خبریں/تبصرے

بجلی صارفین سے سالانہ 675 ارب روپے لوٹے جاتے ہیں

لاہور(جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے بجلی صارفین سے بجلی کی سبسڈی کی ادائیگی کیلئے سالانہ 675ارب روپے لوٹے جاتے ہیں۔ پنجاب کی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے کارکردگی بڑھانے کیلئے صارفین سے زائد بل وصول کئے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

’ٹربیون‘ کے مطابق سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال نے پیر کو بتایا کہ بجلی کی سبسڈی کی مد میں 900ارب روپے میں سے حکومت 327ارب روپے بجٹ سے ادا کر رہی ہے اور باقی صارفین سے ہی وصول کئے گئے ہیں۔ بریفنگ میں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی بھی موجود تھے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ پنجاب میں قائم ڈسکوز کم لاسز اور زیادہ وصولیوں کو ظاہر کرنے کیلئے صارفین کو کم از کم 100ارب روپے سالانہ کی اوور بلنگ میں ملوث ہیں۔

بریفنگ سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی نااہلی اور ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی کی قیمت ادا کرنے کیلئے لوگوں کو اضافی رقم جمع کرنے پر مجبور کیا گیاہے۔ تاہم سیکرٹری نے اووربلنگ کیلئے پاور سیکٹر کے اہلکاروں کے خلاف کسی کارروائی کی تفصیلات شیئر نہیں کیں۔

عوام پر براہ راست ٹیکس لگانے میں حکومت کی نااہلی کا نتیجہ اب بجلی کی پیداوار کی اصل لاگت سے زیادہ وصول کر کے وصولیوں کی صورت میں نکل رہا ہے۔

واضح رہے کہ ملک بھر کی 10ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے 4کمپنیاں پنجاب میں قائم ہیں۔ عبوری حکومت نے ڈسکوز کو صوبوں کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن سیکرٹری پاور کے مطابق یہ منصوبہ بند کر دیا گیا ہے اور اب ان کی نجکاری ہی واحد قابل عمل حل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی کم کھپت، غیر ملکی فنڈز سے چلنے والے پلانٹس اور ان کے قیام کیلئے مسابقت کی کمی اور شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ جیسے عوامل کی وجہ سے صارفین کو کپیسٹی پے منٹس کی مد میں 2ہزار ارب روپے یا 21روپے فی یونٹ سے زائد کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔

سیکرٹری کی جانب سے میڈیا کو دی جانے والی پرزنٹیشن کے مطابق کپیسٹی پے منٹس آئندہ مالی سال میں مزید بڑھ کر 2ہزار200ارب روپے ہو جائیں گی، جو کہ اس مالی سال کے مقابلے میں 203ارب روپے زیادہ بنتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

انکا کہنا تھا کہ بااثر کاروباری اداروں نے ماضی میں پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو ہائی جیک کیا تھا، مسابقت، مقابلے اور نئے کھلاڑیوں کے داخلے کو محدود کیا تھا۔ اگر پاکستان صنعت کاری کی بھاری سطح سے مطابقت رکھتا تو بجلی کی قیمتیں آج کے نرخوں سے 7روپے فی یونٹ کم ہو سکتی تھیں۔

انکا کہنا تھا کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے 4700میگاواٹ کے چار ایل این جی پاور پلانٹس لگائے، جن کی کپیسٹی پے منٹس87ارب روپے کی گئیں۔ ان کے مقابلے میں غیر ملکی فنڈز سے 6800میگاواٹ کے کوئلے پر مبنی پلانٹس کو 262ارب روپے کی کپیسٹی پے منٹس کی گئیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ بجلی کی موجودہ بلند قیمتوں کا کوئی قلیل مدتی حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسداد چوری مہم سے اب تک کیش ریکوری اور بجلی کی کم چوری کی مد میں 63.6ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سالانہ بجلی چوری201ارب روپے تھی اور کم وصولیوں کی وجہ سے مزید387ارب روپے ضائع ہوئے۔ 589ارب روپے بجلی کی تقسیم کی ناکاریوں کی لاگت اور تکنیکی نقصانات کی مد میں اس کے علاوہ ہیں۔ 11.5فیصد تکنیکی نقصانات ہوئے، جو مجموعی طور پر 300ارب روپے سے زیادہ تھے، لیکن وہ بجلی کے نرخوں کے ذریعے صارفین پر منتقل کر دیئے گئے۔

پاور سیکٹر کے واجبات رواں مالی سال کیلئے3.5ہزار ارب روپے رہے، جبکہ 2.5ہزار ارب روپے آمدن ہوئی ہے، 976ارب روپے کا فرق موجود رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts