دنیا

[molongui_author_box]

17 اپریل: کسانوں کی جدوجہد کا عالمی دن

اس سال ہمارا پوسٹر فطرت کے تمام عناصر کے باہم مربوط ہونے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں انسانیت ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ پوسٹر واضح کرتا ہے کہ کس طرح زمین (ماں) کسانوں اور ان کی جدوجہد کی حمایت اور انکے وجود اور حقوق کا دفاع کرتی ہے۔ اس وژن کے مطابق، ہم کسانوں جیسی اجتماعی تحریک کا حصہ بن کر بھی اپنی ماں جیسی زمین کو نذرانہ پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری ماں جیسی دھرتی اپنے فطری تاثرات کے علاوہ پہاڑوں کے ساتھ ہمارے آباؤ اجداد اور اجتماعی یادداشت کی علامت ہے۔

ایران اسرائیل تصادم: سامراجی طاقتیں دور رس تناظر سے عاری

بہرحال زیادہ امکان یہی لگ رہا ہے کہ کشیدہ حالات کو ادارہ جاتی مذمتوں اور پرفریب بیان بازیوں میں زائل کرنے اور ایران اسرائیل تصادم کو کم از کم وقتی طور پر دبا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ معاملات جتنے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر متعلقہ سامراجی طاقتیں خود بھی کوئی دوررس تناظر بنانے سے عاری نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے اس متروک سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال اور بربادی ہی مضمر ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔

سندھ نامہ (پہلا حصہ): مارکس اور بھگوان سانگھڑ کی بستی میں

بوڑھا مارکس دھرم میں وشواس نہیں رکھتا تھا لیکن اس تقریب میں موجود ہوتا تو اپنے چیلے،کامریڈ کرمون، کو شاباش ضرور دیتا اور اپنی عادت کے مطابق بھگوان اور مارکسزم کے اس ملاپ پر زور دار قہقہہ لگاتا۔۔۔میں یہ سوچتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا کہ کاش ایڈورڈ سعید بھی زندہ اور اس تقریب میں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ جس مارکس کو وہ اورینٹل ازم کا طعنہ دیتے ہیں وہ سانگھڑ میں پہنچ کر کیا روپ دھار لیتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹیوں کا اقتدار: نیپال پسماندگی کے باوجود سیاسی مباحث کا مرکز

نیپال میں اس وقت ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس حکومت میں 4بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ نئی حکومت 25فروری کو وزیراعظم پرچندا کی جانب سے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کے بعد قائم ہوئی ہے۔ نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این یو ایم ایل) ہے، دوسری بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ماؤسٹ سنٹر(سی پی ایم ایم سی) ہے، وزیراعظم پرچندا کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ تیسریبڑی سیاسی جماعت آر ایس پی ہے، جو پہلے کانگریس کے ساتھ شامل تھی، اب اس نئے اتحاد میں شامل ہے۔ چوتھی بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ سوشلسٹ (سی پی این یو ایس) ہے، جس کی قیادت سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل کر رہے ہیں۔

بربریت سے بچنے کے لیے عوامی اثر و رسوخ والی پارٹیاں اور انٹر نیشنل تعمیر کرنا ہو گی!

سرمایہ دارانہ بحران کی حرکیات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ بربریت اور انسانیت کی معدومیت، جہاں موجودہ حکمران طبقہ ہمیں لے جا رہا ہے، کی جانب اس تیز رفتار پیش رفت کو روکنے کا واحد امکان عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح ہے۔ عوام اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے تمام خطوں میں سال بہ سال بغاوتیں اور انقلابات برپا ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کہیں بھی کوئی ایسی انقلابی تنظیم سامنے نہیں آئی ہے جس کے پاس وہ تعداد، اثر و رسوخ، صلاحیت اور ارادہ ہو کہ ان تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

نوجوانوں کو ترجیح دینا ہو گی!

سرمایہ داری کا بحران نوجوانوں کو خاص طور پر متاثر کرتا ہے۔ دنیا بھر میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح عام آبادی سے کہیں زیادہ اور اکثر دگنی ہے۔ وہ غیر یقینی روزگار اور عدم استحکام سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کٹوتیوں کی پالیسیوں سے عوام کی تعلیم تک رسائی محدود ہوتی ہے اور تعلیم کا معیار بھی گرتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے نوجوانوں کا تناسب بڑھ رہا ہے جو نہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی کام کرتے ہیں۔ بورژوا ریاستوں کا جبرانہیں مجرم بنا کر پیش کرتا ہے، سزائیں دیتا ہے اور اکثر قتل کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری نوجوانوں کو کچھ نہیں د ے رہی۔ انہیں مواقع، زندگی کے مقصد، امید اور مستقبل سے محروم کر دیا گیا ہے۔

صنف: حقوق پر حملے اور ردِعمل

ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ محنت کش خواتین، حقوقِ نسواں اور دوسری صنفوں کے حقوق کی جدوجہد میں مداخلت کر یں تاکہ ان تحریکوں کو آگے بڑھایا جا سکے اور اپنی قوتوں کی تعمیر کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔ ایک ریڈیکل نوجوان ہراول دستہ ان تحریکوں کا حصہ ہے جو اس نظام کے اداروں اور جماعتوں پر یقین نہیں رکھتا اور انقلابی نظریات کو جذب کرنے کے لیے تیار ہے۔

’کوپ 28‘ اور ”ماحول دوست سرمایہ داری“ کا فریب

2023ء میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کی سطح سے تقریباً 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تک پہنچ گیا۔ 2023ء کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت پچھلے 100,000 سالوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ تھا۔

طالبان پاکستان کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو اسلام آباد کابل کے ساتھ کرتا تھا

یہ کاروائی پاکستانی افواج پر ایک دہشت گرد حملے کے بعد کی گئی جس میں لیفٹنٹ کرنل اور ایک کپتان سمیت سات اہل کار جان سے گئے۔ معروف صحافی عمر چیمہ نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بتایا کہ ایک اہل کار کا تعلق جہلم کے علاقے ٹمن سے تھا۔ جس دن فوجی افسر کا جنازہ ہوا، اسی روز اسی گاوں کے ایک اور شخص کا جنازہ تھا جس کا تعلق سپاہ صحابہ سے تھا۔ اس شخص نے ایک پولیس اہل کار کو قتل کیا تھا،جس کے بعد وہ جیل میں سزا کاٹ رہا تھااور جیل میں ہی ہلاک ہو گیا۔ٹی ٹی پی تب تک محفوظ رہے گی جب تک سپاہ صحابہ کو ریاستی سر پرستی میسر ہے۔

انقلابی رجحانات: محنت کشوں اور عوام کی پیش قدمی اور بائیں بازو کے لیے گنجائش

جس طرح انتہائی دائیں بازو کے ابھار سے ظاہر ہونے والے خطرے کو معمولی سمجھنا ایک غلطی ہو گی اسی طرح محنت کشوں اور وسیع تر عوام کے بڑھتے ہوئے ابھار سے انکار کرنا بھی بہت بڑی بھول ہو گی۔ یہ تحرک کئی برسوں سے جاری ہے اور 2023ء میں ایک جست کے ساتھ امریکہ اور یورپ کی طاقتور مزدور تحریک اس میں شامل ہوئی ہے۔ ہمیں اس میں فلسطینی مزاحمت کو بھی شامل کرنا چاہیے جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں سامراج کے منصوبوں کو غیریقینی سے دوچار کر دیا ہے۔