اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی کی تازہ رپورٹ کچھ اہم حقائق منظر عام پر لائی ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی عمومی زوال پذیری اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پہ اثرات کا احاطہ کرتے ہیں۔

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی کی تازہ رپورٹ کچھ اہم حقائق منظر عام پر لائی ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی عمومی زوال پذیری اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پہ اثرات کا احاطہ کرتے ہیں۔
آج اس نظام کے تحت انسانی سماج ایسی ہی اجتماعی بربادی و بربریت کے خطرات سے دوچار ہے۔لیکن اس دنیا میں تاریخ کے سب سے بڑے اور دیوہیکل محنت کش طبقے کی موجودگی یہ امکان بھی کھولتی ہے کہ انسانیت خود تباہ ہونے کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ و برباد کر کے نجات کی منزل کی جانب آگے بڑھ جائے۔
یہی حال پانی کی فراہمی، نکاس، تعلیم، علاج، ریلوے، شہری سڑکوں وغیرہ سمیت ایسے تمام شعبوں اور پبلک سروسز کا ہے، جن کی بنیادوں پر کوئی معاشرہ تعمیر پاتا ہے۔ نام نہاد ترقی پذیر ممالک، جو درحقیقت غربت اور پسماندگی کے گھن چکر میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں اور جہاں انسانیت کی وسیع اکثریت بستی ہے، میں صنعتکاری اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے درکار وسائل اور دستیاب وسائل کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے، جسے سرمایہ داری کے تحت عبور نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستانی سرمایہ داری تاریخی بحران سے دوچار ہے اور ملک کو سماجی و معاشی طور پر ترقی دینے کے لئے جو دیوہیکل وسائل درکار ہیں وہ سرمایہ داری کے تحت میسر نہیں ہو سکتے۔ مذکورہ بالا اشارئیے ماضی میں بھی کسی بڑے معاشی معجزے کا پیش خیمہ نہیں تھے لیکن وقت کے ساتھ مزید ابتری کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کیفیت میں یہاں کسی معاشرتی و سیاسی استحکام کا قیام بھی محال ہے۔
طاقتور اداروں کی درمیانی پرتوں میں بھی عمران خان کی اچھی خاصی حمایت موجود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ برسراقتدار دھڑا ابھی تک عمران خان کو نسبتاً فری ہینڈدینے پہ مجبور ہو رہا ہے۔ شاید وہ ایک بتدریج انداز میں عمران خان کو کارنر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں بھی یہ اہم ہے کہ نئی حکومت لوگوں کو کس حد تک ریلیف دے پاتی ہے۔ جس کا ان پر شدید دباؤ ہے۔ لیکن ان کے پاس آپشن بہت ہی محدود ہیں۔ ایک طرف عمران خان ہے جو اپنی زبان درازی میں ہر حد تک جا رہا ہے اور ان کے ہر عوام دشمن اقدام کو بھرپور کیش کروائے گا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف ہے۔ نیچے سے عوام کا بھی دباؤ ہے۔
یہ بغاوت پہلے شریانوں میں دوڑتی ہے پھر امڈ کر گلیوں اور بازوں میں آ جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی تحریکوں کی چنگاریاں انقلاب کے شعلے بھڑکا دیتی ہیں۔
ان حالات میں حکمران طبقے کی سیاست دیکھیں تو عوام کے ان انتہائی تکلیف دہ، زندگیوں کو جہنم بنا دینے اور مسلسل بڑھتے جانے والے معاشی مسائل کیساتھ اس کا دور دور تک کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد ’پی ڈی ایم‘ اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں اگر بیروزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر کبھی ہوتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی واجبی اور فروعی انداز میں اور ثانوی مسائل کے طور پر کیا جاتا ہے۔
آج بالشویک انقلاب کے 103 سال بعد سوال یہ ہے کہ کیا سرمایہ داری انسانیت کے مسائل حل کر رہی ہے یا انہیں زیادہ گھمبیراور پیچیدہ بنا رہی ہے؟
گزشتہ روز لیبر پارٹی کا ایک اشتہار سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا جسے پاکستان میں بائیں بازو کے پیجز نے نہ صرف شیئر کیا بلکہ بہت سے انقلابی ساتھی بھی اسے دھڑا دھڑ شیئر کر رہے تھے۔
موجودہ کیفیت میں معیشت اب ایک مکمل انہدام کی طرف گامزن ہے۔ اس لئے لڑکھڑاتی معاشی بنیادوں پہ کھڑا سارا سیاسی اور سرکاری ڈھانچہ بھی لرز رہا ہے۔