Haris Qadeer

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔


ہائبرڈ منصوبے کا انجام: تاریخی تاخیر زدگی اور جمہوریت کی جنگ

موجودہ صورتحال میں یہ تو باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے پارٹی بنا کر دی تھی، وہ اپنی پارٹی اب واپس لے رہے ہیں۔ تاہم گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ سلسلہ کافی پرانا ہے۔ ہر چند سال بعد اسی طرح پارٹی بنانے اور پھر اسے واپس لیکر دوسری پارٹی بنانے کا سلسلہ بالکل اسی تسلسل سے جاری ہے، جس تسلسل سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ نہ سچی پارٹی مل سکی، نہ معیشت درست ہو سکی، نہ حقیقی قیادت پنپ سکی اور نہ ہی معاشرہ درست ہو سکا۔ حکیم کے پاس البتہ نسخہ وہی پرانا ہے، جسے ہر چند سال بعد نئے لیبل کے ساتھ مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور پیڑ ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں؟

ریاستی اداروں میں بھی ملک ریاض کی ایک گہری چھاپ ہے اور وہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ انہیں کام نکالنے کا طریقہ آتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ریٹائرڈ ججوں سے عسکری اداروں کے ریٹائرڈافسران اور سابق بیوروکریٹوں تک ان کے پراپرٹی کاروبار میں ملازمتوں پر تعینات ہیں۔ حاضر سروس عہدیداران بھی ان کے خلاف کسی نوعیت کی درخواستوں اور اپیلوں کو خوش دلی سے کم ہی قبول کرتے ہیں۔

جموں کشمیر: وزیراعظم کی عدالتی نااہلی اور نئے انتخاب کا معمہ

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ معاملہ پاکستان میں جاری سیاسی اور ریاستی بحران کی وجہ سے طول پکڑتا جا رہا ہے۔ اس خطہ میں حکومتیں ہمیشہ پاکستان کی مرہون منت ہی رہی ہیں۔ پاکستانی وفاق میں جو جماعت حکومت میں ہوتی ہے، وہی اس خطہ میں حکومت قائم کرتی ہے۔ تاہم اڑھائی سال بعد جب پاکستان میں حکومت تبدیل ہوتی ہے تو اس خطے کی حکومت تبدیل کرنے اور عدم اعتماد کے ذریعے اپنی مرضی کا وزیراعظم لانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔

آدم خور آئین

سرکاری گراؤنڈ میں لوگوں کی قطاریں لگی تھیں۔ صفدر بھی ایک قطار میں موجود تھا۔ ہزاروں مرد و خواتین کا یہ مجمع حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے کی خبر سننے کے بعد یہاں جمع ہوا تھا۔ تاہم آٹا تو صرف انہیں ملنا تھا، جو سرکاری امدادی پروگرام کے سروے کے دوران منتخب کئے گئے تھے۔ ان منتخب لوگوں کو موبائل پر آٹا وصول کرنے کا میسج آیا تھا۔ صفدر سمیت دیگر ہزاروں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس سروے کی مستحق افراد کی فہرست میں موجود ہی نہیں ہیں۔

رجسٹرار صاحب یہ ’کاکول اکیڈمی‘نہیں قائد اعظم یونیورسٹی ہے

پاکستان کی معروف جامعہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار راجہ قیصر احمد نے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹرپر ایک تفصیلی خط تحریر کرتے ہوئے جامعہ میں اپنے کئے گئے تمام طلبہ دشمن اقدامات کو جواز مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جامعہ میں طلبہ کی تمام سرگرمیوں کو تعلیم دشمن قرار دیا ہے اور جامعہ میں داخلوں کی کمی کا الزام بھی طلبہ پر ہی دھر لیا ہے۔

پاکستان کی ڈیجیٹل مردم شماری اور جموں کشمیر کا المیہ

اس متنازعہ خطے کی تمام اکائیوں میں بسنے والی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کے حامل محنت کشوں کے مابین اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی بنیادیں رکھنے کیلئے حکمت عملی اپناتے ہوئے قومی، لسانی اور ثقافتی شناخت اور آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک فیڈریشن کے قیام کیلئے جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد کی فتح مندی کیلئے بھارت اور پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم عبوری پروگرام کے ذریعے درست سمت میں جدوجہد کو آگے بڑھانے کا عمل ان نتائج کے حصول کو قریب سے قریب تر کرتا جائے گا۔

’پٹھان‘ پر فاطمہ بھٹو کا تبصرہ منافقت اور جہالت سے لبریز ہے

فاطمہ بھٹو کو تو شائد پتہ بھی نہ ہو گا کہ جس طرح جموں کشمیر میں نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کو مقبولیت دلا کر کشمیری سیاسی جماعتوں کا خاتمہ کرنے اور جموں کشمیر کو بھارتی مرکزی دھارے کی سیاست سے ہم آنگ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں، اسی طرح کی پالیسی 50 سال قبل بھٹو نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی جانب نافذ کر لی تھی۔ نہ صرف پیپلز پارٹی کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ذیلی شاخ قائم کی گئی تھی، بلکہ ایوب آمریت میں اس خطے پر مسلط کئے گئے حکمران عبدالحمید خان کو ہی وزیر اعظم بھی بنا دیا تھا۔

جموں کشمیر: بجلی پر سبسڈی اور رعایتیں، فائدہ کسے ہوتا ہے؟

کسی بھی خطے کے وسائل پر پہلا حق اس خطے میں بسنے والے شہریوں کا ہوتا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر پاکستان کی فیڈریشن کا آئینی حصہ نہیں ہے۔ اس لئے اس خطے کے پاکستان کی فیڈریشن کے ساتھ تعلق کو صوبوں کی طرز پر قائم کرنے اور دیکھنے کا عمل ہی غلط ہے۔ اس خطے سے 3 ہزارمیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے اور مزید منصوبہ جات تعمیر ہونے کی صورت یہ پیداوار 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔ اس خطے کی بجلی کی کل ضرورت 350 سے 400 میگا واٹ کے درمیان ہے۔

’طالبان پاکستان میں چاہئیں نہ افغانستان میں: ورنہ دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘

جتنی بھی جابرانہ طاقتیں ہیں، یا آؤٹ فٹس ہیں، انہیں پالیسی فارمولیشن کا حصہ نہ بنایا جائے، وہ ہمیں ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔ وہی آؤٹ فٹس جنہیں ہم ملکی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں، بعد میں پھر ہمارے لئے ہی تھریٹ ثابت ہوتے ہیں۔ معاشی خدشات کے بارے میں سوچی، فرینڈلی پالیسی بنائیں، غیر مداخلت کی پالیسی بنائیں، کبھی بھی مداخلت نہ کریں تاکہ کسی کو بھی مداخلت کا بہانہ یا ضرورت محسوس نہ ہو۔

پاکستان نیشنل آرٹس کونسل خط اقلیتوں سے متعلق ریاستی پالیسی کا عکاس

یہ تقریری مقابلہ ’جنت کسی کافر کو ملی ہے، نہ ملے گی‘ کے عنوان پر منعقد کروایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کو جنت ارضی قرار دیتے ہوئے ایک عرصہ سے بنیاد پرست اور عسکریت پسند تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ جموں کشمیر ایک جنت ہے اور بھارت کافروں کا ملک ہے، جسے جنت کسی صورت نہیں مل سکتی۔