لاہور (جدوجہد رپورٹ) بدترین معاشی بحران پر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف سری لنکا کی ریاست نے کریک ڈاؤن کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ ڈرانے دھمکانے کے اس سلسلے میں ایک اعلیٰ احتجاجی رہنما ٹیچرز یونین کے سیکرٹری جوزف اسٹالن کو کولمبو میں ان کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اسٹالن کو 28 مئی کو ایک بڑے احتجاجی مارچ میں شرکت کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ’ارگالیا‘ کے آغاز کے 50 روز پورے ہوئے تھے، ارگالیا ’جدوجہد‘ کیلئے سنہالی لفظ ہے، جس میں معاشی بدحالی پر حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق رانیل وکرما سنگھے کے صدارت سنبھالنے کے بعد اسٹالن سب سے سینئر ٹریڈ یونین لیڈر ہیں، جنہیں گرفتار کیا گیا ہے۔
تاہم مظاہرین گوتاپایا راجا پکسا کے بعد اب وکرما سنگھے کو بھی ان کے ہمنوا قرار دیتے ہوئے ان سے بھی استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالر نے اس گرفتاری کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’جوزف جیسے انسانی حقوق کے محافظوں کا کام حالیہ ہفتوں میں پہلے سے کہیں زیادہ اہم رہا ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہیے، سزا نہیں دینی چاہیے۔‘
واضح رہے کہ 28 مئی کو ہزاروں طلبہ، اساتذہ، ٹریڈ یونینسٹ، فنکار اور کارکن کئی کلومیٹر پیدل چل کر صدارتی سیکرٹریٹ سے متصل سمندر کنارے احتجاجی کیمپ میں جمع ہوئے تھے۔ احتجاجی کیمپ میں صدر رانیل وکرما سنگھے کے موجودہ مشیر برائے ٹریڈ یونین سمن رتنا پریا بھی موجود تھے۔
اس احتجاج کی رانیل وکرما سنگھے اور ان کی پارٹی یو این پی نے نا صرف حمایت کی تھی بلکہ اس احتجاج کو ان کی واضح آشیرباد بھی حاصل تھی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسٹالن نے کوئی جرم کیا ہے تو رانیل وکرما سنگھے نے بھی ایسا ہی جرم کیا ہے، پھر انہیں بھی گرفتار کیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سرکاری عمارتوں پر قبضے کے دوران عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں کئی دیگر احتجاجی رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ 22 جولائی کو مظاہرین پر فوجی حملے کے دوران بھی متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں لگتا کہ قانون ملک میں سب کیلئے یکساں ہے۔ رانیل وکرما سنگھے کا تقرر اس ملک کے لوگوں نے نہیں بلکہ راجاپکسا کے پارٹی اراکین پارلیمان نے کیا ہے۔ اب صدر مناسب اصلاحی ایجنڈا سامنے لائیں، نہ کہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ عوام جانتے ہیں کہ صدر کا اصلاحی ایجنڈا سامنے لانے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔