مزید پڑھیں...

یہ جنگوں اور جغرافیائی سیاسی افراتفری کا دور ہے: چوتھی انٹرنیشنل

اکیسویں صدی کی دائیں بازو کی قوتوں نے انتخابی فتوحات کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور استحکام حاصل کیاہے۔انتخابی کامیابیوں کے بعد انھوں نے سماجی آزادیوں اور سماجی حقوق کو محدود کرنے کے اقدامات اٹھائے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ”نظام مخالف” کے طور پر پیش کرتے ہیں (منافقانہ انداز میں وہ موجودہ سیاسی نظاموں کو بدتر حالت، بدعنوانی اور غیر یقینی صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں)، حالانکہ وہ بالکل بھی نظام مخالف نہیں ہیں۔ اپنی انتہائی نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ یا بعض اوقات زینوفوبک قوم پرستی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے، وہ رجعت پسند اور روایتی بیانئے کو فروغ دیتے ہیں۔عمومی طور پر ان قوتوں کی بنیاد پرست مذہبی حلقوں میں بھی حمایت موجود ہوتی ہے۔

شکار پور: دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر کیخلاف ’دریا بچاؤ مارچ‘

اس مارچ کی قیادت ہاری جدوجہد کمیٹی سندھ کے کنوینر علی کھوسو، حقوق خلق پارٹی سندھ کے آرگنائزر عاشق ڈومکی، خلق یوتھ فرنٹ ضلع شکارپور کے آرگنائزر شعیب انڑ،منظور کھوسو، عرس چوہان، مشرف کھوسو، فہیم جمالی، عاجز عبدالغفور کھوسو، نظام الدین جوگی، عرفان دل اور دیگر کر رہے تھے۔

10 سال میں بشار الاسد نے 5 لاکھ شامی ہلاک کر دئے، کیا یہ ’سامراج مخالفت‘ ہے؟ غالیہ بدیوی

ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ شامی حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اس طرح ایک پرامن انقلاب،جس میں تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ شامل تھے، کو حکومتی تشدد نے جنگ میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں نے اسے انقلاب کہنا بند کر دیا، کیونکہ یہ ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیاتھا۔ انقلاب نے اپنی ساکھ کھونا شروع کر دی۔ جو انقلاب آمریت کے خلاف شروع ہوا تھا، اس میں اب مختلف کھلاڑی شامل ہوچکے تھے۔ اس انقلاب کوداعش جیسے کھلاڑیوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ انقلاب تتر بتر ہو کر رہ گیا۔بہت سے لوگوں نے امید چھوڑ دی اور یہاں تک کہ بین الاقوامی کمیونٹی نے بھیان ایداف پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا، جو اہداف انقلاب کے آغاز میں مقرر کیے گئے تھے۔

این ایس ایف کے زیر اہتمام سرساوہ کوٹلی میں سٹڈی سرکل کا انعقاد

جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیرِ اہتمام سرساوہ گراؤنڈ میں سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سٹڈی سرکل سابق مرکزی صدر امجد شاہسوار کی چوتھی برسی کے موقع پر”طلبہ کے مسائل اور این ایس ایف کا کردار“کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔

کرم میں اشیائے ضروریہ ناپید اور 4 گاؤں میں آپریشن کی تیاریاں

پارا چنار کو پشاور سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر ہر قسم کی آمد و رفت اتوار کے روز بھی بند رہی۔ اشیائے ضروریہ نہ ملنے کی وجہ سے ضلع کرم میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب لائر کرم کے چار دیہاتوں میں آپریشن کی تیاریاں شروع کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ فورسز نے کئی مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم بنکرز مسماری کا عمل تاخیر کا شکار ہے اور اب تک دونوں فریقین کے محض8بنکرز مسمار ہو سکے ہیں۔

فیض فیسٹول 14 تا 16 فروری، جالب میلہ 9 فروری کو منعقد ہو گا

ادھر اتوار کے روز منعقد کیے گئے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جالب میلہ 2فروری کی بجائے 9فروری2025کو کاسمو پولیٹن کلب باغ جناح میں منعقد کیا جائے گا۔ اجلاس میں جالب میلہ کے انعقاد کے حوالے سے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور 26جنوری کو اگلا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

منٹو: ہماری ننگی سوسائٹی کا آئینہ

اچھے لکھاری کے متعلق عام طور پر کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے مگر اُردو کے عظیم لکھاری سعادت حسن منٹو،جنہیں فحش اور رُجعت پسند کہا گیا، کا سب سے بڑا اور مظبوط ہتھیار اُن کی ایمانداری تھا۔ یہی ہتھیار مرتے دم تک اُن کے لئے مسائل کی وجہ بنا رہا۔ اس لئے کہ معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔ مگر منٹو نے بھی ایمانداری سے لکھنے کی ضد لگائی ہوئی تھی۔ جس بے باکی سے اُنہوں نے حقیقت نگاری کرکے مُعاشرے کی بُرائیوں سے نقاب ہٹایا اس کے لئے نہ تو برطانوی راج کے متحدہ ہندوستان میں جگہ تھی اور نہ ہی آزاد پاکستان میں۔ آزاد پاکستان نے تو اُن کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ”آزاد“کی اصطلاح ہی خراب ہوگئی۔

صفائی کرنے والے محنت کش، جو آج بھی انسان نہیں سمجھے جاتے

گزشتہ ماہ 27 دسمبر 2024 کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر کوٹلی میں بلدیہ کی ایک ملازمہ کی میت کو اس بنیاد پر دفن کرنے کے لیے مقامی قبرستان میں جگہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کہ اس کا تعلق صفائی کے پیشے اور اس برداری سے تھا جس کو اس سماج میں آج بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔