ممالک ایسا کر چکے ہیں۔ ان صفحات پر ہم بارہا ایسے ممالک، بالخصوص ایکواڈور، کی مثال دے چکے ہیں۔ اب جبکہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے پاکستان کے لئے دنیا بھر میں ایک ہمدردی موجود ہے، قرضے دینے سے انکار اخلاقی لحاظ سے بھی درست موقف ہے۔ عالمی حالات سے ناواقف اور سیاسی لحاظ سے بزدل حکومت میں نہ دانش ہے نہ حوصلہ کہ ایسا کرنے کا اعلان کرے۔

سیٹھی نہ راجا: چیئرمین پی سی بی کا جمہوری انتخاب ہونا چاہئے

معروف صحافی عمر چیمہ کا خیال تھا کہ اگر تو صحافی کچھ ڈیلیور کر سکتے ہیں تو ایسا کرنے میں حرج نہیں۔ عمر چیمہ جو عموماً بہت مدلل گفتگو کرتے ہیں، نے اس بات کو البتہ زیر بحث نہیں لایا کہ صحافیوں کو عہدے دئیے ہی بطور رشوت جاتے ہیں۔ اگر تو کوئی صحافی رضاکارانہ طور پر کوئی ’قومی خدمت‘ سر انجام دینا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے، لیکن جب تنخواہ اور سٹیٹس کی شکل میں ہذا من فضل ربیٰ بھی شامل ہو تو پھر معاملہ رشوت اور بدعنوانی کا بن جاتا ہے۔ ممکن ہے نجم سیٹھی تنخواہ نہ لے رہے ہوں، مگر اس عہدے کے ساتھ اتنا سٹیٹس شامل ہے کہ وہی کافی ہے رشوت کے طور پر۔

گرامشی کو نئے سال سے نفرت سہی، بطور سوشلسٹ میں نیو ائیر ضرور مناتا ہوں

گرامشی کو نئے سال سے نفرت سہی، بطور سوشلسٹ میں نیو ائیر ضرور مناتا ہوں
فاروق سلہریا

نئے سال کی آمد پر بائیں بازو کے بعض ساتھی انتہائی مایوس کن پیغامات اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کرتے ہیں۔ امسال بھی یہی ہوا۔

گرامشی (گرامچی) کا مندرجہ ذیل مضمون، بعنون ’مجھے نئے سال سے نفرت کیوں ہے‘ (ترجمہ: علی تراب)،بھی اکثر شیئر کیا جاتا ہے:

”ہر صبح جب آسمان کے سال میں میری آنکھ کھلتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ نئے سال کا دن ہے۔ اسی لیے مجھے نئے سال کے دن سے نفرت ہے جو اکاؤنٹس کی سالانہ رسید کی طرح آن ٹپکتا ہے۔ جو اپنے حساب کتاب، بقایا جات اور نئے انتظامی بجٹ کے ساتھ زندگی اور انسانی روح کو ایک کاروباری عمل میں بدل دیتا ہے۔ یہ زندگی سے اسکا تسلسل اور روح چھین لیتا ہے۔ آپ واقعی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ایک سال اور اگلے کے درمیان کوئی وقفہ ہے کہ ایک نئی تاریخ شروع ہونے جا رہی ہے۔ آپ نئے عہد کرتے ہیں، اور انکے ٹوٹنے پر پچھتاتے ہیں۔ عمومی طور پر تاریخوں کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں واقعات کی ترتیب کا علم تاریخ کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ چار یا پانچ بنیادی تاریخیں ایسی ہیں جو ہر اچھے انسان کے دماغ میں محفوظ رہتی ہیں جنہوں نے تاریخ کے ساتھ بھدے مذاق کیے ہیں۔ وہ بھی نئے سال ہی ہیں۔ رومی تاریخ کا نیا سال، یا قرون وسطی کا، یا جدید دور کا۔ اور وہ اس قدر جارحانہ اور مظبوط ہو گئے ہیں کہ ہم کبھی کبھی اپنے آپ کو یہ سوچتا پاتے ہیں کہ شاید اٹلی میں زندگی کا آغاز 752ء میں ہوا اور یہ کہ 1490ء یا 1492ء کوئی پہاڑ نما سال ہیں جنہیں پھلانگ کر انسانیت ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئی۔ لہٰذا تاریخ ایک رکاوٹ بن جاتی ہے، ایک ایسی دیوار جو ہمیں یہ دیکھنے سے روکتی ہے کہ تاریخ سینما کی کسی فلم میں آنے والے انٹرولز کی طرح رکتی نہیں بلکہ ایک مستحکم سیدھی لکیر پر مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اسی لیے مجھے نئے سال کے دن سے نفرت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر صبح میرے لیے نیا سال ہو۔ ہر دن میں خود پر غور کرنا چاہتا ہوں، اور ہر دن میں اپنی تجدید کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی دن آرام کا نہ ہو۔ جب میں زندگی کے شدت سے دھت ہوجاؤں اور ایک نیا جوش حاصل کرنے کیلئے حیوانیت میں ڈوبنا چاہوں تو میں خود رکنے فیصلہ کروں۔ کوئی روحانی قید نہ ہو۔ میں چاہوں گا کہ میرا ہر لمحہ نیا ہو جو ساتھ ہی ساتھ پچھلے لمحوں سے ایک تسلسل میں جڑا ہو۔ کوئی مخصوص تہوار نہ ہو جو مجھے ایک مخصوص انداز میں ایسے اجنبیوں کے ساتھ منانا پڑے جن کی مجھے کوئی پرواہ نہیں، صرف اس لیے کہ ہمارا دادا کے دادا اور انکے دادا یہ سب منایا کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی یہ منانا چاہیے۔ مجھے یہ چیز بہت کراہت آمیز لگتی ہے۔ مجھے اس وجہ سے بھی سوشلزم کا انتظار ہے کیونکہ یہ ان تمام تہواروں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا جن کی ہماری روح سے کوئی ہم آہنگی نہیں اور اگر وہ نئے تہوار تخلیق کرے تو کم از کم وہ ہمارے اپنے ہوں، ناکہ ہمارے احمق اجداد کی طرف سے ہم پر تھوپے گئے ہوں۔“

قطع نظر اس کے کہ گرامشی کیا کہنا یا نہیں کہنا چاہتا تھا، عام طور پر جب ہمارے بائیں بازو کے دوست یہ مضمون یکم جنوری سے پہلے شیئر کرتے ہیں یا نئے سال پر ہونے والی تقریبات پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں تو ان کا مقصد اونچ نیچ کے طبقاتی نظام پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔ وہ اپنا انتہائی جائزاحتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔

ایک مقصد اس حقیقت کا اظہاربھی ہوتا ہے کہ نیا سال یا عید اور کرسمس وغیرہ منانا ایک جعلی اور وقتی خوشی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جب تک سوشلزم نہیں آتا، حقیقی اور دائمی خوشی ممکن نہیں۔

مجھے مندرجہ بالا نقطہ نظر سے شدید اختلاف ہے۔ یہ انتہائی یاسیت پر مبنی رویہ اور موقف ہے۔

پہلی بات۔ کیا سوشلزم کے نہ’آنے‘ تک ہمیں خوش ہونے کا حق نہیں؟ اس سے بھی اہم سوال: اگر میری زندگی میں کوئی سوشلسٹ انقلاب اس ملک میں آیا ہی نہ تو؟ اس لئے میرا موقف ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے ہمیں ایک طرح کے ایوری ڈے سوشلزم (روز مرہ کا سوشلزم) بھی قائم کرنا چاہئے۔ روز کے روز، تھوڑا سا وقت، تھوڑی سی جگہ ایسی ہو جہاں ہم محنت کش لوگ اکٹھے ہو سکیں، خوش ہو سکیں۔ زندگی کے غم بھلا کر اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ ہنس کھیل سکیں۔ یہ سہولتیں ہمیں پاکستان کی عوام دشمن ریاست نہیں دے گی۔ ہمیں اپنے تھیٹر، سینما، جم، کھیل کے میدان، موسیقی کی محفل، میلے…یہ سب خود سے کرنا ہو گا۔ ریاست سے اس کا مطالبہ کرتے رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ مزدور اور کسان طبقے کو اپنی زندگی میں روز کے روز خوش ہونے، شعور حاصل کرنے، علم حاصل کرنے کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ ایسا ”مجھے نئے سال سے نفرت ہے“ کی بنیادپر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کے لئے مختلف طریقہ کار ہو سکتے ہیں۔ بہرحال رویہ اور موقف یہ ہونا چاہئے کہ ہم محنت کش خوشی منانے کا ہر موقع ڈھونڈیں گے۔ روز کے روز تلاش کریں گے اور سوشلسٹ انقلاب آنے تک بھی نیا سال منائیں گے، سالگرہ کا اہتمام کریں گے، عید، ہولی اور کرسمس منائیں گے، یوم مئی منائیں گے، پرانی روایتیں جو ہمارے ’بے وقوف‘ اجداد ہم پر تھونپ گئے ہیں، ان کا کایا پلٹ کر کے انہیں نیا رنگ دے دیں گے۔ جب پہلی مزدور ریاست پیرس کمیون کی شکل میں قائم ہوئی تو تھیٹر کا ٹکٹ ختم کر دیا گیا تھا۔

دوسری بات: اگر ان دوستوں کاموقف مان لیا جائے جو گرامشی کا مضمون اپنے فیس بک پر لگاتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں تو پھر کم از کم تھیوری کی حد تک یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ کیا مارکس وادیوں کو، جماعت اسلامی کی طرح، نئے سال کا بائیکاٹ کرنا چاہئے؟

حقیقت یہ ہے کہ اکثر دوست جو گرامشی کا مضمون شیئر کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ دائمی خوشی سوشلسٹ انقلاب کے بعد ہی ممکن ہے، وہ خود بھی نیو ائر مناتے پائے جاتے ہیں۔ ان کی حالت ان اہل ایمان والی ہوتی ہے جو شراب بھی پیتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔ شراب پیتے ہوئے انہیں احساس گناہ ہو رہا ہوتا ہے جسے مٹانے کے لئے وہ لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے انہیں الجھن ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ مے خانے کا رخ کرنا ہے یا نہیں۔ یوں نہ وہ شراب سے لطف اندوز ہوتے ہیں نہ نماز میں انہیں سکون ملتا ہے۔

تیسری بات: ایسا کوئی حتمی سوشلسٹ انقلاب ممکن نہیں جس کے بعد کوئی دائمی خوشی آ جائے گی۔ انقلاب آگے جانے کے لئے ایک بڑی جست ہے۔ ایک تاریخی فریضہ ہے۔ انقلاب اور انقلابی جدوجہدیں محنت کشوں کی زندگیاں آسان بناتے ہیں اور مجموعی طور پر خوشی کے امکانات کو بڑھاتے ہیں لیکن سوشلسٹ انقلاب کو مذہبی انداز میں پیش کرنا با لکل غیر انقلابی اور غیر سوشلسٹ ہے۔

یہ آڈیو لیکس عمران خان کی نہیں ہیں!

کہا اور سمجھا جا رہا ہے کہ یہ عمران خان اور عائلہ ملک کی آڈیوز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ آڈیوز اُس حکمران طبقے کا کٹھا چھٹہ ہیں جو خود تو کالا باغ کی سیر گاہوں میں موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان جنسی لطافتوں سے حظ اٹھانا چاہتا ہے جن کی مذہب اجازت نہیں دیتا مگر عوام پر یہ منافق ترین طبقہ شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے۔

آڈیو لیکس: کردار کشی کے بعد نا اہلی ہو گی پھر جلا وطنی

تیسرے مرحلے میں، نا اہلی کے بعد عمران خان کو آپشن دی جائے گی کہ وہ جیل کی ہوا کھانا چاہتے ہیں یا لندن میں جلا وطنی کو ترجیع دیں گے۔ عمران خان جیسے انقلابی سے طویل جیل یاترا کی توقع کوئی قوم یوتھ کا فرد ہی لگا سکتا ہے۔ دریں اثنا، پاکستان تحریک انصاف سے الیکٹ ایبلز پرواز کرتے جائیں گے۔

بلاول کو بچر آف بنگال یا بچرز آف افغانستان پر تو کوئی اعتراض نہیں

معلوم نہیں اُن دنوں، جب یہ مہم چل رہی تھی، پیپلز پارٹی کا بچر آف گجرات بارے کیا موقف تھا۔ کوئی موقف تھا بھی یا نہیں۔ ہاں البتہ جب چند روز قبل حنا ربانی کھر طالبان کے ساتھ فوٹو سیشنز کر رہی تھیں، جس کا مقصد طالبان کی گلوبل امیج بلڈنگ تھا، تو اس فوٹو سیشن سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ پیپلز پارٹی کو اپنی نوکری سے غرض ہے…اس نوکری کو بچانے کے لئے وہ بچرز آف افغانستان کو بھی ہنس ہنس کر گلے مل سکتے ہیں۔