عبداللہ بٹ راوی ریان فیکٹری میں ملازم رہے ہیں۔ یہ فیکٹری اس وقت سرکاری فیکٹری تھی۔ عبداللہ بٹ وہاں ٹریڈ یونین رہنما تھے اور غلام دستگیر محبوب کے ساتھ کم کرتے تھے۔فیکٹری کی نجکاری کے خلاف تحریک کے دوران عبداللہ بٹ کے ساتھ ہمیں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ عبداللہ بٹ کے تین بیٹے ہیں۔ ان کے بیٹے حیدر علی بٹ حقوق خلق پارٹی کے نائب صدر اور پراگریسیو ڈیموکریٹک لائرز فورم کے مرکزی رہنما ہیں۔ وہ پچھلے عرصہ میں ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے چلنے والی مقبول طلبہ تحریک کے بھی مرکزی رہنما تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے علی شیر بٹ پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کے رہنما ہیں۔
تاریخ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
عمانوئیل سرفراز کے دل نے گذشتہ روز مزید دھڑکنے سے انکار کر دیا۔پاکستانی معیار کے مطابق بھی،جہاں اوسط عمر ستر بہتر تک پہنچ چکی ہے، دل نے اپنا فرض منصبی بیس تیس سال پہلے ہی سر انجام دینا بند کر دیا۔ عمانوئیل سرفراز کا دل دھڑکنے پر آ مادہ بھی رہتا تو زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اس کے گردے بھی ناکام ہو چکے تھے۔
ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کی ایک صدی: کامیابیاں، اسباق اور چیلنجز
ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک اب ایک صدی پرانی ہوچکی ہے۔ اگرچہ کمیونسٹ پارٹی کے حقیقی یوم تاسیس کے حوالے سے مختلف آراء ہیں، تاہم سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) 26دسمبر1925کو بطور پارٹی سی پی آئی کے یوم تاسیس کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تمام حوالوں سے بھی ہم 1920کی دہائی کے اوائل کو اس دور کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں، جب ہندوستان میں کمیونسٹ نظریات کے گرد سرگرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس لیے یہ تحریک واضح طور پر ہندوستان میں ایک صدی پرانی ہے۔
گلگت بغاوت اور خود ارادیت
دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکیں عموماً طاقتور مقامی تحریکوں اور ان سے ابھرنے والی مضبوط سیاسی قیادت کے گرد مرکوز ہوتی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے یہ تحریکیں طویل مزاحمت میں شامل ہوتی ہیں، جو اکثر مسلح جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ایک طاقتور نوآبادیاتی مشینری کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہیں۔ ایسی تحریکوں میں نوآبادیاتی یا سامراجی غلبے کے خلاف ردعمل میں عوامی مزاحمت کا اظہار ہوتا ہے، جہاں محکوم لوگ نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے جذبات کو فروغ دیتے ہیں جو اس نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔
شہادت سے پہلے کرنل ابو طاہر کا جیل کی کال کوٹھڑی سے خاندان کے نام خط
میں نے اس ملک کی تعمیر کے لیے اپنا خون دیا ہے اور اب میں اپنی جان دوں گا۔ اس کو روشن کرنے دیں اور اس سے ہمارے لوگوں کی روحوں میں نئی طاقت پیدا کریں۔ اس سے بڑا انعام میرے لیے کیا ہو سکتا ہے۔
5 جولائی کا شب خون، ایک تاریخی تناظر میں
کہتے ہیں تاخیر سے مرتب ہونیوالی تاریخ زیادہ مستند ہوتی ہے۔ کیونکہ حکمران طبقے کے حاشیہ بردار اور بکاؤ و ضمیر فروش دانشور حقائق چھپا کر اور اصل حالات و واقعات کو مسخ کر کے قلم زن کرتے ہیں تاکہ حکمران اشرافیہ اور ان کے نظام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن خوشبو اور سچ صدا چھپ نہیں سکتے۔ لہٰذا ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ماضی کے چھپائے اور مسخ کیے گئے حقائق اور واقعات اپنی اصل اور حقیقی شکل میں منظر عام پر آ جاتے ہیں۔
ستر کی دہائی، بھٹو اور فلمی صنعت
ایک پھلتا پھولتا سنیما کلچر ایک ایسے معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے ،جس میں لوگ تفریح کے ذریعے اپنے مسائل، امیدوں اور خواہشات پر غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسا پھلتا پھولتا سنیما کلچر پاکستان میں 70ء کی دہائی میں تھا۔ اس دہائی میں وہ سیاسی بیداری اور سماجی ترقی پسند اقدار واضح تھیں جن کی شروعات 1968 کی عالمی تحریک سے ہوئی تھی۔ اس دہائی میں تاریخ کی سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں اور پہلی بار سرکاری سطح پر ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں فلمی صنعت کو باقاعدہ پذیرائی ملی۔ یہ دہائی پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کی دولت لے کر آئی۔ سنگیتا اور شمیم آرا جیسی خاتون ہدایتکاروں نے فلمی صنعت کے تنوع کو وسیع کیا۔ اردو کے جرائد‘مصور’، ‘شمع’، ‘ممتاز’ اور‘دھنک’ نے فلموں کے متعلق پڑھنے کا مواد فلم بینوں تک پہنچایا۔
جموں کشمیر: ’قرارداد الحاق پاکستان‘ ایک حقیقت یا افسانہ؟
19 جولائی کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت اور پاکستان نواز جماعتیں ’یوم الحاق پاکستان‘ کے طور مناتی ہیں۔ اس دن اس خطے میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مسلم کانفرنس اور سردار ابراہیم کے حامی خود کو اس قرار داد کا محرک قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو فخر سے جتلاتے ہیں کہ وہ بائی چوائس پاکستانی ہیں، اورانہوں نے پاکستان بننے سے قبل پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ سابق صدورسردار ابراہیم، سردار عبدالقیوم اور ان کے چاہنے والوں کا دعویٰ رہا ہے کہ 19 جولا ئی 1947 کو مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے سردار ابراہیم کے سری نگر میں واقع گھر میں الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی اور 24 اکتوبر 1947 کی حکومت کی بنیاد اسی قرارداد کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔
کرامت علی: ’امن کا پاکستانی پیامبر، جو میرے دادا کی راکھ واہگہ پار لے گیا‘
ب 2019 کے اوائل میں کرتار پور ویزا فری کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھنے والے انڈیا کے ایک وفد کے حصہ کے طور پر پاکستان جانے کا ارادہ کر رہی تھی،تو میں نے کرامت صاحب کو فون کر کے پوچھاکہ کیا میں ان کیلئے دہلی سے کچھ لا سکتی ہوں۔ انہوں نے اپنے دوست کے لیے ہومیو پیتھک دوائیاں مانگیں۔ یہ ایک ایسی دوا تھی جس نے کرامت صاحب کے لیے حیرت انگیز کام کیا تھا، اور کراچی میں دستیاب نہیں تھی۔
جب بھٹو کی پولیس نے مزدوروں پر گولی چلائی، کراچی 13 دن بند رہا
”ہماری تحریک صرف تنخواہ میں اضافے کے لئے نہیں تھی۔ہم مزدور کے لئے احترام چاہتے تھے۔ کراچی 1972 میں مزدوروں کا شہر تھا، یہ ایک الگ قسم کی طاقت تھی، یکجہتی تھی جس نے حکومت کو سننے پر مجبور کیا۔کراچی کو دوبارہ مزدوروں کا شہر بنانے کی ضرورت ہے۔“