اکیسویں صدی کی دائیں بازو کی قوتوں نے انتخابی فتوحات کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور استحکام حاصل کیاہے۔انتخابی کامیابیوں کے بعد انھوں نے سماجی آزادیوں اور سماجی حقوق کو محدود کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ”نظام مخالف” کے طور پر پیش کرتے ہیں (منافقانہ انداز میں وہ موجودہ سیاسی نظاموں کو بدتر حالت، بدعنوانی اور غیر یقینی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں)، حالانکہ وہ بالکل بھی نظام مخالف نہیں ہیں۔ اپنی انتہائی نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ یا بعض اوقات زینوفوبک قوم پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے، وہ رجعت پسند اور روایتی بیانئے کو فروغ دیتے ہیں۔عمومی طور پر ان قوتوں کی بنیاد پرست مذہبی حلقوں میں بھی حمایت موجود ہوتی ہے۔
دنیا
غزہ میں جنگ بندی: تفصیلات، خطرات اور امکانات
فوری طور پر غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی واپسی اور آبادکاری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
اسرائیلی حکومت کے تمام اہم افراد پر جنگی جرائم کے الزام میں مقدمے چلائے جائیں اور انہیں سزائیں دی جائیں۔ اس ظالم حکومت کی سرپرستی کرنے پر جو بائیڈن پر بھی جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔
اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والے تمام سامراجی امریکی اور یورپی اتحادیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ تباہ حال غزہ کی بحالی اور تعمیر نو کے تمام اخراجات امداد کی صورت میں ادا کریں۔
جمی کارٹر نے کیسے ریگن کا راستہ ہموار کیا…
یہ جمی کارٹر کی ساکھ کے لیے اچھا ہی تھا کہ اس نے اتنی طویل عمر پائی۔ جن لوگوں نے کارٹر کی 1977ء تا 1981ء حکومت کو نہیں دیکھا وہ اسے انسانی حقوق، عالمی صحت عامہ اور غریبوں کی خدمت گزاری کے وکیل اور علمبردار کے طور پر جانتے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو ’’نسلی تفریق‘‘ (Apartheid) قرار دینے پر اس نے ایک سچ کہنے والے شخص کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔
جموں کشمیر: حق حکمرانی، حق ملکیت کے مطالبات اور عبوری آئین
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں حق حکمرانی اور حق ملکیت کا مطالبہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اس خطے میں نافذ العمل عبوری آئین’ایکٹ1974ء‘ کی منسوخی کا مطالبہ بھی کہیں نہ کہیں کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ حق حکمرانی اور حق ملکیت کی اصطلاحات کن معنوں میں استعمال کی جاتی ہیں، یہ دونوں حق کس طرح مل سکتے ہیں اور ایکٹ74ء میں ایسا کیا ہے،جس کی وجہ سے منسوخی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا خواب بھارت کیساتھ معاشی شراکت داری میں تبدیل
افغانستان کی طالبان حکومت نے دہلی کے لال قلعے کو فتح کرنے کا پاکستانی منصوبہ ترک کر کے بھارت کو خطے کا ایک اہم ملک اور معاشی شراکت دار قرار دیا ہے۔ طالبان کی وزارت خارجہ کا یہ بیان بھارتی سیکرٹری خارجہ اور طالبان کے قائمقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مابین دبئی میں ہونے والی ایک ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
الجولانی جہادی بھی، نیو لبرل بھی: ایچ ٹی ایس مزدور دشمن، عورت مخالف گروہ
پابندیاں ہٹانے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) آج کے شام میں کلیدی عسکری اور سیاسی کردارہے، لیکن وہ اب بھی امریکہ، اقوام متحدہ، ترکی،یورپی ریاستوں سمیت بہت سی طاقتوں کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی درجہ بندی میں شامل ہے۔علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کی طرف سے ایچ ٹی ایس کے نقطہ نظر میں تبدیلی کے باوجود ممکنہ طور پر ضمانتوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔
کیمونسٹ پارٹی اور بھارتی مسلمان: ایک مخمصہ جو سی پی ایم حل کرنے میں ناکام
طویل عرصہ سے بائیں بازو کی حکومت میں چلنے والی جنوب بھارتی ریاست کیرالہ میں مبینہ طور پر سونے کی سمگلنگ اور غیر قانونی و غیر منظم رقم کے لین دینے کے معاملات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ(سی پی آئی ایم) سے تعلق رکھنے والے ریاست کے وزیراعلیٰ نے مسلم اکثریتی ضلع ملا پورم کو ان جرائم کے لیے اہم مرکز قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جرائم اس ضلع میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ یہ غیر قانونی رقم کیرالہ میں ’ملک دشمن‘ سرگرمیوں کے لیے لائی جاتی ہے۔
اگلا خونی فٹ بال ورلڈ کپ سعودی عرب میں: چوتھی بار یہ مقابلہ غیر جمہوری ملک میں ہو گا
یہ کہنا کہ کھیل غیر سیاسی ہوتے ہیں بالکل ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ کچھ بھی غیر سیاسی نہیں ہوتا، حکمران طبقات کھیل سے لے کر میوزک تک اور آرٹ سے لے کر سکول کی تعلیم تک ہر چیز کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ مذہب کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سیکولرزم کو بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاک ایران سرحد پر تجارتی مصیبت
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، ان تجارتی بندشوں کی وجہ سے جو لاگت برداشت کی جا رہی ہے، وہ صرف معاشی نہیں ہے۔ ان سرحدی قصبوں میں لاگو پالیسیوں کی وجہ سے پورے صوبے میں خاندانوں کا رابطہ منقطع ہو گیا، تعلقات منقطع ہو گئے اور شناخت ختم ہو گئی۔
مجھے بچپن کی دھندلی یادیں یاد آرہی ہیں۔ میرے کچھ کزن اور اپنے والد کی بڑی بہن ہیں، جن سے میں صرف ایک بار چاغی ضلع کے دالبندین میں بچپن میں ہی ملا تھا۔ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں ایران کے سیستان بلوچستان سے ہم سے ملنے آئے تھے۔ مجھے اب اپنے کزنز کے نام یاد نہیں ہیں۔
شام: بشار الاسد کی آمریت کا خاتمہ، آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی
شام میں ایک آمریت کے جبر کا خاتمہ ضرور ہوا ہے لیکن ایک نئی سیاہ طاقت کے ذریعے اس آمریت کو توڑ اگیا ہے۔ نئی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے خدشات کے ساتھ ساتھ ابھی اقتدار پر قابض ہونے والے اتحاد اور دیگر جنگی گروہوں کے مابین مزید تصادم اور خونریزی کے امکان بھی موجود ہیں۔ سامراجی طاقتوں کے توازن تبدیل ہونے کی وجہ سے بھی مکمل گرفت قائم ہونے تک اس خونریزی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ شامی باشندوں کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس بربادی اور تباہ کاری میں بہتری نہ تو سخت گیر فرقہ وارانہ حکومت کے قیام کے ذریعے آسکتی ہے، نہ ہی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام کے قیام سے شام کو دوبارہ پہلے کی طرح آباد کیا جا سکتا ہے۔