اداریہ جدوجہد
چند ہفتے قبل نجم سیٹھی کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ امریکہ پاکستان سے دو فضائی اڈے مانگ رہا ہے۔ اس خبر کی تصدیق گذشتہ ہفتے ہوئی۔
دو روز قبل طالبان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں پاکستان کا نام لئے بغیر پاکستان کو دھمکی جاری کی گئی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ’پڑوسی ملک‘ امریکہ کو فوجی سہولتیں دینے سے باز رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے کی بات ایک ایسی حکومت کے دور میں ہوئی ہے جس کی قیادت عمران خان کر رہے ہیں۔ عمران خان نے پاکستان پر ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان کی جانب لانگ مارچ کیا تھا۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت ایسا ممکنہ فیصلہ فوج کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتی۔
گویا گیارہ ستمبر سے جو دوہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے: طالبان کی سرپرستی بھی کرو اور امریکہ کو بھی خوش رکھو، ایک مرتبہ پھر گلے پڑ رہا ہے۔ ابھی چند سال پہلے جو وزیر اعظم ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ کر رہا تھا اور جو اسٹیبلشمنٹ امریکہ مخالف ماحول قائم کر نے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھی، اب وہ امریکہ کو اڈے دینے کی کوشش کریں گے تو اپنے ہی پالے ہوئے طالبان اور گود لئے ہوئے مولانا حضرات اس کی کھل کر مخالفت کریں گے۔ جماعت اسلامی کے قائد سراج الحق نے تو یہ کہہ کر مخالفانہ ٹویٹ جاری بھی کر دیا کہ ’پرائی جنگ‘ میں مت کودیں۔
امریکہ کو فوجی اڈے دینا ایک غیر مقبول حکومت کا غیر مقبول فیصلہ ہو گا۔ یہ بدترین یو ٹرن ثابت ہو گا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی حکومت امریکہ کو نہ بھی نہیں بول سکتی۔ رئیل اسٹیٹ کی لوٹ مار کے علاوہ امریکی امداد ہی تو ہے اس حکمران طبقے کے پاس جس سے یہ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
پاکستان کے شہری، بجا طور پر، اس اقدام کی سخت مخالفت کریں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے سے افغان جنگ جاری رہے گی۔ امن ایک سراب بنا رہے گا۔ طالبان اپنی کاروائیاں افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی شروع کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس جواز ہو گا کہ ہم امریکہ اور اس کے حواریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گویا ہم ایک مرتبہ پھر انتہائی خوفناک صورتحال کی جانب جا رہے ہیں۔
اس خطے میں امن کا تقاضہ ہے کہ امریکہ یہاں سے رخصت ہو۔ افغانستان میں تذویراتی گہرائی تلاش کرنے کی بجائے، وہاں امن قائم کرنے میں کردار ادا کیا جائے۔ افغانستان میں آگ جلے گی تو دھواں پاکستان تک ضرور آئے گا۔
پاکستان میں امریکی اڈے نا منظور۔
افغانستان میں ہر طرح کی غیر ملکی مداخلت نا منظور۔