نقطہ نظر

نیو لبرل عہد میں ریپ بھی پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے

عافیہ شہر بانو ضیا

ترجمہ: فاروق سلہریا

صنفی تشدد بارے سینکڑوں دستاویزات این جی اوز کے دفتروں میں دھول سے اٹی پڑی ہیں۔ لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایک عورت کا ریپ ان دستاویزات کے غیر متعلقہ ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔ ریاست وِکٹم کو ہی موردِ الزام ٹہرانے پر بضد ہے بجائے اس کے کہ کوئی قانونی تحفظ فراہم کرے۔ سیاسی جماعتیں قانون تو بناتی ہیں مگر اپنی ہی صفوں کے اندر جنسی ہراسگی اور سیکس ازم کے خلاف اقدام اٹھانے پر تیار نہیں جبکہ کچھ علما حضرات ہیں جن کا مطالبہ سرعام پھانسیوں اور صنفی اپارتھائڈ کی حد تک محدود ہے۔

ففتھ جنریشن وارفیئر کے عقیدت مندوں کی طرح، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بھی بضد ہیں کہ وہ اپنی آن لائن جدوجہد کے ذریعے ریاست اور معاشرے کو ناانصافیوں پر شرم دلا کر گویا حالات کا پانسہ پلٹ رہے ہیں۔

جنسی جرائم کا شکار افراد ایک ایسے بے رحم نیو لبرل عہد کا شکار ہیں جس میں انہیں ایک طرف تو بے یقینی کا سامنا رہتا ہے تو دوسری طرف صدیوں پرانے تعصبات کا جو اُن کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔ ہر دو صورت ِحالات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ریپ کو بھی پرائیویٹائز کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کی ایک صورت یہ ہے کہ وِکٹم کو ہی موردِ الزام ٹہرا دیا جائے یا سر عام پھانسیوں کے ذریعے اسے تماشہ بنا دیا جائے۔

بائیں بازوکے لوگ نیو لبرلزم کو ایک سیاسی طعنے کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر اس کے تضادات سے واقفیت تھوڑی کم ہی پائی جاتی ہے۔ معاشی گلوبلائزیشن کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ساز و سامان، نظریات، خدمات اور آرٹ تو وافر مقدار میں موجود ہیں۔ آپ کے پاس انتخاب کرنے کے لئے بے شمار اقسام کی چیزیں موجود ہیں مگر اس کی قیمت ماحولیاتی اور اربن تباہی، بے انتہا طبقاتی تفریق اور صنفی تعلقات کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے۔

نیو لبرازم کی طاقت یہ ہے کہ وہ پوشیدہ رہتی ہے۔ اس کی قوت محرکہ منڈی کی طاقت ہے نہ کہ انسانی حالات۔ جیسے عوامی وسائل کی نجکاری کی جا رہی ہے بعینیہ تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور تحفظ جیسی بنیادی ریاستی ذمہ داریوں کی بھی نجکاری کی جا رہی ہے۔ امیر لوگوں نے تو اب رحم ِ مادر بھی کرائے پر لینا شروع کر دئیے ہیں تا کہ بچوں کی پیدائش بھی آؤٹ سورس کر دی جائے۔ معاشی تفریق کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماجی مضافات غریب لوگوں کا مقدر بن جاتے ہیں جبکہ غیر محفوظ کچی آبادیاں، فیکٹریاں اور ٹرانسپورٹ صنفی تشدد کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔

یہ کہ طاقت اور دولت کا ارتکاز تو ایک فیصد لوگوں کے ہاتھ میں ہے مگر انہوں نے ہر قسم کی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا ہے، اس تضاد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں غریب اور محروم لوگوں کو ہی مورد ِالزام ٹہرایا جاتا ہے۔

’تعلیم حاصل کرو، بے ایمانی مت کرو، نیک بنو، بچت کرو، جلدی شادی مت کرو، بچے کم پیدا کرو، دیر گئے گھر سے مت نکلو‘…یہ سب تلقینیں در اصل اس نیو لبرل منطق کی عکاس ہیں کہ اپنا بوجھ خود اٹھاؤ۔

اس منطق کا عورتوں کے لئے مطلب یہ ہے کہ اسی خاندان اور کمیونٹی پر انحصار کرو جن کے ہاتھوں وہ جنسی ہراسگی کا شکار ہیں۔ عورت پر ایک طرف تو یہ بوجھ ہے کہ وہ بلا معاوضہ گھر اور خاندان کی دیکھ بھال کرے، افزائش نسل کا بوجھ بھی اٹھائے اور مرد کی عزت غیرت بن کر بھی رہے مگر اس طرح کہ مرد جب چاہے اس سے پیچھا چھڑا لے۔

جواب میں عورت کو جو صلہ ملتا ہے وہ کسی مادی شکل میں نہیں تجریدی شکل میں ملتا ہے: اسے عزت، ہوس، غیرت، خوب صورتی اور تقویٰ کے پیمانے میں تولا جاتا ہے۔ نیو لبرل منطق کا تقاضا یہ ہے کہ مرد، جینڈر کے اعتبار سے طاقتور ہونے کی وجہ سے یا مراعات یافتہ طبقات اپنی دولت کے بل بوتے پر حاصل تحفظ کی وجہ سے، کمزور عورت اور جینڈرڈ اقلیتوں کاجنس کے طور پر لین دین اور سودے بازی کرتے ہیں یا ان کو جنسی لحاظ سے کوئی فالتو چیز سمجھا جاتا ہے۔

مزدوروں، عورتوں اور شہری حقوق کے لئے چلائی جانے والی ماضی کی تحریکوں کے نتیجے میں جو سہولتیں ملی تھیں، وہ نیو لبرل دور میں چھین لی گئی ہیں جبکہ سڑکوں پر ہونے والا احتجاج پہلے این جی اوز اور اب ٹوئٹر اور انسٹا گرام کی شکل میں ورغلا لئے گئے ہیں۔

سوشل میڈیا نیو لبرلزم کا ایک آلہ ہے۔ یہ وہ جعلی پبلک مارکیٹ سپیس ہے جہاں ہر فرد ایک برانڈ، صارف اور توثیق کرنے والا ہے جس کا کام ہے کلک، لائک اور ری ٹویٹ کرنا۔ جو طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی اخلاقیات کیا ہے یا یہ کہ اس طریقہ کار کا کوئی ٹھوس نتیجہ بھی نکلتا ہے یا نہیں، ایسے سوالوں پر کوئی غور نہیں کرتا۔

موٹر وے ریپ کیس کے بعد رائے عامہ کی آن لائن منڈی پر ریپ کلچر پر ناتجربہ کاری پر مبنی بحث سے لے کر قانون، سزا اوراسلام بارے بھانت بھانت کے تجزئے سیلاب کی صورت امڈ آئے۔ یہ آرا چند افراد کی آرا تھیں نہ کہ کسی اجتماعی سوچ کی علمبردار۔ بعض اوقات یہ آرا ڈیجیٹل سائٹس کی مدد سے، اپنے فینز کی بنیاد پر، پھیلائی گئی تھیں۔ بکھری ہوئی انفرادیت اسی کا تو نام ہے۔

ٹرینڈ کرنا کاروباری دنیا کی اصطلاح ہے مگر اب یہ اصطلاح اب گویا انسانی حقوق کی جدوجہد کا ایک اہم جزو ہے۔ کئی دہائیوں تک پاکستانی خواتین نے یہ جدوجہد کی کہ ریپ اور زنا کا فرق واضح ہو۔ زنا آرڈیننس نے دونوں کو مزید خلط ملط کر دیا۔ اسی طرح ان کارکنوں کی کوشش تھی کہ عزت لٹنا اور زیادتی جیسی اصطلاحات کا ستعمال ترک کیا جائے۔ ایسے تاریخی حوالوں کے باوجود موٹر وے ریپ کیس میں سروایور (Survivor) کے ساتھ ہونے والے ظلم کو ہیش ٹیگ motorwayincident کے ذریعے ڈیجیٹل انداز میں تلف کر دیا گیا۔

تشدد کے خاتمے کے لئے جو ہیلپ لائن یا موبائل ایپس بنائی گئی تھیں ان کا کبھی کسی نے حساب کتاب پیش نہیں کیا۔ اسی طرح کنسلٹنٹس، حکومت، ڈونرز اور این جی اوز اور ٹیکنوکریٹس کا بھی کبھی احتساب نہیں ہوا جنہوں نے مہنگے داموں یہ ہیلپ لائنز اور ایپس متعارف کرائی تھیں۔

زینب الرٹ کے نام سے شروع کی گئی ایپ محض ایک سیاسی ٹرافی ہے جس کا ذکر تو بہت کیا جاتا ہے مگر اس کی افادیت کا ثبوت کبھی پیش نہیں کیا گیا۔ ان سب پر اٹھنے والے اخراجات کا جائزہ لینا اس لئے بھی ضروری ہے تا کہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ضرورت ان ایپس اور ہیلپ لائنز کی ہے یا اس بات کی کہ سٹریٹ لائٹ، کیمروں، سڑکوں کنارے ایمرجنسی فون بوتھ یا قانونی و عدالتی نظام میں بہتری کی۔

کسی رجعتی فرد کی آن لائن مذمت بے کار کی مشقت ہے کیونکہ رائٹ ونگ مذہبی طبقہ ایک بڑے عوامی حلقے کا طاقتور نمائندہ ہے۔ دائیں بازو والے عورت کی آزادی سے نفرت نہیں کرتے، وہ عورت کی جنسی آزادی کے ہی منکر ہیں اور کم عمر کی شادیوں پر پابندی کے ہی خلاف ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خیال میں ریپ سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مابین اختلاط پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ریپ وکٹم کی شادی ہی ریپ کرنے والے سے کر دی جائے۔ کچھ بیوی کے ساتھ ریپ کو ریپ تسلیم نہیں کرتے۔ یہ سب دعوے اسلام میں پائے جانے والے ’اتفاق رائے‘ کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

’سکہ بند‘ ایکٹوسٹ جو ’لبرل مغربی روشن خیال فیمن ازم‘ سے متفق نہیں، وہ ان رائٹ ونگ لوگوں کو جواب کیوں نہیں دیتے؟ ماضی میں فیمن اسٹ گروہ اپنی سیا ست کو مقبول بنانے کی بجائے اپنی توجہ اس بات پر مرکوز رکھے ہوئے تھیں کہ ریاست کو فیمینائز کیا جائے، تشدد کا شکار عورتوں کی مدد کی جائے، ان کے لئے پناہ گاہیں بنائی جائیں، مقدمے لڑے جائیں، قانون اور پالیسیاں تبدیل کرائی جائیں۔ ایسے اقدامات یا ان کی توسیع پر بھی آج کل زور کم ہے اور جنسی تعلیم کی بات بھی نہیں کی جاتی۔

دکھاوے کی احتجاجی سیاست کے اس کھیل میں آج کل سیلیبریٹیز بھی ایکٹوسٹوں کے مقابلے پر اتر آئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ لوگ لوگوں کے ذہنی الجھاؤ میں بھی اضافہ کر رہے ہیں اور تحریک کو تقسیم بھی کر رہے ہیں۔

ایکٹو ازم کی منڈی میں ہونے والے شور کے نتیجے میں گاہے بگاہے غصے کا اِکا دُکا ابھار تو دیکھنے کو ملتے ہیں مگر کسی مسئلے کے حل کے لئے مستقل کام ہوا ہو، اس کی مثال ملتی ہے نہ ایسا اتفاق رائے جنم دینے کی سعی کی گئی ہے کہ کس طرح جنسی تشدد کو روکنا ہے، اس کی سزا کیا ہونی چاہئے یا یہ کہ ایک اسلامی جمہوریہ میں جنسی آزادیوں کی شکل کیا ہونی چاہئے۔

جنسی تشدد بارے کان پھاڑ دینے والے، تضادات سے بھرپور، اپنے منہ میاں مٹھو بنے والا شور و غوغا نیو لبرل ایکٹوازم کی بہترین مثال ہے۔ نیم حکیمانہ ٹوٹکے پیش کر کے یا جدوجہد کے طریقہ کار میں انقلابی تبدیلی، ریاستی ذمہ داری، جنسی خود مختاری اور مذہبی وثقافتی قبائلیت کی بات کئے بغیر نیو لبرل طریقہ کار ہی جاری و ساوی رہے گا۔

بشکریہ: دی نیوز آن سنڈے

Afia Zia
+ posts

آفیہ ضیا محقق اور مصنف ہیں۔ انکی درجنوں کتابیں اور مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کالم ’دی نیوز آن سنڈے‘اور ’ڈان‘ میں شائع ہوتے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ’فیتھ اینڈ فیمینزم‘ ہے۔